سوال: نکاح انسانی زندگی کا ایک اہم ترین شعبہ ہے جو دن بدن مختلف رسومات اور بدعات کی وجہ سے ایک مشکل ترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسلئے آپ سے التجا ہے کہ نکاح کے بارے میں شریعت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ مندرجہ ذیلمسئال کی وضاحت کی جائے۔
(۱) ولیمہ کی کیا اہمیت ہے؟
(۲) لڑکی والوں کی طرف سے ولیمہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
(۳) نیوتہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۴) وراثت کیا کی اہمیت ہے؟
(۵) آج کے دور میں سنت کے مطابق شادی کرنے کا طریقہ وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ تاکہ مختلف بدعات اور رسومات کا خاتمہ ہو جائے؟
محمد عرفان لون
جواب: نکاح کے متعلق حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچے کم ہوں اس کے برخلاف مختلف رسوم کی بنا پر نکاح کو مشکل بنانے کے طرح طرح کے مفاسد اور خرابیاں ہمارے پورے معاشرے کو تباہ کر رہی ہیں۔ اگر نبوی طریقے پر اور شریعت کے مقرر کردہ طرز پر نکاح ہونے لگیں تو بہت سارے فائدے ہونگے اور بہت خرابیوں سے تحفظ ہوگا اور بہت ساری قومی دولت اسراف کا شکار ہونے سے بچ جاتی ان غلط رسوم کا خاتمہ ہوگا۔ اس سے نکاح جلد اور آسانی ہونے لگیںگے۔جس کی بنا پر نوجوان گناہوں سے بچ جائیں گے۔ شرعی ضابطہ یہ ہے رشتہ طے ہونے کے بعد مسجد میں نکاح ہو۔ مالی وسعت کے مطابق مہر ادا ہو جائے اور بغیر کسی بارات کے لڑکا اپنی زوجہ کو خود رخصت کراکے لے جائے اور جتنی مال کی گنجائش ہو اس کے مطابق ولیمہ کیا جائے اور بس۔
ولیمہ سنت ہے ۔ اور مالی وسعت کے مطابق سنت ہے اور یہ بھی لڑکے کیلئے سنت ہے۔ لڑکی والوں کا کھانا پینے کا انتظام کرنا نہ سنت ہے نہ یہ کوئی ولیمہ ہے لڑکی والوں کی دعوت صرف ایک غلط رسم ہے جو قابل ترک ہے۔نیوتہ بھی کوئی شرعی حکم نہیں ہے ۔ نہ اِس میں کوئی اجر و ثواب ہے یہ بھی صرف ایک غلط رسم ہے ۔ نیوتہ کو کچھ علاقوں میں ورتائو، کچھ علاقوں میں گل میوٹھ اور کچھ جگہ لین دین کہتے ہیں۔ اگر یہ خالص تحفہ ہو تو پھر شرعاً اس میں کوئی اعتراض نہیں مگر اضافوں کیساتھ لین دین ہے۔ اور اس کے باقاعدہ بہی کھاتے بنائے جاتے ہیں پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنا دیا گیا ہے اور واپسی میں کتنا لایا گیا۔ اسکے ساتھ ہی یہ بھی طے ہے کہ دینے والا اس جذبہ اور ارادے سے دیتا ہے کہ اس کے عوض زیادہ ملے گا۔ اس لئے یہ ناجائزہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وہ احسان مت کرو جس میں مقصد یہ ہوکر زیادہ ملے گا۔ سورہ المدثر
حدیث میں بھی ایسا ہدیہ دینے سے منع کیا گیا ہے جس میں مقصد زیادہ لینا ہو۔
ان وجوہات کے بنا پر نیوتہ ورتائو، گل میوٹھ منع ہے اگر تحفہ دیا جائے تو وہ شرعاً درست ہے مگر نہ واپسی کی نیت ہو نہ زیادہ لینے کا مقصد ہو اور نہ ہی بہی کھاتہ بنایا جائے۔
کیا سودی نظام والے اداروں میں ملازمت کرنے والوں کی امامت صحیح ہے
