سوال:- اسلام میں لباس متعین ہے یا نہیں ؟
رفیق الحسن،بارہمولہ (کشمیر)
اسلام میں لباس متعین لیکن مخصوص نہیں
جواب:-اسلام میں لباس ضرورمتعین ہے ۔ مگر اس متعین ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کوئی لباس مخصوص کرکے دیگرلباسوں کو حرام کر دیا گیا ہوبلکہ متعین ہونے کے معنی یہ ہیں کہ چند چیزوں سے بچنے کا حکم دے کر بقیہ ہرلباس کو جائز قرار دیا گیا ۔ چنانچہ وہ یہ ہیں :(۱)-ہروہ لباس ممنوع ہے جس سے پردہ کی ضرورت پوری نہ ہو ۔ چنانچہ آج کے عہدمیں تنگ وچست لباس جس میں بدن کے چھپائے جانے والے اعضاء کا حجم نمایاں طورپر دوسروں کو محسوس ہو سراسر غیر اسلامی لباس ہے ۔ چاہے مرد ایسا لباس استعمال کریں یا عورتیں……گویا اسلام ڈھیلا اور اعضاء کے نشیب وفراز اور حجم کو ظاہر نہ کرنے والے لباس کو پہننے کا حکم دیتاہے ۔
لباس کے لئے یہ شرط قرآن کریم سے ثابت ہے۔ (اعراف)۔ لہٰذا تنگ و چشت پتلون جسےSKIN TIGHT کہتے ہیں یا بدن سے چپکا ہوا پاجامہ ، دونوں غیر شرعی زمرے میں آئیں گے ۔اسی طرح عورتوں کے لئے تنگ وچست فراک اور مردوں کے لئے ایسی قمیص یا شرٹ ممنوع ہوگی جو بہت تنگ ہو۔دوسری شرط یہ ہے کہ ہر ایسا لباس جو دوسری اقوام کی مذہبی یا تمدنی علامت ہو وہ بھی ممنوع ہوگا۔ چنانچہ دھوتی ، غیر مسلم اقوام جیسی پگڑی اور مغربی اقوام کے تمام وہ لباس جوفیشن اور فحش مزاج کی ترویج کے لئے رائج کئے جارہے ہیں وہ سب غیر اسلامی ہوں گے۔ یہ حدیث سے ثابت ہے ۔ چنانچہ ابودائود میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔
تیسری شرط یہ ہے کہ مرد عورتوں جیسا لباس نہ پہنیںاور عورتیں مردوں جیسا لباس نہ پہنیں ۔ اس پر حدیث میں لعنت کی گئی ۔ یہ حدیث بخاری مسلم وغیرہ میں ہے کہ اُن مردوں پر لعنت جو عورتوں جیسا لباس پہنیں اور اس عورتوں پر لعنت جو مردوں جیسا لباس پہنیں ۔ دراصل اسلام دونوں صنفوں کے طبعی فرق اور فطری انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے دونوں کے لباس میں بھی فرق قائم رکھنے کا حکم دیتاہے تاکہ دونوں کا امتیاز برقرار رہے ۔ جبکہ آج کا فیشن زدہ تمدن دونوں کو مخلوط کرکے معاشرہ کو اباحیت پسند آوارگی کا شکار بنانے اور جنسی بے راہ روی کے دلدل میں ڈبونے کا علمبردار ہے اور اس کو حسین عنوان کے ساتھ ترویج دینے پر گامزن ہے جبکہ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ فاسقوں ،فاجروں جیسا لباس استعمال نہ کیا جائے ۔ چنانچہ جوطبقے جنسی کشش پیدا کرنے والے لباس استعمال کرتے ہیں اور زناکاری یا فحش کاری ،جن کے یہاں کوئی جرم نہیں، اُن کے مخصوص لباس کو اسلام ہرگز قبول نہیں کرتا ۔ چنانچہ حدیث میں ہے سادگی ایمان کا مقتضیٰ ہے ۔ اس کے معنیٰ یہ نہیں اسلام نفاست کاقائل نہیں ہے ۔حقیقت یہ ہے صفائی ستھرائی او رسلیقہ وتہذیب کا جس طرح اسلام علمبردار ہے اُس طرح کوئی مہذب اور دوسرا کوئی ازم نہیں۔ طہارت، نظامت اور نفاست تو اسلام کی تعلیمات کا اہم حصہ ہے۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ مرد نہ ریشم کا لباس پہنیں ، نہ تیز سرخ لباس پہنیں اور نہ ٹخنوں کے نیچے کپڑا لٹکائیں۔اس کی مزید تفصیل درس ترمذی نیز تکملہ فتح الملہم شرح مسلم کے کتاب اللباس میں ملاحظہ کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-میں نے ایک حدیث پڑھی ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ایسا وقت آنے والاہے کہ کوئی بھی مسلمان سود سے نہیں بچ سکے گا ۔ اگر کوئی خود سودکھانے سے بچ بھی جائے تب بھی سود کا بخار اُس تک ضرور پہنچے گا ۔
