شعبہ اُردو کشمیر یونی ورسٹی کے سالانہ ادبی و تحقیقی مجلّہ’’بازیافت‘‘ کے شمار نمبر ۳۵۔۳۴ میں مرحوم ڈاکٹر فرید پربتی کا مضمون بعنوان ’’اسعد بدایونی کی شاعری‘‘ شامل ہے۔ اس مضمون کے کچھ ابتدائی جملے ملاحظہ ہوں:
’’اُردو ادب میں اگر جواں مرگ شعراء کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں بغیر کسی تعمیہ و تخرجہ کے اُردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کا نام سر فہرست آئے گا …………… اس فہرست میں کس کس نام رکھا جائے، کس کس کا نکال دیا جائے۔عمد تہ الملک امیر خان انجامؔ،عبدالحئی تاباںؔ، مجازؔ لکھنوی، خلیل الرحمان اعظمی،بانیؔ،ناصر ؔکاظمی وغیرہ ۔اس فہرست میں اسعد بدایونی کا نام شامل کرتے ہوئے ہاتھ ضرار کانپ جاتا ہے‘‘
یہ اقتباس اُس مضمون کا تراشہ ہے جو ڈاکٹر فریدؔ پربتی نے لگ بھگ سات برس پہلے صفحہ قرطاس پر بکھیراتھا۔ مذکورہ اقتباس کا یہ فقرہ ’’ اس فہرست میں کس کس کا نام رکھا جائے‘‘ اپنی جگہ نحوی اعتبار سے مکمل لیکن معنوی سطح پراستفہامیہ لہجہ کی وجہ سے نامکمل ہے! یہ فقرہ شاید خود فریدؔ پربتی کے نام کا پیاسا تھا۔آج یہ لگتا ہے کہ اس فقرہ کا متن اتصال کی لذت سے اس کے راہیٔ ملکِ عدم ہوتے وقت سرشار ہوا ہوگا کیوں کہ ’’کس کس‘‘ کو انجامؔ،تاباںؔ،مجازؔ،خلیلؔ،بانیؔ، ناصرؔ کے علاوہ اب فریدؔپربتی بھی ملا ہے۔ یہ سطور رقم کرتے ہوئے میرے ہاتھ بھی کانپتے ہیں اور روح بھی کیوں کہ اس وقت بادلِ ناخواستہ مجھے فریدؔپربتی کا نام اُس فہرست میں شامل کرنا پڑرہا ہے جو عمرِ عزیز کی کچھ ہی بہاریں دیکھ سکے۔اُردو شاعری کے عصری منظرنامے پر نظر دوڑاتے ہی پتہ چلتا ہے کہ ایسے شعرا نہایت کم یاب نہیں جنہوں نے کم عمری میں ہی اپنی فکری بالید گی اور فنّی پختگی کی بنیادوں پر اساتذئہ فن سے سند حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ادب نواز قارئین سے دادو تحسین کے جواہر وصول کر کے اپنی اپنی ادبی کا ئینات سجائی اور سنواری۔ایسے ہی فن کاروںمیں ڈاکٹر فرید پربتی کا شمار ہوتا ہے جنہوں نے فنِ شاعری بالخصوص رباعی پر نہایت ہی عالمانہ طرز کے مقدمات قائم کیے۔
ویسے بھی صنفِ رباعی نے بہت ہی قلیل شعرا کو اپنے فنّی اور موضوعاتی حصار میں قدم رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔اس کوچے میں جو تخلیقی فن کار سرخ رو ہو کر گزرے ،ان میں کئی اعتبار سے ڈاکٹر فریدؔ پربتی کا نام قابلِ ذکر ہے۔موصوف نے نہ صرف اُردو رباعی کے خزانے کو وسعت عطا کی بلکہ اس کے فن کی بابت ایک کتاب بعنوان ’’مقدمہ صنفِ رباعی‘‘ اُردو ادب کو تفویض کر کے رباعی کے ناقدین میں اپنا نام درج کروایا۔اس بات سے شاذ ہی کسی کو انکار ہوگا کہ صنفِ رباعی اپنے عروضی نظام کی پیچیدگیوں کی بموجب شعرا کی عدمِ توجہی کی شکار ہوئی ہے۔اس کی فارسی اور اُردو روایت اس کی موضوعی اور فنّی اختصاص کی گواہ ہے۔ موضوعی اعتبار سے اس میں موعظانہ ،پند و نصائح اور اخلاقی و اصلاحی نوعیت کے مضامین پیش کیے جاتے رہے ہیں ۔ادھر کچھ معتبر شعرا مثلاً فراقؔ گورکھپوری نے جسم و جان کی لذتوں کو رباعی کی زینت بنایا ہے۔
