گذشتہ ہفتے آل انڈیا کانگریس کا ایک وفد سابقہ وزیر اعظم ہند منموہن سنگھ کی قیادت میں وادی کشمیر کی حالت زار سننے آیا۔اس وفد میں سابقہ وزیر اعلی ریاست جموں و کشمیر غلام بنی آزاد کے علاوہ امبیکا سونی بھی شامل تھیں جو مختلف ادوار میں جموں و کشمیر کانگریس یونٹ پہ مرکزی کانگریس کمیٹی کی جانب سے نظارت کے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔ عصر حاضر میں بھاجپا نے کانگریس کو بری طرح پچھاڑا ہے اور یہ پارٹی اپنی بے پناہ سیاسی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔بھاجپا کے سیاسی مارچ کو روکنے کیلئے کانگریس ایک کے بعد ایک سیاسی چال آزما رہی ہے لیکن بھاجپا کا ایڈوانس مارچ لاکھ روکے نہیں رُکتا ۔بھاجپا کے سیاسی مارچ کو بھارت کی اکثریتی آبادی کے مذہبی جذبات ابھارنے سے تقویت ملتی رہی ہے، بھلے ہی اُس سے اقلیتی فرقوں کے جذبات بری طرح مجروح ہورہے ہوں۔بھاجپا کے بڑھتے ہوئے اقدامات کو روکنے میں جہاں کانگریس بھارت کے طول و عرض میں اپنے سمٹتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے وہی ریاست جموں و کشمیر میں بھی وہ بھاجپا کی پے در پے غلطیوں کو منظر عام پہ لاکے اپنے لئے میدان صاف کرنا چاہتی ہے ۔اِس غرض کی تکمیل میں پچھلے ہفتے کانگریسی وفد وارد کشمیر ہوالیکن ایسا لگتا ہے کانگریس نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا ہے بلکہ وہی چال بے ڈھنگی سی ہے جو پہلے تھی اور اُس کا پہلا ثبوت سرینگر آنے سے پہلے جموں کا دورہ تھا جبکہ کشمیر کا درد گر چہ ریاست جموں و کشمیر کی اکثریت مطلق سے وابستہ ہے لیکن اُس کا مرکز کسی بھی شک و شبہہ کے بغیر وادی کشمیر ہے ۔
وادی کشمیر میں جموں میں قیام کے بعد وارد ہونا اچھنبے کی بات نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ حقیقت ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے کی جموں کے چند میدانی اضلاع کو ریاست جموں و کشمیر کے 22 اضلاع کی اکثریت مطلق کے در مقابل کھڑا کرنے کی روایت دہلی میں مقیم احزاب کی پرانی روایت ہے چاہے وہ آر ایس ایس سے وابستہ بھاجپا ہو یا بظاہر سیکولر نظریات کی حامل کانگریس پارٹی دونوں احزاب کا اِس روش میں انیس بیس کا فرق بھی نہیں ۔اکثریت مطلق کی سیاسی روش و نظریے کی نفی کرنے کیلئے جموں کے چند میدانی اضلاع کے نظریات سے تقابل نسبت دینے سے اکثریتی نظریے کو ڈبونے کی کوشش اب اتنی واضح ہو چکی ہے کہ کسی کو اُس پہ اعتبار نہیں رہا بجز اُنکے جو یہ متوازی نظریہ منظر عام پہ لاکے اپنے دل کو طفل تسلیوں سے سہلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھاجپا نے گر چہ جموں کے میدانی اضلاع کو جموں وکشمیر کے اکثریتی نظریے کی نفی کرنے کے عمل کو حالیہ برسوں میں فروغ دیا ہے لیکن یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ اِس مکروہ عمل کی بنیاد کانگریس نے 1947ء میں ڈالی جب انتہا پسندوں کے ہاتھوںجموں میں مسلمین کے قتل عام کی ان دیکھی کی گئی۔یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جموں جہاں مسلم اکثریتی ڈویژن تھا وہی مسلمین اقلیت میں رہ گئے ۔اِس دلدوز سانحہ کی گواہ این سٹیفن جیسے بے طرف مبصروں کی تصانیف ہیں ۔این سٹیفن روزنامہ سٹیٹس مین کے ایڈیٹر تھے جن کی تصنیف (ہارنڑ مون:Horned Moon) میں تفصیلات موجود ہیں۔اپنے گناہوں کی تلافی کے بجائے کانگریس نے اب کی بار بھی وہی کیا جو اِس تنظیم کی روش رہ چکی ہے۔