اب میراسوال یہ ہے کہ یہ صحیح حدیث ہے ۔ اور سود کا بخار کیسا ہوتاہے۔اس کی تشریح کیاہے اور کیا وہ وقت آچکاہے یا ابھی نہیں ۔ ان تینوں سوال کا جواب ضرور لکھیں ۔
محمد اختر…سرینگر
سودکے بخار کی تشریح
جواب:۔ یہ حدیث ابودائود ، نسائی ،ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ لوگوں پر ایسا وقت ضرور آنے والاہے کہ سود کھانے سے کوئی ایک بھی پرہیز کرنے والا نہ ہوگا اور اگر کوئی سود سے بچنے میں کامیاب ہوبھی جائے تو سودکابخار اُسے ضرور پہنچے گا۔ ایک حدیث میں بخار کے بجائے غبار کا لفظ ہے ۔
یہ حدیث صحیح ہے ۔اور یہ حوالہ اوپر آچکاہے کہ کن کن کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے ۔ اس کے راوی حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔ حدیث کے مشہورشرح کرنے والے ملاعلی حنفی القاری نے لکھا ہے کہ سود کے تحائف قبول کرنا ،سود کی رقموں کی دعوت کھانا سود کا بخارہے یا سود کاغبارہے ۔ یعنی کسی شخص کو کوئی چیز بطور تحفہ دی جائے حالانکہ وہ سود کی رقم سے مہیا کی گئی ہے ۔ چنانچہ بنکوں کی ڈائریاں ،قلم ، کیلنڈر اور اس قبیل کی دوسری چیزیں کبھی وہ حضرات بھی بڑے شوق،اصرار اور خوشدلی سے قبول کرتے ہیں ، جو اپنی زندگی میں سود سے بچنے کی سعی کرتے رہتے ہیں مگر وہ یہ تحائف جوسودی رقوم سے حاصل کئے گئے ہیں ،قبول کرکے سودی بخار یا غبار سے اپنے آ پ کو آلودہ کرتے ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے ساری دنیا ،خصوصاً برصغیر اور خود یہاں کشمیر کے حاجی صاحبان کو بنکوں کی طرف سے تھیلے دیئے جاتے ہیں۔حجاج شوق سے خوش ہوکرقبول کرتے ہیں اور پورے حج میں کندھوں میں وہی بیگ لٹکائے پھرتے ہیں اور خیال بھی نہیں کہ ہم سود ی تحفہ لئے کعبہ میں پہنچ گئے ۔یا رمضان میں روزے داروں کو سودی رقوم سے خود بنک کی طرف سے افطار کرانا ،جس کا مشاہدہ باربار کیا گیا یا افطار پوائنٹ بناکر اُن میں فیرنی ،شربت کا اہتمام کسی بنک کی طرف سے ہو تو یہ وہی سودی بخاری ہے ۔
یا کسی شخص نے سودی رقوم سے اپنے گھر میں کسی دعوت کا اہتمام کیا ، چاہے یہ کسی بھی عنوان سے ہو ، بہرحال اس دعوت میں شرکت کرنے والے اکثر اس سے واقف ہی نہیں ہوتے کہ ہم کو سودی رقوم سے پُرتکلف دعوتیں کھلائی جارہی ہیں ۔
یہ وہی سود کا بخاریا سود کا غبار ہے ،جس کے متعلق رسول رحمت حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ارشاد فرمایاہے۔ اسی طرح ملازمین کو جب تنخواہیں بنکوں سے لینے کا مکلف بنایا گیا تو بے شمار دیندار اورسود سے مکمل نفرت کرنے والے حضرات مجبوراً بنکوں سے تنخواہ لے کر گویا اُسی بخار کا شکارہوجائے ہیں او روہ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے ۔ اس طرح یہ پیشینگوئی اس وقت بڑے پیمانے پر پوری ہورہی ہے ۔ اب ہر صاحب ایمان خودفیصلہ کرے کہ اُس کیلئے سود سے بچنے کے لئے کتنا محتاط وچوکنارہناضروری ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-ہم بہت سارے دوست عمومی تعلیم سے وابستہ ہیں او رساتھ ہی دینی علوم کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں کہ ہم کن کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ ہماری دینی فکر درست بھی اور پختہ بھی ہو ۔