غرض غزل کی طرح رباعی میں بھی رنگا رنگ موضوعات کا تنوّع دیکھنے کو ملتا ہے ۔جس میں دوسرے مقتدر رباعی گو شعرا کے ساتھ ساتھ فریدؔ پربتی کی شعوری اور غیر شعوری کاوشوں کو بھی بر راہِ راست عمل دخل ہے جس کی بنیاد پر ہم کہ سکتے ہیں کہ رباعی کے میدان میں فریدؔ پربتی بلا مبالغہ ایک قد آور شخصیت تھے ۔اپنی مذکورہ تصنیف کے ’’ ابتدائیہ‘‘ میں تصنیف کے وجہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہوئے اعلی ٰ فنّی قدروں کے تئیں اپنی نیک نیتی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
’’میرا مقصد صرف اور صرف رباعی اور اس کے فن کی تفہیم ہے ۔ اس وجہ سے میں نے ایسی باتوں کو کم سے کم موضوعِ بحث بنایا ہے جن سے تفہیمِ رباعی کے ساتھ اپنی بات بیان کرنے میں الجھاؤ پیدا ہوجائے۔ میرا مقصد تمام وکمال تخلیقی ذہنوں کے لیے راہ ہموار کرنی ہے نہ کہ روڑے اٹکانا‘‘
ایک سچے تخلیق کار کی طرح ان میں بھی فن کی دائمی قدروں کا احساس جا گزیں تھا جس کے طفیل ہر کسی نو آموز کو شاعر کے فنّی، لسانی، جمالیاتی اور تاریخی امور پر سوچنے کی دعوتِ فکر دیتے رہتے تھے۔ مذکورہ اقتباس فریدؔ پربتی کی اس عالِم صفت خصلت پر دال ہے ۔ ان کو یہ شکایت تھی کہ بیشتر ناقدین نے رباعی کے فن کو زیرِ بحث لاتے وقت اپنی عالمانہ وجاہت کا رعب و داب قائم کرنے کی کوشش کی جو کسی بھی طرح اس صنف کے ضمن میں معاون ثابت نہیں ہوئی بلکہ تخلیق کار اس صنف سے مغائرت برتنے لگے:
’’ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو رباعی کے فن پر لکھنے والے ہیں ان میں سے معدودے چند خصوصاً مولانا سید سلیمان ندوی ، پروفیسر محمود خان شیرانی، پروفیسر سلام سندیلوی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو چھوڑ کر بیشتر اپنی علم دانی اور اجتہاد کا ہی زیادہ سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیںاور رباعی کے سلسلے میں کم سے کم کارآمد مواد فراہم کرتے ہیں ۔اسی وجہ سے فنِ رباعی میں زیادہ سے زیادہ الجھنیں پیدا ہو گئی ہیں ‘‘
چہ جائیکہ فریدؔ پربتی کا یہ کہنا درست ہے کہ اکثر ناقدین نے رباعی کی فنّی تفہیم و تشریح کی راہ کو مسدود بنایا ہے مگر یہاں پر اس حقیقت کا اعتراف بہر حال ضروری ہے کہ فن ِ رباعی ایک مشکل فن ہے ۔ غالبؔ جیسے فن کار ، جس نے اُردو شاعری کو اپنی خلاقی کے ذریعے کئی وسعتوں سے آشنا کیا مگر جب رباعی لکھتے ہیں یا اس کے فن پر گفتگو کرتے تو ٹھوکر کھاتے ہیں ۔ ۴؎ یہی وجہ ہے کہ اس صنف کی طرف زیادہ شعرا حضرات مائل نہیں ہوئے حالاں کہ اس کے اور بھی وجوہ ہیں مثلاً غزل کی مقبولیت وغیرہ ۔تاہم صنفِ رباعی مسلسل اور متواتر مشق و مہارت کی متقاضی ہے۔ فریدؔ نے جہاں رباعی کے عروضی مسائل کا کھل کر دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے مثلاً مختلف بحور کو اوزان کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا ہے جن میں ’’ہزج‘‘، ’’رجز‘‘، ’’رمل متعارب‘‘ ، ’’کامل‘‘، ’’منسرح ‘‘، ’’مضارع ‘‘، ’’ سریع ‘‘ ، ’’خفیف ‘‘، ’’محتبث ‘‘، ’’طویل ‘‘، ’’ مدید‘‘، ’’ بسیط ‘‘ ، ’’وافر‘‘ شامل ہیں ۔وہیں اس کے ارتقائی مدارج کو نہایت ہی شرح و بسط کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔ نیز اُردو اور فارسی کے ممتاز رباعی گو شعرا کے کلام سے مثالیں دے کر اپنی بات کو منوانے کی علمی اور منطقی کوشش کی ہے ۔ جیسے موزوں اور ناموزوں رباعی پر بحث کو چھیڑتے ہوئے مرزا یاس یگانہ چنگیزی کی مندرجہ رباعی کو بطورِ مثال پیش کرتے ہیں ؎