کانگریس کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں عموماََ اور ریاست جموں و کشمیر میں مخصوصاََ اپنی دیرینہ روش بدلے بغیر مثبت سیاسی نتائج حاصل نہیں کر سکتی ۔بھارت کے مسائل کو بھارت کے عوام جانیں گر چہ ریاست جموں و کشمیر کی اکثریت مطلق کو بھارتی عوام کے مسائل سے ہمدردی ہے ایک تو انسانی ناطوں کے تئیں ثانیاََ ایک مستحکم بر صغیر ہی ریاست جموں و کشمیر کے حتمی تصفیہ کا ضامن ہو سکتا ہے اور جہاں استحکام کی بات آتی ہے وہاں بھارت میں استحکام کے ساتھ ساتھ مسلہ کشمیر کے دوسرے فریق پاکستان کااستحکام بھی لازمی مانا جا سکتا ہے۔کانگرس دور حاضر میں بھاجپا سے اِس لئے مسلسل مات کھا رہی ہے چونکہ اُس کے سیاسی اقدامات بھاجپا کے بی (B) ٹیم ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ ماضی کے کئی ادوار میں کانگریس کے سیاسی اقدامات سے یہ تصور اُبھر آیاکہ کانگریس بھارت کے طول و عرض میں بھاجپا سے اکثریتی فرقے کے مذہبی جذبات اُبھارنے میں بازی لے جانا چاہتی ہے اور سیکولرازم بیرونی دنیا کو لبھانے کا ایک وسیلہ ہے۔اقلیتی فرقوں کی اقتصادی پسماندگی اِس کی ایک واضح دلیل ہے۔کانگریس کے دور حکومت میں اکثریتی فرقے کے مذہبی جذبات کی آبیاری کی مثالیں جہاں بھارت میں فرواں ہیں وہی ریاست جموں و کشمیر میں اُس کی کئی واضح مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔
1947ء میں جموں میں انتہا پسندوں کی جانب سے آبادی کا تناسب بدلنے کی کوششوں سے آنکھیں پھیر لینا فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کی گر چہ پہلی مثال تھی لیکن آخری نہیں ۔ 1950ء کے دَہے میں آر ایس ایس سے نظریاتی وابستگی رکھنی والی تنظیم پرجا پریشد نے ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان کا نعرہ بلند کر کے ریاست جموں و کشمیر کی خود مختاری کو چلینج کیا۔ ریاست جموں و کشمیر کی خود مختاری کانگریس کے اقرار ناموں کا نتیجہ تھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے عارضی و شرائط پہ مبنی الحاق کے جواب میں بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڑ مونٹ بیٹن نے ریفرنڈم کاوعدہ کیا تاکہ اپنے مستقبل کے بارے میں ریاستی عوام حتمی فیصلہ کریں۔عارضی و شرائط پہ مبنی الحاق میں یونین آف انڈیا کو تین امور پہ دسترس حاصل تھی:امور خارجہ،دفاع و رسل و رسائل جبکہ پرجا پریشدکا نعرہ ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان ریاستی خود مختاری کی نفی تھی ۔کانگریس کو اپنے وعدوں ثانیاََ تحریری اقرار ناموں کا پاس ہو تا تو وہ آر ایس ایس سے نظریاتی وابستگی رکھنے والی تنظیم پرجا پریشد کے سیاسی اقدامات کے آڑے آتی البتہ تاریخ گوا ہ ہے کہ پرجا پریشد کے آڑے آنے کے بجائے کانگریس نے ریاستی وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کو پابند سلال کیا اور ایسے میں ریاستی خود مختاری کے دفاع میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا گیا۔اِسی کے ساتھ پنڈت جواہر لال نہرو نے کم و بیش 1950ء کے دَہے کے وسطی سالوں میں رائے شماری کے عالمی اقرار نامے سے مکرنا شروع کیا۔ بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڑ مونٹ بیٹن کے ریفرنڈم کے ضمن میں تحریری دستاویز کی تصدیق پنڈت نہرو نے نہ صرف بھارتی قانو ن ساز اداروں میں کی بلکہ اُنہوں نے سرینگر کے لال چوک میں بھی اُسے دہرایا۔بھارتی قانون ساز اداروں میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ ہم اِس وعدے کے اِس حد تک پابند ہیں کہ اگر ریاستی عوام کا فیصلہ بھارت کے خلاف بھی رہے تب بھی وہ ماننے کے پابند رہیں گے۔
