کہاں سپین اور کہاں ہندوستان۔ زمینی سفر کی بات کریں تو آپ کو پاکستان، ایران، افغانستان،عراق، ترکی، رومانیا، آسٹریا، فرانس اور یونان و اٹلی کی سرحدوں کو چھوتے ہوئے ہسپانیہ یعنی سپین پہنچنا ہے۔سپین کی متنازعہ ریاست کاتولونیہ(Catalonia) بھی ظاہر ہے اربوں کوس دُوراور متعدد ثقافتوں کی تفاوت کے بعد واقع ہے۔لیکن حیرت یہ ہے کہ کاتولونیہ کا سیاسی تنازعہ ہمارے ہاں کی سیاسی بے چینی کے ساتھ عجیب اتفاق رکھتا ہے۔کاتولونیہ ہسپانوی اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتا، لیکن سپین آئینی خودمختاری کے نام پر کاتولونیہ کی سیاست، ثقافت اور جغرافیہ پر قابض ہے۔
کئی برس کی تحریک اور رائے شماری کے کئی ادوار کے بعد جب کاتولونیہ کے سپین مخالف علیحدگی پسندوں نے اقتدار حاصل کرلیاتو نئے حکمران قیم طوریٰ نے حلف برداری کے فوراً بعد اعلان کردیا کہ ’’حکومت سپین کی آزادی کیلئے سرگرم کوششوں کا آغاز کرے گی۔‘‘اس اعلان نے نئے ہسپانوی صدر پیڈرو سانشے کی پوزیشن کو بھی چیلنج کیا ہے، کیونکہ ملک بھر میں کاتولونیہ کی تحریک کے خلاف غصہ ہے اور سانشے نہیں چاہتے تھے کہ وہ کاتولونیہ کی آزادی کا سبب بنیں۔ اس طرح کاتولونیہ کی تحریک آزادی پورے سپین کی سیاست کو ہلارہی ہے۔
مطالبات کی حد تک کشمیر اور کاتولونیہ کی تحاریک میں مماثلت تو ہے، لیکن قیادت کی سطح پر دونوں الگ الگ مناظرپیش کرتے ہیں۔ کاتولونیہ کا سرمایہ دار طبقہ بالکل اسی طرح سپین نواز ہے جیسے کشمیریوں کا بورژوا خیمہ اعلانیہ یا خفیہ ہندنواز ہے۔لیکن غالب اکثریت وہاں بھی سپین کے اقتدار اعلیٰ کو ویسے ہی تسلیم نہیں کرتی جیسے یہاں کی غالب اکثریت حق خودارادیت پر مجتمع ہے۔تاہم بہت بڑا فرق ہے جو ان دونوں تحاریک کو تاریخی اور اخلاقی طور پر مماثل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ وہ ہے کاتولونیہ کا اہل اقتدار طبقہ۔ وہاں کی ’’مین سٹریم‘‘ اقتدار میںہو یا اقتدار سے باہر، بات وہی کرتی ہے جو غالب اکثریت سننا چاہتی ہے۔وہاں راستے کھولنے، قیام امن، ترقی، عزت کے ساتھ امن وغیرہ کے کھوکھلے نعروں نے حق خود ارادیت کے نعروں کا محاصرہ نہیں کیا ہے۔حالانکہ سپین نے گزشتہ برس رائے شماری کے وقت دھمکی دی تھی کہ اگر کاتولونیہ کی مین سٹریم نے آزادی کی رَٹ ترک نہ کی تو آئینی خودمختاری ختم کی جائے گی۔ اس کے جواب میں قیم طوریٰ اور ان کے ساتھیوں نے کاتولونوی ہجوم سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’آپ کیا ختم کروگے، ہم ہی اس عارضی رشتے کو ختم کررہے ہیں، ہم آزاد ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ اس پر ہجوم نے بہ یک آواز کاتولونوی زبان میں بولا ’’ لِبرتات، لِبرتات، لِبرتات‘‘۔ لِبرتات کا مطلب ہے آزادی۔ اب کاتولونیہ کی قیادت حق خود ارادیت کا موقف لے کر اقوام متحدہ جانا چاہتی ہے۔
ہمارے ہا ں جب دفعہ 370یا آئین میں موجود حفاظتی دیوار پر کوئی ہلہ بولنا چاہتا ہے کہ ہمارے اہل ہوس کہتے ہیں:’’حالات خراب ہوجائیں گے، بھارت سیکولر نہیں رہے گا ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ٹھوس بات نہیں کرتا۔خاص طور پر نیشنل کانفرنس کے قائد یہ کہنے میں شرماتے ہیں کہ یہ عبوری رشتہ ہمارے ہی جد امجد نے باندھا تھا اور کسی شرط پر باندھا تھا، اگر آپ نہیں چاہتے تو ہم اسے ختم کردیتے ہیں۔یہ وہ بات ہے جسے سوچ کر بھی این سی قیادت تھر تھر کانپتی ہے کجا کہ اس کا اظہار کرے۔
ظاہر ہے1918میں جنگ عظیم اول کے بعد کی دنیا ترتیب دینے کے لئے جن دس نکات کی نشاندہی امریکی صدر وُوڈرو وِلسن نے کی تھی اُن میں حق خودارادیت بھی تھا، یعنی امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے زیرقبضہ کالونیوں میں لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ وہ اپنا سیاسی مستقبل کیسے تشکیل دیں گے؟ تب سے حق خوداردایت عالمی بیانیہ کے طور پر ایک اخلاقی اصول ہے۔لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیشن سٹیٹ یا قومی ریاست کے وجود کے بعد یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی جغرافیائی حدود میں حذف و اضافہ نہیں کرسکتا۔ عراق نے کویت پر حملہ کیا تو امریکہ نے پوری دنیا کو اس کے خلاف موبلائز کیا۔ اسی طرح ابھی تک دنیا حق خودارادیت کو بحیثیت اخلاقی اصول مان چکی ہے، اسے عملانے کے معاملے پر گومگو پالیسی ہے جو ایک اور اصول میں ضم کردی گئی ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ قومی ریاستوں کو حق ہے کہ وہ اپنی ملکی سا لمیت کی حفاظت کرے۔
