عارف شفیع وانی
صدیوں سے ڈل جھیل کی خوبصورتی نے دنیا بھر کے بادشاہوں، مہاراجوں، انگریزوں اور سیاحوں کو مسحور کر رکھا ہے۔ تاہم جھیل انسانی مداخلت اور سرکاری بے حسی کے نتیجہ میں تباہ ہو چکی ہے۔
ڈل جھیل کے کنارے G20 سربراہی اجلاس کی میزبانی نے اس کی بے پناہ ماحولیاتی اور اقتصادی اہمیت اور طویل مدتی تحفظ کی ضرورت کواجاگرکیاہے۔ جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران ڈل جھیل کو دیدہ زیب بنانے کیلئے 500 سے زائد افراد اور 16 مشینوں کو کام پر لگادیاگیاتھا۔ڈل کو ایک برفانی اورصاف و شفاف پہاڑی جھیل مارسرکے ذریعہ دو اہم ذیلی آبی ذخائر دھار دنہامہ اور داچھی گام کے ذریعے پانی بہم پہنچتا ہے۔یہ جھیل وادی کے ایک بڑے باہم جڑے ہوئے آبی ماحولیاتی نظام کے مرکزی حصے کے طور پر کام کرتی ہے۔ جھیل میںموجود سینکڑوں چشمے بھی اس کی ہائیڈرولوجی کو برقرار رکھتے ہیں۔ 337 مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ڈل جھیل کی باہری حدو د میں انسانی بستیاں، پہاڑ، ڈھلان، بارہ ماسی پودے، کھلی جھاڑیاں، زرعی میدان اور بنجر زمین شامل ہیں۔
ڈل کے پانی اتنا شفاف تھا کہ اس نے والٹر آر لارنس سے بھی داد بٹورلی تھی جو 1887 میں کشمیر کے ری سیٹلمنٹ کمشنر تھے۔لارنس اپنی کتاب ‘وادی کشمیر’ میں لکھتے ہیں’’شاید پوری دنیا میں ڈل جھیل جیسا خوشگوار کوئی گوشہ نہیں ہے۔ ڈل کا پانی ریشم کی طرح صاف اور نرم ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ کشمیر ی شالوں کی خوبصورتی جھیل کے نرم پانیوں میں دھونے کی مرہون منت ہیں‘‘۔
ڈل 1970 اور 80 کی دہائی میں بالی ووڈ کا پسندیدہ ترین مقام تھا۔ بہت سے گانے اس خوبصورت جھیل کے پس منظر میں فلمائے گئے تھے۔ تاہم ڈل جھیل اور اس کے قرب و جوار میں وسیع پیمانے پر شہری کاری نے اس کے رقبہ کو نچوڑ لیا اور ٹھوس و رقیق فضلہ کے بھاری بہاؤ کی وجہ سے اس میں موجود نباتات اورجمادات کوناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ سیوریج ٹریٹمنٹ یا غلاظت کی سائنسی بنیادوںپر صفائی کی سہولیات اورعمومی صفائی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈل چند سال پہلے تک گھاس پھوس کی وسیع افزائش سے دوچار تھا۔ اگر یہ کافی نہیں تھاتو ماضی میں کچھ سیاست دانوں نے اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کیلئے جھیل کے اندر سڑکیں اور پل بنائے جس سے اس کے نازک ماحولیاتی نظام کو متاثر کیا گیا۔
2002میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے قانون کے ایک طالب علم کے خط کا نوٹس لیا جس میں کہا گیا تھا کہ ڈل جھیل ‘سیوریج، کچرے اور فضلے کے ذخائر میں تبدیل ہو گئی ہے۔عدالت عالیہ نے اُس خط کو ایک مفاد عامہ عرضی میں تبدیل کردیا اور سنگین ماحولیاتی چیلنجوں سے دوچارڈل جھیل کی حالت بہتر بنانے کیلئے بے پناہ ہدایات جاری کیں۔ڈل کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے میں حکام کی ناکامی پر ناراض ہائی کورٹ نے 2009 میں جھیل کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور اسے کسٹوڈیا لیگس یا عدالتی تحویل میں قرار دیا۔
جموں و کشمیر حکومت نے 16 برسوں (2002-2018) میں ڈل جھیل کے تحفظ اور اس کے مکینوں کیلئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر 759 کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں اس آب گاہ کے تحفظ کیلئے 239 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ڈل اور نگین کی بحالی کیلئے وزیر اعظم کے ترقیاتی پیکیج کے ذریعے 273 کروڑ روپے کا ڈی پی آر تیار کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت ڈل جھیل کی بحالی میں سنجیدہ ہے اور اس کے تحفظ کیلئے دل کھول کر فنڈز فراہم کر رہی ہے۔ واحد مسئلہ منصوبوں کی مناسب تکمیل کا ہے۔ جھیل کے ارد گرد کچھ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس بنائے گئے ہیں اور صفائی اور ڈریجنگ کیلئے مشینری بھی منگوائی گئی ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ نائوپورہ سے سعدہ کدل تک جھیل کے کئی اندرونی علاقے ابھی تک ایس ٹی پیز سے جوڑے نہیں گئے ہیں۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پچھلے دو برسوں سے لیک کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ اتھارٹی (LCMA)، جسے ڈل کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، نے جھیل کی شان و شوکت بحال کرنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے ہیں۔ ڈل جھیل کے اصل رقبہ کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ڈل جھیل 50 مربع کلومیٹر سے کم ہو کر 11 مربع کلومیٹر رہ گئی ہے۔ تاہم LCMA اس بیانیہ کی تردید کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سر والٹر لارنس کی طرف سے کی گئی جھیل کی حدبندی کے مطابق 1887 میں جھیل کا رقبہ 25.86 مربع کلومیٹر اورآبی علاقہ کا رقبہ 18 مربع کلومیٹر تھا۔
وائس چیئرمین ایل سی ایم اے ڈاکٹر بشیر بٹ کہتے ہیں کہ پہلی بار جھیل کی حد بندی کی گئی ہے۔ ٹائم سٹیمپڈ سروے آف انڈیا نقشوں ، ڈرون سے GIS ڈیٹا اوراراضی پیمائش کا استعمال کرتے ہوئے ڈل کی سرحدوںکے ساتھ 302 باؤنڈری ستون، مارکر لگائے گئے ہیں۔بٹ کہتے ہیں’’ڈل جھیل میں اب تک کا سب سے زیادہ کھلا رقبہ 20.3 مربع کلومیٹر ہے۔ ہم 25.01 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلے ہوئے ڈل و نگین جھیل کے تحفظ کیلئے کام کر رہے ہیں اور 337.17 مربع کلومیٹر کے مفصلہ علاقہ میں جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا گیا ہے۔ ہم للی پیڈز اورخودرو گھاس کے پھیلائوکو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر توجہ نہ دی جاتی تو یہ زمینی سطح میں تبدیل ہو سکتے تھے‘‘۔ڈل جھیل کو درپیش اہم مسائل میں سے ایک پانی کی مناسب گردش کا فقدان ہے۔ نالہ مار نہر کی بندش سے جھیل کے اندرونی علاقوں میں پانی کی گردش شدید متاثر ہوئی ہے۔ نالہ مار کو 13ویں صدی میں کشمیر کے مشہور بادشاہ بڈ شاہ نے ڈل جھیل کے پانی کو منظم کرنے اور اس کے باشندوں کو پانی کی نقل و حمل کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے بنوایاتھا تاہم 70 کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کی حکومت نے نہر کو مٹی سے بھر دیا۔
نالہ مار آبی گزرگاہ پائین شہرسے گزرتی تھی اور صدیوں تک ایک ساتھ آبی راستہ اور ڈل جھیل کے بڑے اخراجی نہر کے طور پر کام کرتی تھی۔اس کا پانی داچھی گام رکھ سے نکلتاتھا اور ہارون کے سربندھ میں جمع ہونے کے بعد ایک اور نہر سے ہوتا ہوا شالیمار اور نشاط تک چلا جاتاتھا۔ اگرچہ LCMA نے کئی اندرونی نہروں اور نیوی گیشن نہروں کو بحال کر دیا ہے، لیکن اسے نالہ مار نہر کو دوبارہ بحال کرنے کے امکانات تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور آؤٹ فلو چینل یا اخراجی نہرژونٹھ کوہل کی کھدائی اور صفائی کی ضرورت ہے۔
ایل سی ایم اے کو ڈل کی ہائیڈرولوجی یا پانی کی مقدا ر اور معیار کو برقرار رکھنے کیلئے اس میں آنے والی پانی کی نہروں اور اخراج کے نہروںکو باقاعدگی سے بحال رکھنے کی ضرورت ہے۔باقاعدہ بہاؤ کو برقرار رکھنے کیلئے ڈل لاک ریگولیٹری گیٹ پرنیڈل نظام کو بحال کیا جانا چاہئے۔
پہلی بار کیا گیا باتھ میٹرک سروے جھیل کے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچائے بغیر اس کی سائنسی ڈی ویڈنگ اور ڈریجنگ کے قابل بناتا ہے۔ ڈریجنگ اورڈی ویڈنگ یعنی کھدائی اور گھاس پھوس کا اخراج ماہرین کی نگرانی میں کیا جانی چاہئے۔ اندازوں کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر 9سے10 میٹرک ٹن ٹھوس فضلہ ہاؤس بوٹس، انسانی بستیوں، جھیل باسیوں اور کھلے پانی کی سطحوں بشمول آمد و اخراج کی نہروںسے جمع کیا جا رہا ہے۔