کانگریس کے یہ اقدامات اِس گھناونی حقیقت کے گواہ ہیں کہ یہ تنظیم اپنے فعل سے اپنے قول کی پابند نہیںرہی اور دور حاضر میں کشمیری عوام سے ہمدردی جتانا در اصل اُس کی ملک گیر پالیسی کا حصہ ہے جہاں یہ تنظیم اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینا چاہتی ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے ماضی میں غلط و مکروہ سیاسی اقدامات سے پیچھا چھڑا نہیں پاتی ۔ ابھی بھی یہ تنظیم اپنے فعل سے بھاجپا کی بی ٹیم نظر آتی ہے جہاں وہ اکثریتی فرقے کے انتہا پسندوں کے خلاف کسی بھی اقدام کسی بھی بیاں سے گریز کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔بھارت کی قلمرو میں اقتدار کے دوراں کانگریس کا یہی شیوہ تھا جس کے گواہ وہ پے در پے فرقہ وارانہ فسادات ہیں جو کانگریس کے دور اقتدار میں ہوئے اور جہاں ریاستی اداروں کا بے طرف رہنا تو دور کی بات ہے برعکس کئی کمیشنوں کی رائے کے مطابق ریاستی اداروں کو ملوث پایا گیا۔ جموں و کشمیر میں بھی رائے شماری سے سرگردانی کے بعد کئی آئینی اصلاحات کے وسیلے سے اُس خود مختاری کی بیخ کنی کی گئی جسے بنیاد بنا کے ریاست جموں و کشمیر کا یونین آف انڈیا کے ساتھ ایک عارضی اور شرائط پہ مبنی الحاق ہوا تھا۔
جموں و کشمیر میںآئینی در اندازی کی ابتدا کانگریسی دور اقتدار کے دوران ہوئی اور یہ ایک ناقص جمہوری عمل اور مشکوک انتخابات کو بروئے کار لا کر کیا گیاجس سے یہاں کی حکومت سیاسی طاقت کی آئینہ دار نہیں ایجنسیوں کی قلا بازی کی مرہون منت بن گئی چناچہ یہاں کے سیاستدان سیاسی کشکول کو تھامے دہلی سے اقتدار کی بھیک مانگنے لگے اور اقتدار اُسی کے حصے میں آتا رہا جو دفعہ 370کی سرنگ (ٹنل) سے بھارتی آئینی ٹریفک کو گذرنے دے۔ٹنل کی اصلاح 4 دسمبر 1964ء کے روز لوک سبھا اجلاس کے دوران بھارتی وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے استعمال کی یہ کہتے ہوئے کہ اِس ٹنل سے بہت سا را ٹریفک گذر چکا ہے اور بھی گذرے گا۔ دفعہ 370 کو ایک خالی گولے سے تعبیر دی گئی جس کا بارود نکالا جا چکا ہے چناچہ یہ رہے یا نہ رہے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ جموں و کشمیر کیلئے آئینی ترمیم کوئی مشکل کام نہیں چونکہ اُس کیلئے صرف صدارتی حکم کافی ہے جبکہ دیگر ترمیمات کے لئے کئی پارلیمانی مرحلوںسے گذرنا پڑتا ہے ۔اِس سے پہلے 27نومبر 1963ء کے روز پنڈت جوہر لال نہرو کا یہ بیاں آیا کہ دفعہ 370 میں رخنہ اندازی ہو چکی ہے اور یہ ایک جاری سلسلہ ہے اِسے چلتے رہنا چاہیے ۔ہم اُسے ختم کرنے میں پیش قدمی نہیںکرنا چاہتے۔پنڈت نہرو و گلزاری لال نندہ کے یہ بیانات عبدالغفورنورانی کی تصنیف (جموں و کشمیر کی آئینی تاریخ ۔A constitutional history of Jammu & Kashmir۔۔صفحہ:2) پہ منعکس ہے۔دیکھا جائے تو جموں و کشمیر میں آئینی ترمیمات کے ضمن میں یہ سہولیت دفعہ 370 کی کمزوری کی آئینہ دار ہے۔