اسی پس منظر میں کاتولونیہ کے لوگ ، اسمبلی کے اندر بھی اور باہر بھی، رائے شماری چاہتے ہیں۔ حالانکہ اگر کاتولونیہ واقعی ایک الگ ملک بن گیا تو وہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائے گا، لیکن وہاں کی قیادت اس کی پروا کئے بغیر سپین سے دو دو ہاتھ کھیل رہی ہے۔
فارق عبداللہ نے حریت کانفرنس اور اس قبیل کے سبھی سٹیک ہولڈرس کو سیاسی مین سٹریم کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے کہا ہے۔ گو اُن کی باتوں کو کوئی سیریس نہیںلیتا، پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ حریت کا نظریاتی ختنہ کرنا چاہتے ہیں یا خود اُنہیں شرح صدر ہوا ہے کہ اب مسلہ کے حتمی حل کی خاطر ہوس اقتدار سے اوپر اُٹھ کر سوچا جائے۔اس میں اول الذکر کا غالب امکان ہے۔کاتولونیہ کی تحریک سے کشمیر کی مزاحمتی اور اہل اقتدار قیادت کو دو اسباق ملتے ہیں۔ اول تو یہ کہ جس نظریہ پر لوگ جان مال فدا کرنے کے لئے تیار ہوں اس کے نقیب قائدین آئینی اداروں کو اغیار کے استحصال کے لئے نہیں چھوڑتے۔ دوسرے یہ کہ اسمبلی میں منتخب ہونے یا وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا مطلب کسی بڑی کمپنی کے کال سینٹر کا انچارج بننا نہیں بلکہ قومی رہنما کی مسند پر براجمان ہونا ہے۔ قیم طوریٰ کو معلوم ہے کہ اُن کی باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا۔ جموں کشمیر کی طرح ہی کاتولونیہ میں بھی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد سپین نواز بھی ہے، اور سپین کاتولونیہ کی حکومت کو مینوپولیٹ کرکے طوریٰ کو اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے، لیکن اقتدار پر براجمان ہوکر غالب اکثریت کے جذبات کی نمائندگی کرکے جو اخلاقی قوت قیم طوریٰ نے حاصل کی ہے اُس کے آگے تمام تر سازشیں ہیچ اور عبث اور فضول ہیں۔کاتولونیہ کی سیاست کے برعکس کشمیریوں کی ٹریجڈی یہ ہے کہ مزاحمتی رہنما جب بھی کرسیٔ اقتدار پر بیٹھے اُنہوں نے قومی مزاحمت کی اخلاقی متاع پر ہاتھ صاف کردیا۔ شیخ عبداللہ سے لے کر اُن سبھی کرداروں تک جنہوں نے مزاحمت سے نکل کر سیاست میں قدم رکھا، یہ بات عیاں ہے کہ یہاں کے قائدین کسی عدم تحفظ یا احساس کمتری میں مبتلا ہیں جو انہیں اسمبلی پہنچ کر یا تخت حکمرانی پر بیٹھ کر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ سیاسی طاقت کا سرچشمہ یہاں کے لوگ نہیں بلکہ وہ قوت ہے جس نے کشمیر کو زیر کررکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تخت کشمیر پر حکمراں کرداروں کا پھیر بدل ہی کشمیر کی سیاست کا منبع و مخزن رہا ہے۔دلچسپ امر ہے جب بھی مزاحمتی خیمے کے کسی طبقے نے ذرا اعتدال کا مظاہرہ کیا تو اہل ہوس کا لہجہ نہایت ہندمخالف ہوجاتا ہے۔بعض لوگ بجا طور پر کہتے ہیں کہ یہاں کی سیاست ہندوستان اور پاکستان کو بلیک میل کرنے کے اصول پر چلتی رہی ہے، پاکستان کو بتایا جاتا رہا کہ اگر نیشنل کانفرنس اور دیگر کو رول دیا گیا تو ہم بھارتی مؤقف کی پیروی کریں گے، اسی طرح نئی دلی کو بتایا جاتا رہا کہ اگر مزاحمتی حلقوں کو زیادہ سر چڑھایا تو ہمارے پاس پاکستان بھی آپشن ہے۔ کاتولونیہ کی قیادت حب الوطن اور قوم پرست ہے جب کہ یہاں کی قیادت ہوسِ اقتدار میں غرق ۔ اور سب سے بڑی بات کہ کاتولونیہ کا تنازعہ دو رُخی ہے، یعنی ایک طرف کاتولونیہ ہے اور دوسری طرف سپین۔ ہمارا تنازعہ سہ فریقی ہے، پاکستان، ہندوستان اور عام لوگ۔کیا کشمیرمیں بھی کاتولونیہ کی طرح یک رُخی سیاست ہوسکتی ہے؟ وہ کہتے ہیں نا فوڈ فار تھاٹ، یہ سوال ہمارے فکروتدبر کی غذا ہوسکتا ہے۔
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)