ڈل کو درپیش ایک اور مسئلہ سلٹیشن یعنی ریت ،کیچڑ اور دیگر ٹھوس چیزوںکا جمائو ہے۔ مفصلاتی علاقوں سے ٹنوں کے حساب سے گھارا،کیچڑ اور غذائیت کا بوجھ تیلہ بل اور ملوری نالوں کے ذریعے جھیل میں داخل ہوجاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جھیل میں ہر سال 40,000سے50,000 ٹن مردہ اور ٹھوس مواد بشمول کیچڑ،مٹی ،گھارا اور غذائی اجزا مفصلاتی علاقوں سے شامل ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں گہرائی میں کمی آئی ہے اور کودرو گھاس پھوس اُگ آیا ہے۔ جھیل میں ایسے ٹھوس موادکی آمد کو روکنے کے اقدامات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران غیر قانونی تعمیرات کو روکنے اور ڈل کے پانی کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ اب تک بہت کام ہو چکا ہے لیکن یہ اچھا کام جاری رکھنا ہے۔ ڈل جھیل میں اگائی جانے والی نامیاتی سبزیوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ جھیل میں اگنے والا ندرو (کمل کا تنا) مشہور ہے اور متحدہ عرب امارات تک برآمد کیا جا رہا ہے۔
جی 20 اجلاس سے امید
22 مئی تا 24 مئی تک ڈل جھیل کے کنارے شیرکشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹرمیںG20 ٹورازم ورکنگ گروپ جموں و کشمیر حکومت کے لئے آبی ذخائر کے تحفظ میں عالمی سائنسی مدد حاصل کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اجلاس میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، جرمنی، فرانس، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، کوریا، میکسیکو، روس، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکہ سمیت 20 ممالک کے اعلیٰ نمائندے شرکت کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان ممالک کے مندوبین بھی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ غیر ملکی مندوبین کو ڈل جھیل میں شکارا کی سیر بھی کرنی ہے اور اس کے کنارے ثقافتی پروگرام سے بھی لطف اندوز ہونا ہے۔
جموں و کشمیر حکومت کو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی بے پناہ ماحولیاتی، سماجی، اقتصادی اہمیت اور سیاحت کی صلاحیت کے پیش نظر انہیں ڈل جھیل کے تحفظ کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر ورکنگ گروپ اپنی سفارشات میں ڈل جھیل کے تحفظ کو بھی شامل کرتا ہے تو اس سے یقینا ڈل جھیل کی شان رفتہ بحال کرنے کیلئے عالمی فنڈنگ، اعلیٰ ماہرین اور جدید ترین مشینری حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے بھی سرینگر میں ہونے والے جی 20 اجلاس کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے کی دیرینہ مہمان نوازی کی میراث کو فروغ دینے کیلئے ایک عالمی پلیٹ فارم ملے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس تقریب کا سیاحت کے شعبے کے ساتھ ساتھ یونین ٹریٹری کی مجموعی معیشت پر کافی اثر پڑے گا۔لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کہتے ہیں’’سرینگر شہر آبی ذخائر کے ارد گرد تیار اور پروان چڑھا، جس نے معاشرے، مقامی معیشت اور ثقافت کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیاہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ نظر انداز ہونے اور تنزلی کا شکار اس انمول ورثے کی بحالی وقت کی ضرورت ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس سے لوگوں کا معیار حیات بہتربنانے میں مدد ملے گی اور مقامی معیشت کو فروغ ملے گا ‘‘۔
آئیے امید کرتے ہیں کہ ڈل کی خوبصورتی G20 کے شرکاء کی توجہ حاصل کرے گی اور وہ ڈل کے تحفظ کے سفیر کے طور پر کام کریں گے۔ انسانی بود و باش ، ہاؤس بوٹس، جزیروں اور تیرتے باغات کے ساتھ اپنے منفرد ماحولیاتی نظام کے ساتھ جھیل ایک منفردعالمی سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ڈل کو ایک عالمی جھیل سمجھا جانا چاہئے اور یہ اپنی بقا ء کیلئے عالمی کوششوں کا مستحق ہے۔
مضمون نگار انگریزی روزنامہ ’گریٹر کشمیر‘کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہیں۔