سوال:۔ ائمہ مساجد کے محلہ والوں پر کیا حقوق ہیں؟
سوال:۔ شریعت کی روشنی میں ائمہ مساجد کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کیا امام صاحب کے حق میں یہ کہنا مناسب ہے کہ امامت ایک پرائیوٹ نوکری ہے ( یعنی جب مالک چاہئے تو رکھے گا، نہیں چاہئے تو برخواست کریگا)؟۔
سوال: میں نے ایک ستر (۷۰) سالہ شخص سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے اپنے بچپن میں وعظ سنا ہے کہ امام کا انتخاب لوگ تو کرسکتے ہیںلیکن امام کو امامت سے برخواست کرنا شریعت کا حق ہے نہ کہ لوگوں کا اس بات کی وضاحت فرمائیں؟
سوال:۔ کیا ائمہ مساجد بھی نائب رسول کے زمرے میں آتے ہیں یا صرف علمائے کرام ، وضاحت فرمائیں؟۔
سوال: ائمہ مساجد کی کیا حیثیت ہے اور امام مسجد کیسا ہونا چاہئے؟۔
محمد سلطان بٹ
امام کے مقام کا احترام لازم
جواب:۔ مقتدی حضرات پر امام کے حقوق یہ ہیں ۔ امام کا احترام کرنا ۔ اس سے محبت کرنا اس کو معقول اور ضروریات پورا کرنے کی مقدار کے برابرتنخواہ دینا۔ اس کے رہنے سہنے کا مناسب اور آرام دہ انتظام کرنا۔ اس پر بے جا حکم نہ چلانا۔ غیر ضروری کاموں کا اُسے مکلف نہ بنانا۔ آپسی رسہ کشی میں امام کو طرف داری کرنے پر مجبور کرنے سے پرہیز کرنا، امام میں جس بات کی صلاحیت نہ ہو اُس بات کے پورا کرنے کا اُسے حکم نہ دینا ، امام کو کوئی ناگہانی ضرورت پڑے تو محلے والے اجتماعی طور پر اس ضرورت کو پرا کرنے پر سرگرم ہو جائیں۔ امام سے غلطی کوتاہی ہو جائے تو عفو و درگذر کرنا۔ اور معمول بات پر امام کو معزول کرنے پر نہ تُل جاناو غیرہ۔
جواب:۔ قرام کریم اور احادیث میں امام کا مقام و مرتبہ بہت اونچا بیان کیا گیا ہے ہے اسلئے جو لوگ یہ کہیں۔ امامت ایک پرائیوٹ نوکری ہے اور مالک جب چاہئے برخواست کرسکتا ہے۔ اور اسی طرح جو لوگ یہ کہیں کہ امام کی حیثیت ہمارے گھر یا دکان کے ملازم کی طرح ہے تو یقیناً ایسے لوگ امام کے مرتبہ سے ناواقف ہیں، اور امام کی اس طرح کی توہین آگے اماموں سے محروم ہونے کا سبب بنے گا۔ اور عالیشان مساجد امامت و جماعت سے محروم ہونگی۔ چنانچہ حدیث میں ہے حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا لوگوں پر ایسا دور آئے گا کہ وہ مسجدوں میں ایک دوسرے کو دھکے دے کر اصرار کریں گے کہ نماز پڑھا دو۔ مگر کوئی نماز پڑھانے والا نہ ملے گا۔
اس ایسے دور کے آنے کاسب یہی ہوگا کہ امام حضرات ان اوصاف سے محروم ہونگے جو امام میں ہونا ضروری ہیں اور مقتدی اماموں کی قدر و منزلت اور عزت وعظمت کا وہ رویہ ترک کریں گے جس کے امام مستحق ہیں۔ اور جب اماموں کو گھر کے نوکر کا درجہ دیاجائے یا اُن کو مزدوروں کی حیثیت دی جائے۔ معمولی بات کو انہیں معزول کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ اُن کی ضروریات پورا کرنے پر توجہ نہ دی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے معاشرے میں چپراسی کی تنخواہ زیادہ ہے۔ اور مزدور ی کرنے والے ہم سے زیادہ کمالیتے ہیں۔ لہٰذا ہم بھی امامت چھوڑ کر کہیں سبزیاں اور پھل بیچنے کا بزنس کریںگے۔ یا مزدوری کریںگے تو پھر اماموں کی قلت ہوگی۔ چنانچہ یہ صورتحال سامنے آرہی ہے کہ اخباروں میں اماموں کی ضرورت کے اشتہارات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مگر امام دستیاب نہیں۔ اور جو دستیاب ہوتے ہیں وہ عموماً اوصاف امامت سے عاری ہوتے ہیں ۔( الا ما شاء اللہ
سوالـ:۔ اس وقت پوری دنیا اور تمام مسلم ممالک عالمی بنک سے لین دین کرتے ہیں، جو سود نطام کے تحت کام کرتا ہے، ان مسلم ممالک کیلئے شرعی حکم کیا ہے۔ ہمارے مسلمان بھائی بنکوں میں ملازمت کرتے ہیں جہاں پروہ سود کی رقم سے اپنی تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ کیا وہ درست ہے؟ شرعی حکم کیا ہے۔سود کے متعلق چند احادیث نقل کیجئے تاکہ جو لوگ بنکوں سے سود لے کراستعمال میں لاتے ہیں ان پر تنبیہ ہو جائے ؟
سوال :۔سود اور منافع میں کیا فرق ہے اور اگر سود کو معاوضہ کے طور پر تصور کیا جائے تو کیا درست ہے؟
سوال:۔ رشوت کے بارے میں شرعی حکم تحریر فرمائے؟ اگر کوئی شخص اپنا حق حاصل کرنے کیلئے رشوت دینے پر مجبور ہو جائے کیونکہ اس کے پاس اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ آفیسر رشوت کے بغیر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور رشوت نہ دینے پر اس کا حق ضائع ہوتا ہو کیا اس صورت میں رشوت دینا جائز ہے یا نہیں؟۔
غلام نبی بٹ
نفع اورسود ایک جیسا نہیں
جواب:۔ سود حرام ہے۔ اور اتنا سخت حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سود خوری پر اعلان جنگ فرمایا۔ اور حدیث میں ہے کہ سود کے ستر درجے ہیں سب سے کم تر درجہ اپنی ماں کیساتھ بد کاری کرنے برابر ہے۔ مسند احمد مشکوۃ۔ اس وقت پورے عالم کا معاشی نظام سودپر قائم ہے اور امت مسلمہ کے قائدین خصوصاً مسلم ممالک کے سربراہان اہل مغرب کے مکمل غلام ہیں۔ اس لئے وہ اپنے غیر سودی معاشی نظام قائم کرنے کے بجائے اُسی غیر سودی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں اور یہی امت کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ جن کے ہاتھوں میں امت کی باگ ڈور ہے وہ امت کے سروں پر بطور حاکم اور مغربی اقوام کے سامنے بطور خادم ہیں۔ اس لئے مغرب کے ہر اُس ایجنڈے کو مسلم امت پر نافذ کرنے میں یہی اُن کے خادم پیش پیش ہیں جو اسلام کی جڑوں کو ختم کرنے والا ہے۔ چنانچہ نظام تعلیم، نظام معیشت، نظام سیاست ، نظام معاشرت، نظام تجارت ،نظام اخلاق غرض ہر شعبہ میں صرف مغرب پرستی کا دور دورہ ہے۔
اسی کا ایک حصہ وہ سودی نظام ہے جو یقیناً تمام انسانوں کے لئے زہر ہے مگر سارے عالم پر نافذ ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی سود کھانے والے پر ، سود دینے والے پر، سود کی دستاویز لکھنے والے پر، سود کی گواہی دینے والے پر اور پھر فرمایا گناہ میں یہ سب برابر ہیں ۔ بخاری ،مسلم ۔
حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جان بوجھ کر سود کا ایک درہم ( چند روپے کی قیمت) کھانے والا ایسا ہے جسے کوئی چھتیس مرتبہ زنا کاری کرے ایک حدیث میں حرام سے تیار ہونے والا گوشت جہنم کے ہی لائق ہے ۔ سود حرام ہے۔ اس سے پرورش پانے والا جسم جہنم میں جانے کے لائق ہے۔
(۲) جواب :۔ رقم پر زائد رقم لینا سود ہے۔ مثلاً 100 روپے پر110 روپے لینا۔ تو یہ10 روپے سود ہیں۔ اس کے مقابلے میں سو روپے میں کوئی چیز خریدی جائے پھر وہ چیز دس بیس روپے کے اضافہ کے ساتھ فروخت کی جائے۔ یہ نفع ہے۔ مکہ کے کافروں کو بھی یہی دھوکہ تھا اس لئے وہ کہا کرتے تھے۔ بیع اور ربا ایک ہی جیسا ہے یعنی نفع اور سود میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن میں جواب دیا گیا۔ کہ اللہ نے نفع کو حلال اور سود کو حرام کر دیا ہے۔ یہ ا یسا ہی ہے کہ کوئی شخص کہے خنزیر و بھیڑ بکری کی طرح ہے۔ اس میں کیا فرق ہے اور واقعتا بہت سارے اوصاف میں خنزیر اور بھیڑ میں بہت مماثلت ہے۔ مگر خنزیر حرام اور بھیڑ حلال ہے اسی طرح نفع اور سود کا معاملہ ہے اس کے لئے وہ مفیدکتابیں پڑھیں جو سود کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔
(۳)جواب :۔ اپنا جائز حق حاصل کرنے کیلئے اگر رشوت دی گئی تو یہ بھی رشوت ہی ہے ۔مگر اس میں رشوت دینے والے پر گناہ نہیں ہوتا۔ البتہ رشوت لینے والے پر کئی گناہ ہوتے ہیں۔ رشوت لینا، ظلم کرنا، اور جس کام پر رشوت لی گئی اس کام کے کرنے کے لئے جو تنخواہ وہ لے رہا ہے وہ تنخواہ حرام ہو گئی یہ سارے گناہ رشوت لینے والے کے سر ہوتے ہیں۔
س:-میں ایک نوجوان ہوں ۔ جدید تعلیم سے وابستہ ہوں ۔آج کل بہت سارے نوجوان انٹرنیٹ سے جڑ ے ہوئے ہیں ۔اس بارے میں آپ سے گذارش ہے کہ کیا ہم کسی اسلامی ویب سائٹس سے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں ۔اس بارے میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور جو ضروری باتیں ہوںگی وہ ضرور بتائیں ۔
کامران سجاد
انٹرنیٹ حد سے زیادہ مفید ،بے انتہا خطرناک
اسلامی معلومات کیلئے مستند سائٹس کا انتخاب کرناضروری
جواب:-انٹرنیٹ ہرقسم کی معلومات حاصل کرنے کی ایک پوری کائنات کاخزانہ ہے ۔ یہ بے انتہا مفید بھی ہے اور حد سے زیادہ خطرناک بھی ۔اس مفید ترین ذریعہ سے معلومات کا بڑے سے بڑا ذخیرہ بھی حاصل کیاجاسکتاہے اور اس کے ذریعہ انسان اُن خرابیوں اورخباثتوں کا شکار بھی ہوسکتاہے جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ گندی اور فحش ویب سائٹس کا حال توجیساہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔بظاہر اس کی اچھی ویب سائٹسوں کا حال بھی بہت خراب ہے ۔الا ماشاء اللہ۔مثلاً مذہبی ویب سائٹس دیکھئے ۔