ڈاکٹر ند یم —جموں
پختہ دینی فکر کے لئے حصولِ علم کی ضرورت
جواب:-دینی علم دراصل بہت سارے علوم کا مجموعہ ہے اور جب تک باقاعدہ اُن تمام علوم کو کسی مستند ادارے میں حاصل نہ کیا جائے اُس وقت تک مکمل رسوخ واعتماد حاصل نہیں ہوپاتا ۔تاہم دینی فکر کو پختہ کرنے اور اسے تمام طرح کے افراط وتفریط سے محفوظ رکھ کر مضبوط بنانے کے لئے ایسے افراد، جو عصری علوم سے وابستہ ہو ، درج ذیل کتابیں یک گونہ ضرور فائدہ ہوں گی ۔
تفسیر میں آسان ترجمہ قرآن اُردو وانگریزی از مولانا محمد تقی عثمانی ۔ پھر تفسیر معارف القرآن از مولانا مفتی محمد شفیع ؒ (اردو انگریزی علوم القرآن از مولانا تقی عثمانی ، معارف الحدیث (اردو انگریز) از مولانا منظور نعمانی ۔ الادب المفرد از امام بخاریؒ،ریاض الصالحین (اردو وانگریزی ) از امام نوریؒ۔ محاضرات حدیث از ڈاکٹر محمود احمد ۔عقائد میں عقیدۃ الطحاویؒ اور عقائداسلام از مولانا محمدادریس کاندھلویؒ
سیرت طیبہ میں سیرت النبی ؐاز علامہ شبلی ؒ وعلامہ سید سلمان ندوی اور الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن نیز رحمتہ اللعالمینؐ۔ تاریخ اسلا م میں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی تاریخ اور تاریخ ملت حیات الصحابہ از مولانا محمد یوسف کاندھلوی ۔
مواعظ میں ، اصلاحی خطبات ، خطبات فقیر، خطباب حکیم الاسلام ، مواعظ فقیہ الامت نیز پیر ذوالفقار احمد کی تمام کتابیں ۔
متفرقات میں اختلافات امت اور صراط مستقیم ، سنت نبوی اور جدید سائنس ، مغربی میڈیا ، جہانِ دیدہ ،آپ کے مسائل اور ان کا حل ۔ ثبوت حاضرہیں ۔
فتاویٰ محمودیہ اور مولانا محمد رفعت قاسمی کی تمام کتابیں۔ان کے بعد کسی مستند عالم سے رہنمائی لی جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:-اکثر مرغ فروش ، مرغ ذبح کرکے اندر سے صفائی کرنے سے پہلے ہی اُسے گرم پانی میں ڈال دیتے ہیں اور اس کے بعد مرغ کی باہر سے صفائی کرتے ہیں ، غالباً اس لئے کہ اس سے پنکھ وغیرہ نکالنے میں آسانی ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد اندر سے صفائی کرتے ہیں ۔ کیا ایسا کرنا حرام نہیں ؟
افتخار حسین شاہ …کشتواڑ
ذبح مرغ…ایک اہم مسئلہ
جواب:- مرغ کو ذبح کرنے کے بعد اندر کی آلائش ،یعنی انتڑیاں اور بیٹ کی تھیلی وغیرہ ،نکالے بغیر گرم پانی میں ڈالنا ہرگز دُرست نہیں ۔ اگر ایسا کیا گیا تو مرغ کا گوشت ناپاک ہوجاتاہے ۔ اگر اندر کی ساری آلائش نکال دینے کے بعد مرغ کو گرم پانی میں ڈالا جائے تاکہ اُس کے پَر آسانی سے الگ ہوجائیں تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ جب کسی مسلما ن نے دعوت کی ہو تو صرف شک کی بناء پر یہ تحقیق کرنا لازم نہیں ہے ۔ اس لئے ایک مسلمان کے متعلق یہ بدگمانی نہیں کرسکتے کہ وہ حرام یا ناپاک چیز کھلائے گا ۔ لیکن اگر اس کا یقین ہوکہ کھانے میںحرام یا ناپاک اجزاء کی ملاوٹ ہے تو اُس دعوت میں شریک ہونا ہی دُرست نہیں ہے ۔ اگر قرابت داری یا حق ہمسائیگی کی بناء پر شرکت کرنا ضروری ہوتو اُس کھانے سے پرہیز کیا جائے جس میں حرام یا نجس کی آمیزش ہو۔