خان محمد یاسر
ڈالٹر عبدالعزیز عرفان کی تصنیف’’تاج محل اور اردو ادب‘‘ کو مصنف نے سات اسباق میں منقسم کیا ہے ۔سب سے پہلے دیباچہ جس میں موصوف نے اپنی مرحومہ شریک حیات کے نام اس کتاب کو موسوم کیا۔ عرض مصنف میں موصوف نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی بات کو کوڈ کیا کہ مغلیہ دور نے ہمیں تین عظیم یادگاریں عطا کیں۔( ۱) اردو زبان (۲) مرزا غالب (۳) تاج محل ،اس باب مصنف نے تاج محل کی تاریخی اہمیت اور اس لکھے گئے مقالے کے حوالے پیش کئے۔ آئینہ حیات ایک نظر میں موصوف کا تفصیلی تعارف موجود ہے ،جس میں ان کی تعلیمی قابلیت تعلیمی تجربہ جملہ تصانیف انعامات و اعزازات کی فہرست موجود ہیں ۔آخر میں چاہنے والوں کے لیے موبائل نمبر اور ای میل آئی بھی درج ہے۔
باب اول میں تاج محل اور ممتاز محل تاریخ کی روشنی میں بادشاہ شاہجہاں کی یوم پیدائش کا تفصیلی واقعہ، ممتاز محل کا تعارف اور انتقال کی تاریخ حوالوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔
باب دوم میں برہانپور سے آگرہ نعش منتقلی ،عارضی مدفن، دوم سوم اس پر معلومات فراہم کی گئی ہے۔ یہ کتاب بہت سارے رازوں پر سے پردہ ہٹانے کا کام کرتی ہیں۔ ہمیں تو صرف یہی لگتا تھا کہ ممتاز کا انتقال ہوا اور ان کی یاد میں تاج کو شاہجہاں نے تعمیر کروایا دیا، مگر ایسا نہیں ہے۔ اس کتاب میں بہت تفصیلی واقعات فارسی اور اردو میں تحریر کیے ہیں۔ باب سوم میں روضہ تاج کی تعمیر کب شروع ہوئی ،کتنی مدت میں تاج محل کی تعمیر مکمل ہوئی،سن تعمیر کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔
باب چہارم میں عہدِ مغلیہ اور دورِ شاہجہانی میں اردو کا استعمال کب سے ہوا؟ اس کے بارے میں حوالوں کے ساتھ معلومات تحریر ہے جو ہمارے علم میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فارسی کی غزلوں میں اردو کے الفاظ کا استعمال کتنی کثرت سے کیا جانے لگا تھا۔ اس باب میں ایک اقتباس یوں لکھا ہوا ہے کہ
اکبری عہد میں جوب مردانہ ،زنانہ بازار قلعہ میں لگتا تھا ،سے اردو کہتے تھے۔جہانگیر کے وقت میں بھی یہ آباد رہا۔ وہاں لین دین بدستور اسی مخلوط زبان (اردو) میں ہوا کرتا تھا۔ شاہجہاں بادشاہ کے زمانے میں یعنی سترہویں صدی سے اُردو کا لفظ زبان کے لیے استعمال ہوا۔ لیکن شاہجہاں اور اورنگزیب کے زمانے تک اس کا استعمال بہت محدود تھا۔ اسی باب میں موصوف نے اپنے حوالوں کے سہارے ولی اورنگ آبادی کو ولی احمد آبادی لکھ کر عہد اورنگزیب عالمگیر کے اہم شاعر ولی دکنی کا تعارف پیش کیا ہے۔ باب پنجم میں اردو شاعری کے نام سے کہا کہ اردو ادب میں تاج محل کی صدائیں گونجنے لگی۔ اس میں بہت سی غزلیں اور نظمیں حوالوں کے طور پر پیش گئی ہیں۔
باب ششم میں نثری مضامین پر تبصرہ کیا ہے اور ساتھ ہی اردو انگریزی مضامین کے اقتباسات پیش کئے گئے ہیں۔ باب ہفتم میں اس کتاب کے ماحصل کے بارے میں لکھا ہوا ہے اور آخر میں حوالہ جاتی کتابوں کی فہرست پیش کی ہے ۔ آخر میں ممتاز محل کی آخری تین آرام گاہوں کی یاد گار تصاویربلیک اینڈ وائٹ میں ہماری معلومات کیلئے لگائی گئیں ہیں اور اس کتاب کا مطالعہ کرنے پر موصوف اپنے قارئین کا شکریہ ادا کیا ہے۔
رابطہ۔9881296564
ای میل۔[email protected]>