کانگریس سرکار کی آئینی در اندازیاں 1963ء و 1964ء میں پنڈت نہرو اور گلزاری لال نندہ کے بیانات سے کم و بیش ایک دَہے پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں۔ آئینی ٹریفک ٹنل 370 سے گذرنے کا احوال جو بھارتی وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ کے بیاں میں آیا ہے ظاہر ہے اور رخنہ اندازیوں کے علاوہ 1952ء کے دہلی موافقت نامے (ایگریمنٹ) کی جانب اشارہ تھا جہاں بھارت نے اقتصادی امور کا کنٹرول حاصل کیا اور یہ بھی مواقفت ہوئی کہ بھارتی عدالت عالیہ (سپریم کورٹ) کا اطلاق بھی بعد میںریاست پہ ہو جائے گا ۔اُس کے بعد 1965ء میں جموں و کشمیر کے آئین میں چٹھی ترمیم کروا کے آئین ہند کی دفعات 356-357 کا اطلاق ہوا اور بھارتی سربراہ مملکت کے اختیارات کو وسعت بخشی گئی جہاں اُنہیں جموں و کشمیر کے آئینی سربراہ کو نامزد کرنے کا براہ راست اختیار حاصل ہوا جبکہ وہ پہلے ریاستی قانون سازیہ کی سفارش کا متحمل تھا۔غیر معمولی حالات میں قانون سازیہ کی معطلی اور نظم و نسق کو اپنے ہاتھ میں لینے کے اختیارات حاصل ہوئے۔یہ کام صادق سرکار سے کروایا گیا چونکہ اُنہیں حکومت بخشی غلام محمد کو بر طرف کر کے بخشی گئی تھی چناچہ صادق صاحب وزیر اعظم جموں و کشمیر سے وزیر اعلی بن گئے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے اُنہوں نے یہ وار سہہ لیا یہی نہیں صدر ریاست گورنر بن کے رہ گئے۔
کانگریس سرکاروں نے ریاست جموں و کشمیر کی آئینی بیخ کنی میں جو اقدامات کئے اُسے مد نظر رکھتے ہوئے بھاجپا کیلئے مزید بیخ کنی کیلئے شاید ہی کچھ بچا ہو اِس کے باوجود بھاجپا کا ماننا ہے کہ مسلہ کشمیر پنڈت نہرو کا پیدا کردہ ہے بلکہ یہ تک کہا جاتا ہے کہ پنڈت نہرو نہ ہوتے تو شاید مسلہ کشمیر کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتاجبکہ گذرے ہوئے حالات و واقعات کو زمانے کے ترازو میں تولا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پنڈت نہرو جیسے کانگریسی سورما نہ ہوتے تو شاید ریاست جموں و کشمیر شاید بھارت کا حصہ ہی نہ ہوتی۔آر ایس ایس اور بھاجپا کو پنڈت نہرو کو اپنا ہیرو ماننا چاہیے تھا لیکن وہ ویلن کے ویلن ہی رہے جس کی وجہ یہی ہے کہ بھارتی صحنہ سیاسی میں عموماََ اور جموں و کشمیر ریاست میں عموماََ کانگریس نے سیکولرازم کی نقلی مالا جپتے ہوئے اکثریتی فرقے کے انتہا پرستوں حلقوں کی پیروی کی لیکن اِس پالیسی میں جو تضاد واضح رہا اُس تضاد کو اچھال کے بھاجپا نے کانگریس کے پاؤں تلے کی سیڑھی گھسیٹ لی اور کانگریس دھڑام سے نیچے گر گئی ۔کھوئی ہوئی سیاسی زمیں کو حاصل کرنے کی سعی میں کانگریس آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہی ہے جو سیاسی ساکھ کھونے کا سبب بن گئیں اور اپنی ایک شناخت بنانے کے بجائے بھاجپا کی بی ٹیم نظر آتی ہے خاصکر ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں کانگریس پارٹی ایک وسیع معنی خیز تصفیہ کی اتنی ہی مخالف ہے جتنی کہ بھاجپا اور مقاومتی خیمے یا پاکستان سے بات چیت کی پیشنہاد کا اِس سے زیادہ کوئی بھی مدعا و مطلب نہیں کہ ریاست کو آر پار جوں کا توں رکھ کے خط متارکہ کو دائمی سرحد منوایا جائے۔کانگریسی وفد کے رہبر منموہن سنگھ کا نظریہ اُن کے سابقہ نظریے سے مختلف ہو بعید ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ سرحدوں کو بدلا نہیں جا سکتا ہاں اُنہیں نرم کیا جا سکتا ہے۔
……………………..
Feedback on<[email protected]>