سوال: زید حکومت کے محکمہ کمرشل ٹیکس( Commercial tax) میں ملازمت کرتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے کہ یہ ٹیکس کا نظام غیر شرعی ہے۔ تاہم اسکوبدل دینے پر قادر نہیں ہے۔ معاشی مجبوری کے بہ سبب ملازمت کرتا ہے۔ اور زید الحمد للہ مکمل طو ر پر شرعی وضع قطع رکھتا ہے۔ اور نماز کے اہم مسائل سے بخوابی واقف ہے اور قرآن کریم تجوید کے ساتھ اچھی طرح پڑھتاہے۔ تو کیا زید کسی وقت امام کی عدم موجودگی میں نماز پڑھا سکتا ہے اور اگر وہ کچھ نمازیں پڑھا چکا ہے تو صرف اس وجہ سے کہ وہ محکمہ ٹیکس میں ملازمت کرتا ہے اسکی پڑھائی نمازیں واجب الادعاہ ہیں؟
(۲)حکومت کے دوسرے ملازمین کو اسی ٹیکس سے جمع شدہ رقم سے تنخواہ دی جاتی ہے کیا بلال جو ایک دوسرے محکمہ میں ملازمت کرتا ہے مثلاً محکمہ تعلیم میں، تو کیا بلال کی امامت بلا کراہت درست ہے؟
(۳) کیا شرعی وضع قطع رکھنے والے شخص اور اچھی قرات سے قرآن پڑھنے والے شخص کے پیچھے جو کہ باقاعدہ سند یافتہ عالم نہیں ہے ایک سند یافتہ عالم کی نما زہوسکتی ہے؟
روشن دین تانترے
جواب: کمرشل ٹیکس کے محکمہ میں ملازمت کرنے والے شخص کی امامت درست ہے اور آج تک جو نمازیں وہ پڑھا چکا ہے وہ بھی درست ہوگئی ہیں۔ اور آئندہ اگر وہ امام مقرر ہو جائے تو جو نمازیں وہ پڑھائے گا یا امام مقرر ہو جائے بغیر اگر نماز پڑھائے وہ نمازیں بھی درست ہونگی۔
(۲) حکومت کے کسی بھی دوسرے شعبہ کے ملازمین جو گورنمنٹ کے خزانے سے تنخواہیں لیتے ہیں۔ تنخواہوں کی یہ رقم مختلف مدات سے حاصل شدہ ہوتی ہیں اُن میں ٹیکس کی رقوم بھی ہیں۔ کسی بھی شعبہ مثلاً محکمہ تعلیم یا محکمہ صحت وغیرہ کا کوئی ملازم اگر امامت کے اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے۔ اتو اس کی امامت درست ہے صرف ٹیکس کی رقوم سے حاصل شدہ تنخواہ کی بنا پر کسی کے امام بننے پر شرعاً کوئی اعتراض نہیں ہے۔
(۳) امام کے عقائد درست ہوں۔ شرعی وضع قطع ہو، قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو۔ تمام کبیر گناہوں سے پرہیز کرتا ہو، نماز کے ضروری مسائل سے وہ واقف ہوں تو اس شخص کی امامت درست ہے۔ اور اس کی اقتداء میں مستند عالم، محقق مصنف، صاحب دل اہل اللہ، تقویٰ و طہارت کے اونچے مرتبہ پر فائز کوئی بزرگ غرض کہ ہر شخص کو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا درست ہے اور صحیح ہے۔
لباس کا مقصد
سوال: عورتوں کے لباس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب: قرآن کریم کے بیان کے مطابق لباس کا سب سے اہم مقصد بدن کو چھپانا ہے ۔ خاص کر جسم کے وہ حصے جن کا ستر لازم ہے ۔اُن کا پردہ ہو جائے یہ لباس پہننے کا پہلا اور اہم ترین فرض ہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ ہر ایسا لباس کہ جس سے جسم کا حجم ظاہر ہو جائے وہ شرعی لبا س نہیں اس لئے کہ جسم چھپانے کا قرآنی مقصد فوت ہو گیا۔ جیسے وہ باریک اور مہین کپڑا جس میں جسم کی رنگت باہر سے نظر آئے غیر شرعی لباس ہے ایسے وہ تنگ اور چست لباس جس میں اعضاء کی موٹائی اور لمبائی چوڑائی نمایاں ہو وہ بھی غیر شرعی ہے۔ لہٰذا جینز، سُتھنا، اور جسم سے چپکا ہوا کوئی بھی لباس غیر شرعی ہے۔
جہیز کا مطالبہ کرنا حرام
سوال: مسلمانوں کو جہیز دینا جائز ہے۔ یا نہیں اگر لڑکی کو کچھ دینا ہو تو اسکی شرعی صورتحال بتائیں؟
