اننت ناگ//ڈوڈہ کو سرینگر کے ساتھ جوڑنے والی ڈوڈہ دیسا ۔کاپرن سڑک کی تعمیر مقامی لوگوں کیلئے ہنوزایک خواب ہے ۔اس سڑک کی تعمیر کی تجویز سال1977میں نیشنل کانفرنس کے بانی مرحوم شیح محمد عبداللہ نے پیش کی تھی ۔سال 1978میں اُس کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیا گیا تاہم چالیس برس کا عرصہ گزجانے کے باوجود اُس کا کام مکمل نہیں ہو سکا ہے ۔مقامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ڈوڈہ ، رام بن ، کشتواڑ ، بانہال اور دیگر علاقوں کو اننت ناگ کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ اس سڑک کی لمبائی 229کلو میٹر ہے تاہم سڑک کی تعمیر کے بعد اُس کی فاصلہ 140کلو میٹر کم ہو جائے گا اور اس طرح یہ صرف 90کلو میٹر کا سفر رہ جاتا ہے ۔محکمہ تعمیرات عامہ کے ایک افسر نے بتایا کہ حقیقت میں ڈوڈہ سے اننت ناگ تک اصل مسافت صرف 45کلو میٹر ہے ۔تاہم پچھلے چالیس برسوں سے محکمہ آر اینڈ بی نے اُس کی تعمیر کے حوالے سے کوئی بھی بہتر اقدمات نہیںکرسکی ۔انہوں نے کہا کہ سڑک پر ڈوڈہ سے 24اور اننت ناگ سے 45کلو میٹرکا کام ہوا ہے ۔محکمہ کے ایک اور اعلیٰ افسر نے بتایا کہ سڑک پر ایک ٹنل کی تعمیر ہونے سے نہ صرف اُس کا فاصلہ کم ہو گا بلکہ دیساعلاقے کو کاپرن سے ملانے میں بھی مدد ملے گی ۔افسر نے بتایا کہ اگرچہ اس شاہراہ پر ایک ٹنل تعمیر کی گئی لیکن اُس کی تعمیر کا کام صرف 7کلو میٹر تک ہی ہوا ہے ۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ نے 2008میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ٹنل کی تعمیر کا کام مکمل کیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔محکمہ تعمیرات عامہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اُس ٹنل کی تعمیر کے حوالے سے کوئی بھی ڈیڈلاین مقرر نہیں کی گئی تھی ۔اگر اُس حوالے سے ایک تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ تیار کی گئی تاہم اُس کی جانب سرکار کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا گیا اور اس پروجیکٹ کے تئیں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ 7کلو میٹر ٹنل کی تعمیر کا کام گائی سے دیسا تک مکمل ہو چکا ہے اور دیگر کام کے حوالے سے کوئی بھی اقدمات نہیں کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تعمیرات عامہ کے وزیر نعیم اختر نے اس پروجیکٹ کی تعمیر کے سلسلے میں پچھلے سال مرکزی وزیر کے ساتھ ایک میٹنگ کی تاہم ابھی تک اُس کی منظوری نہیں مل سکی ہے ۔جبکہ سنگ پورہ وائلو ٹنل کی منظوری مرکزی سے مل چکی ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 2008میں اخروٹ کا کاروبار کرنے والے تمام تاجر اسی روٹ سے اپنا مال گھوڑوں کے ذریعے کشمیر بھیجتے تھے ۔معروف صحافی اور سماجی کارکن نصیر احمد کھوڈا نے کہا کہ اُس کی تعمیر سے خطے کی اقتصادی پوزیشن کو بڑھااوا دے گی ۔اُس سڑک کے ساتھ منسلک علاقوں جن میں صاحب والی مرگ ، ہشوردر ، گوتل مرگ ، بردی بل ، منگل تتتھا ، پوش پٹن ، دما ٹاپ ،الکنڈ ، کوٹی اور دیگر علاقوں انتہائی خوبصورت ہیں جہاں پر سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے ۔مقامی لوگوں نے سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ سڑک کی تعمیر کا ادھورا کام مکمل کیا جائے تاکہ لوگوں کو کشمیر کے ساتھ رابطہ رہے ۔2013میں ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور راجیہ سبھا ممبر غلام نبی آزاد نے مرکزی سرکار پر روز دیا ہے کہ وہ سڑک کو نیشنل ہائے وے کے زمرے میں لائیں ۔انہوں نے ایک خطہ مرکزی ٹرانسپورٹ وزیر نتن گڈکرے کو لکھا تھا جس میں انہوں نے اس سفارش کی تھی ۔جموں وکشمیر حکومت نے اس سلسلے میں ایک مکمل پروجیکٹ رپورٹ منسٹری آف روڑ ٹرانسپورٹ کو 2014میں پیش کی تھی تاہم یہ پروجیکٹ رپورٹ ابھی تک یونین منسٹری کے پاس پڑا ہے ۔