عیسائیت اور ہندوازم کے تعارف وتبلیغ کے لئے ہزاروں بلکہ لاکھ سے زیادہ ویب سائٹس سرگرم ہیں ان میں تو ہماتی اور خرافاتی باتوں کو طرح طرح سے پُرکشش بناکر پیش کیا جاتاہے تاکہ ان ویب سائٹس سے استفادہ کرنے والا لاعلم نوجوان اس سے متاثر ہوسکے ۔ اسلام کے نام پر بہت کم ویب سائٹس ہیں اور وہ بھی زیادہ تر ایسے افراد کے ذریعے جو خود اسلام سے نہ صحیح طور پر واقف ہیں نہ اسلامی ذہنیت سے آراستہ ۔ نہ اسلام کے بنیادی افکار وتصورات کے متعلق اُن کی ذہنی حالت درست ہے ۔ اس لئے وہ صحیح ترجمانی کر ہی نہیں سکتے ۔ کہیں وہ مغربی تصورات سے متاثر، کہیں وہ اپنے علاقائی یا گروہی اثرات لئے ہوئے ہیں ۔یاتجدد پسندی کے نتیجے میں پیداہونے والے خیالات کو وہ اسلام بناکرپیش کرتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ دینِ حق کی ترجمانی غلط ہاتھوں سے ہوتی ہے اور طرح طرح سے تحریف کردہ تعلیمات پیش کی جاتی ہیں ۔
اسی طرح کچھ لوگ اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر اسلام کی ایسی ترجمانی کرتے ہیں جس سے اسلام سے نفرت پیداہوجائے یا اُس کے متعلق شکوک پیدا ہوجائیں یا استفادہ کرنے والے کنفیوژن کا شکار ہوجائیں ۔ چنانچہ یہودی ، مرزائی او راس قسم کے دوسرے طبقات جس انداز اور ترتیب سے اسلام کے کسی بھی نام سے کوئی ویب سائٹس یا چینل چلائیں اُن میں یہی صورتحال ہوتی ہے ۔
اس لئے جب کسی اسلامی ویب سائٹس سے رسائی حاصل کرنا ہوتو پہلے اچھی طرح یہ تحقیق کریں کہ یہ کس کی لانچ کی ہوئی ہے یا کسی مستند شخص سے پہلے اس کی تصدیق کرالیں کہ کیایہ ویب سائٹ قابل استفادہ ہے ؟اسی طرح کسی بھی فتویٰ ڈاٹ کام سے ہرگز فتوے حاصل نہ کریں جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس پر جواب دینے والا مستند ہے یا نہیں ۔ آج بے شمار لوگوں نے اسلام کی تشریح ، اس کے احکام بیان کرنے، اُس پرلیکچر دینے ،اُس پر تبصرے کرنے اور اس پر اپنی رائے بطورحکم شرعی بیان کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جن کا اسلامی علم مستند ومعتبر نہیں ہے۔اس لئے نیم حکیم چاہے وہ کتنی اچھی زبان واسلوب اور کتنے ہی ماڈرن انداز میں سامنے آئے ہیںوہ جان کے لئے خطرہ ہوتا ہے۔نیم حکیم خطرہ جان ،اسی طرح نیم مولوی خطرۂ دین۔ آج کل نیم سکالر اور دانشورخطرہ دین وایمان ہیں ۔دراصل وہ اسلام کے اسکالر ہوتے ہی نہیں بنے ہوئے ہیں ۔
فحش ویب سائٹس سے دور رہنا لازم ہے ۔اس طرح انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرنا وقت ضائع کرناتو ہے ۔ بسااوقات یہ بہت ساری خرابیوں میں مبتلا ہونے کا سبب بھی بنتاہے ۔ اسی طرح اگر چیٹ کرکے دوسرے کو دھوکا دیا جائے تو حرام ہے۔ اگرکسی بھی ویب سائٹ پر کسی سے چیٹنگ ہو تو اسلام کا تعارف ، اوراس کی حقانیت کے متعلق بس وہی باتیں کہیں جو مستند ہوں یا کسی مستند ومعتبر سائٹ کا پتہ بتائیں ۔
ذاتی ونجی زندگی یا تفریحات ومنکرات کوزیر گفتگو لانا دراصل اپنے آپ کوزہردیناہے۔