کیو ں مطلبِ ہستی و عدم کھل جاتا
کیوں رازِ طلسم کیف و کم کھل جاتا
کانوں نے جو سن لیا وہی کیا کم ہے
آنکھیں کھلتیں تو سب بھرم کھل جاتا
فریدؔنے اپنی کتاب میں رباعی کے بحور و اوزان کے ارکان کو جس انداز میں جدول میں پیش کر کے سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ انہی کا خاصاہے ۔
فنِ رباعی پر مباحث قائم کرنے کے علاوہ فرید ؔ نے جاذبِ توجہ اور دلکش رباعیات کہی ہیں ۔انہوں نے رباعی کو روایتی موضوعات کے حصار سے باہر نکال کر اپنے داخلی درد و کرب اور خارجی کشاکش کے مختلف اور متنوّع رنگوں سے مزیّن کیا ہے ۔ مثال کے بطور یہ دعایہ رباعی ؎
رومی ؔ ہوں نہ رازیؔ ہوں نہ خیام و سعیدؔ
ہوں ذرئہ ناچیز کہ ہے نام فرید
قدرت سے تری اُٹھتا ہے صحرا میں حباب
ذروں سے اُگا دیتا ہے لاکھوں خورشید
اس رباعی میں فریدؔ نے جو دعا مانگی ہے ،اس دعا کو اللہ کے حضورمیں مسند ِ قبولیت پر براجمان کیا گیا ہے کیوںکہ ان کے بے وقت انتقال کے بعد ہر ادیب اور فن کار اور ان کی موضوعی اور فنی انفرادیت کو قبول کرتے ہوئے سرِ تسلیم خم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کی رباعیات میں داخلی تاثیر اور گداز کی کیفیات سے قاری مصافحہ اور مکالمہ قائم کر کے نامانوس سرمستی وسرشاری سے لبریز ہوتا ہے،اور جس کائناتی احساس و ادارک کو رباعی کے آئینہ میں دیکھنے کا تقاضا کیا جا سکتا ہے وہ تہہ در تہہ ان کے کلام میں موجود ہیں ۔ لفظ و معنی اور احساس و جذبہ کے باہم ارتباط سے ان کی رباعی خزاں میں بہار کی بادِ صبا کی سی خنکی کا مزہ دیتی ہے۔وہ رباعی میں ہر طرح کے موضوعات نظم کرنے پر قدرت رکھتے تھے ،اس ضمن میں ان کی درج ذیل رباعی بطورِ مثال پیش کر سکتے ہیں جس میں انہوں نے اپنے قدو قامت اور حسن و جمال کو نہایت ہی خوب صورتی اور فن کاری کے ساتھ نظم کیا ہے:
واقف میں ہر اِک خواب کی تعبیر سے ہوں
میں حُسن ہوں اور حُسن کی جاگیر سے ہوں
کہتے ہیں مجھے یوسفِ ثانی اے دوست
کنعاں سے نہیں، وادی ء کشمیر سے ہوں
یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی کہ عصرِ حاضر میں معدودے چند شعرا ہی فنِ رباعی گوئی میں اُن کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ فرید ؔپربتی کے بے وقت سانحہ ارتحال کی وجہ سے آج ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اُردو رباعی بیوہ ہوگئی۔فرید پربتی کی رباعی گوئی کو اُردو کے معتبر ناقدین نے بنظرِ استحسان دیکھا ہے۔پروفیسر عتیق اللہ فرید ؔ پربتی کے فنِ رباعی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’رباعی فرید پربتی کے باطن کا سراغ ہے……فرید کے شعری تجربے میں اسی لیے حشوو زائد کی گنجائش بھی کم سے کم ہوتی ہے کہ وہ لفظ و معنی کے اس مغائر رشتے کی گہری فہم رکھتے ہیں۔ معنی اقرار کی سرزمین کے بجائے انکار کی سرزمین پر اپنی افزائش سے گزرتا ہے ۔ فرید ؔ پربتی کی رباعی اسی نسبت سے کشادِ معنی کی مظہر ہے اور جس کے معنی کی جہت جہت داخل کی طرف ہوتی ہے۔اس خصوص میں(بالخصوص رباعی کے پیش نظر ) فرید ؔ پربتی کا فن یکتا بھی ہے اور معنی کی یک جہتی کو مسترد بھی کرتا ہے۔‘‘
فرید ؔپربتی کی ذات شاعر،نقاد،دانشور،استاد،محقق،منتظم کا خوب صورت امتزاج پیش کرتی تھی،وہ گویا اپنی ذات میں ایک دبستان تھے۔یہاں پر اُن کی کس کس خصوصیت کا اُجاگر کیا جائے ،اس کے لیے تو با ضابطہ ایک دفتر درکار ہے۔میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ فریدؔ کی بے وقت موت کی وجہ سے کشمیر میں اُردو شاعری کا پربت گِر گیا۔
اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے کے کچھ ہی سال بعد فرید ؔپربتی مقامی، قومی اوربین الاقوامی رسائل و جرائد کی زینت بنتے گئے۔اپنے داخلی درد و کرب اور حسین و نازک جذبات و احساسات کا اظہار نہایت ہی فکری،لسانی،جمالیاتی اور فنّی بالیدگی، پختگی اور تخلیقی بہاؤ کے ساتھ اپنی شاعری میں کیا ہے۔اس طرح متواتراور یکے بعد دیگرے ان کی شعری سوغاتیں مختلف عنوانات ’’ابرِ تر‘‘، ’’آبِ نیساں‘‘ ، ’’اثبات‘‘، ’’فرید نامہ‘‘ ، ’’گفتگو چاند سے‘‘، ’’ہزار امکاں‘‘، ’’خبرِ تحیّر‘‘ کے تحت اُردو شاعری کے منظر نامے پر ابھرتی اور داد و تحسین وصول کرتی رہیں ۔فرید ؔ پربتی نے یقینا بہت کم ادبی زندگی گزاری لیکن اس کم عمری میں ہی انہوںنے جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ ہر کسی کی قسمت میں نہیں آتیں۔
میں نے فریدؔ پربتی کو بحیثیت اُستاد بھی دیکھا ہے اور بطورِ رفیق کاربھی۔انہوں نے ہر سطح پر مجھے اپنے متحرک کردار کی وجہ سے متاثر کیا ۔یہی اُن کا افتخار بھی ہے اور انفراد بھی۔ان کے انتقال سے چند روز پہلے میں ان کی عیادت کے لیے میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،صورہ روانہ ہوا ،انتہائی قابلِ رحم حالت میں ہونے کے باوجود بھی وہ اسی خودداری اور اُردودانی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہاں جتنے بھی تیماردار تھے اُن سب کے ساتھ کشمیری میں جب کہ مجھ سے ساری باتیں اُردو میں ہی کیںاورمیں نے بھی احتراماً اُردو میں ہی جواب دینا مناسب سمجھا۔ اُردو دوستی کی اس سے بڑی مثال آج تک کم سے کم میں نے نہیں دیکھی ہے ۔ان کے انتقال سے دو دن قبل ایک عزیز کا فون موصول ہواکہ فریدؔصاحب کا بخار اچانک اور غیر متوقع طور پر بڑھ گیا اور وہ اب اشارہ بھی مشکل سے ہی کر پاتے ہیں۔میرے وجود کے سمندر میں خدشات اور خطرات کی بے رحم موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگیں اور ان کا یہ شعرگویا بار بار میری سماعتوں سے ٹکرانے لگا ؎
میں کر رہا ہوں کل سے اشاروں میں گفتگو
یہ کون مجھ سے قوتِ گویائی لے گیا
نظامت فاصلاتی تعلیم،کشمیر یونی ورسٹی،سری نگر
برقی پتہ : [email protected]