جواب:۔اسلام میںجہیز دینے اورلینے کی کوئی تاکید نہیں۔فضلیت نہیں اور کوئی اجر و ثواب نہیں۔ بلکہ جہیز کا مطالبہ کرنا حرام ہے اور رسم ر واج کی بنا پر دینا غیر شرعی ہے۔اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو بطور تحفہ کوئی چیز دینا چاہئے تو ضرور دے سکتا ہے مگر دینے کا طریقہ ایسا اختیار کیا جائے کہ اُس پر بطور رسم دینے کا وہم نہ ہو۔ اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ بیٹی کی رخصتی کے ایک دو ماہ کے بعد اس کی ضرورت کی چیزیں بطور تحفہ اُسے دیں جائیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ واقعنہ کن چیزوں کی ضرورت ہے وہی چیزیں مہیا کی جائیں۔ زیورات دینے میں کوئی حرج نہیں مگر دکھلاوے اور فخر کے طور پر دینے سے پرہیز کیاجائے۔
سوال:- کبھی اختلاف کی وجہ سے نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ پہلے ہی مرحلے پر ٹوٹ جاتاہے اس کے بعد اختلاف اس پر ہوتے ہیں کہ جو تحفے تحائف لئے دیئے ہوئے ہیں اُن کا حکم کیا ہے ۔بعض دفعہ ایک فریق دوسرے سے جرمانے کا مطالبہ کرتاہے اور جو تحفے زیورات وغیرہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی شدید نزاعات ہوتے ہیں ۔اسی طرح کھلانے پلانے کا جو خرچہ ہوا ہوتاہے اس کے لئے بھی مطالبہ ہوتاہے کہ اس کی رقم بصورت معاوضہ ادا کیا جائے ۔
اس بارے میں شرعی اصول کیا ہے؟
محمد یونس خان
نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ ٹوٹنے پرتحائف کی واپسی کا مسئلہ
جواب :-نکاح سے پہلے جو تحائف دئے جاتے ہیں۔ اُن کی حیثیت شریعت میں ہبہ باشرط یا ہبہ بالعوض کی ہے ۔ یعنی یہ تحائف اس شرط کی بناء پر دئے جاتے ہیں کہ آئندہ رشتہ ہوگا ۔
اب اگر آگے نکاح ہونے سے پہلے ہی رشتہ کا انکار ہوگیا تو جس غرض کی بناء پر تحفے دیئے گئے تھے وہ چونکہ پوری نہیں ہوئی ۔ اس لئے یہ تحفہ کی اشیاء اُس شخص کی ملکیت نہیں بن سکیں جس کو وہ چیزیں دی گئی ہیں ۔ جب وہ اِن اشیاء کا مالک نہیں بنا توپھر اس سے وہ اشیاء واپس لینا درست ہے ۔
لیکن یہ حکم ایسے تحائف کے متعلق ہے جو موجود ہوں اور جو ختم ہوگئے ہوں مثلاًکھانے پینے کی اشیاء یا دعوتوں کے پُرتکلف کھانے تو وہ واپس لینا اور دینا درست نہیں ہے ۔
یہاں کشمیرکا عرف بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے جو چیزیں لی اور دی جاتی ہیں اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ اشیاء واپس کی جاتی ہیں ۔ اس عرف کا مقتضیٰ بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے دی گئی اشیاء واپس کر دی جائیں ۔
کھانے پینے کا معاوضہ بصورت رقم لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ کھلاتے وقت یہ دعوت تھی اور کھانے کا عوض مانگنا اُسی وقت درست ہے جب پہلے سے طے کیا گیا ہو ۔جیسے ہوٹل میں ہوتاہے ۔ پھر دعوت کا کھانا خود اپنے گھروالے اور اپنے عزیز واقارب بھی کھاتے ہیں تو کیا اس پورے کھانے کا معاوضہ اُن سے لینا درست ہوسکتاہے ؟ ظاہرہے کہ نہیں ۔
نکاح سے پہلے دئے گئے تحائف کے واپس کرنے کا مسئلہ اور دعوتوں میں کھانے پینے اور ماکولات ومشروبات (مثلاً مٹھائیاں ، کیک ، بیکری ،پیسٹری ،پھلوں کے ٹوکرے ،جوس کے ڈبے ، چاکلیٹ ، ڈرائی فروٹ وغیرہ) کے واپس نہ کرنے کا مسئلہ فتاویٰ قاضی خان درمختار کی شرح شامی اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ میں تفصیل سے لکھاہواہے ۔ll