کتابی جائزہ
رئیس احمد کمار
اردو کے مشہور اساتذہ، شعراء اور صحافیوں کی کہکشاں میں شاداب زکی کا شمار عزت و احترام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ادبی ماحول انہیں ورثے میں ملا ہے کیونکہ ان کے والد صاحب زکی تالگانوی بھی ایک ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ ثنائے رب کریم ڈاکٹر شاداب زکی کا تیسرا حمدیہ شاعری مجموعہ ہے جو 122 صفحات پر مشتمل ہے اور جسے ایم کے آفسیٹ پرنٹرز دہلی نے شائع کیا ہے۔ کتاب کے ابتدائیہ میں مصنف خود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی نہیں جسے مدح پسند ہو اسی لئے انہوں نے خود اپنی مدح فرمائی۔ مصنف نے سورہ الفاتحہ، سورہ انعام، سورہ کہف، سورہ سبا اور سورہ فاطر کا حوالہ دے کر یہ کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ اللہ تعالی اپنی مدح کے ساتھ ساتھ کیسے اپنی بڑھائی بھی بیان کی ہے۔ بے شک رب کریم کے سوا نہ کوئی عبادت کے لائق ہے اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی عظیم اور اعلی ہے۔ اس لئے صرف وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے۔ اس تصنیف میں سیفی سرونجی صاحب کا خوبصورت اور مدلل مضمون بھی قارئین کی نگاہوں سے گزرتا ہے۔ بقول ان کے، حمد و ثناء کہنا ایک بڑی عبادت کا درجہ رکھتا ہے اور یہ صرف وہی شاعر کہہ سکتا ہے جسے قدرت منتخب کرتی ہے یا ہدایت دیتی ہے۔ سیفی سرونجی صاحب کا مزید فرمانا ہے کہ شاداب زکی اس عہد کا بہترین حمد کا شاعر ہے۔ ڈاکٹر تابش مہدی اس کتاب کے بارے میں ایک طویل مضمون رقم کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر شاداب زکی ہمارے عہد کے خوش فکر، سنجیدہ اور قادرالکلام شعراء میں ہیں۔ ان کے مطابق ثنائے رب کریم حمدیہ شاعری کی ایک قابل قدر اور لائق تحسین کتاب ہے۔ ڈاکٹر معصوم شرتی نے بھی شاداب زکی کی اس کتاب پر ایک جامع مضمون تحریر کیا ہے۔ ان کے مطابق جب ہم شاداب صاحب کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ موصوف کی شاعری میں حمد گوئی کی وہ تمام خوبیاں بہ نفس نفیس موجود ہیں جو اس کے لئے لازمی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مصنف کی زبان سلیس و سادہ ہے جسے سمجھنے میں قاری کو کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
پہاڑ بھی ترے اور آب جو تیری
ہے سبزہ زاروں پہ پھیلی ہوئی نمو تیری
گواہی دیتی ہیں عظمت کی، تیری تخلیقات
جو آرہی ہیں نظر ہم کو چار سو تیری
اس کتاب میں شامل یہ پہلی حمدیہ نظم ہے جس میں شاعر یہ بتانا چاہتا ہے کہ جو کچھ بھی اس کائنات میں ہی سب اللہ نے ہی تخلیق کیا ہے اور اس کی بڑائی اور عظمت بیان کرتا ہے۔ اللہ کے بغیر کسی کا کام نہیں چلتا اور کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اللہ کی جستجو نہ ہو۔ کتاب میں شامل یہ ایک اور حمدیہ کلام کے ابتدائیہ اشعار ہیں جن میں شاعر کہتا ہے کہ آگ کو بھی گلستان بنانا اللہ ہی کی قدرت اور طاقت ہے۔ نمرود کی نیندیں اگر حرام ہوگئی ہیں تو اس کے پیچھے بھی اللہ تعالی کی ذات تھی۔
رسل اور وہ انبیاء دینے والا
ہدایت کا اک سلسلہ دینے والا
وہی نیکیوں پر جزا دینے والا
خطاوں پہ جو ہے سزا دینے والا
ان اشعار میں شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہی ہماری ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے کے لئے بے شمار انبیاء اور رسول بھیجے ہیں۔ اللہ تعالی ہی نیک کاموں کے عوض جزا دیتا ہے اور گناہوں اور خطاوں پر سزا دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
یہ سورج ہے جس کا قمر بھی اسی کا
ہے سب روشنی کا سفر بھی اسی کا
وہی جس کا رحم و کرم ہے مثالی
دماغوں میں رہتا ہے ڈر بھی اسی کا
قرآن و حدیث میں متعدد جگہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سورج ، چاند، ستاروں اور باقی تمام سیارچوں کا پیدا کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہی کی زات ہے۔ یہاں تک کہ روشنی کو پیدا کرنا بھی اللہ تعالی کی کاری گری ہے۔ اللہ بہترین رحم و کرم کرنے والا ہے اور ہمیں ہمیشہ اسی کا ڈر رہتا ہے کہ قیامت کے دن وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔
ظاہر ہر ایک زرے سے تیرا جمال ہے
گویا کہ زرے زرے میں تیرا کمال ہے
آتا ہی ہے زوال سبھی کے عروج کا
بس تیری ذات ہے جو فقط لازوال ہے
پوری کتاب میں شامل تمام اشعار میں سے یہ اشعار مجھے بہت پسند آئے، شاعر نے کمال کا ہنر دکھا کر شاعری کےذریعے خوبصورت انداز میں اللہ کی بڑائی بیان کی ہے۔ بقول شاعر ہر زرے میں اللہ کا ہی جمال اور کمال ہے۔ دنیا میں سبھی کے عروج کو زوال آسکتا ہے مگر اللہ کی ذات وہ واحد زات ہے جو لازوال ہے۔
غم سے بے حال ہو گیا ہوں جب
تیری رحمت نے ہی سنبھالا ہے
اس پہ شاداب ہے مرا ایمان
وہ ہی اعلیٰ تھا وہ ہی اعلیٰ ہے
شاعر اپنے اندر اور ایمان کی بات کہتا ہے کہ جب بھی اسے غموں نے گیر کرلیا ہے اور وہ غموں کے سمندر میں ڈوبا نظر آتا ہے تو اللہ کی ہی رحمت جوش میں آکر اسے سنبھال دیتی ہے اور اسے نجات دلاتی ہے۔ اس کا یہ پختہ ایمان ہے کہ اسی کی ذات اعلیٰ تھی اور ہمیشہ ہوگی۔
الہی زوق دے بندوں کو قران کی تلاوت کا
پڑھیں وہ ترجمہ بھی ساتھ میں ہر ایک آیت کا
اس شعر کو پڑھ کر مجھے شاعر مشرق علامہ اقبال رح کا ایک معروف شعر زہن میں آیا۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
بے شک جب تک مسلمان یا کوئی بھی مذہبی علوم کا شیدائی قرآن کریم کو مفہوم کے ساتھ پڑھنے اور سیکھنے کی پہل نہ کرے تب تک اسلام اور قران کا آفاقی پیغام نہ اسے سمجھ میں آئے گا نہ ہی وہ اس پر عمل کرنے کی پہل کرے گا۔ اسی لئے ڈاکٹر شاداب بھی اس شعر میں اللہ کے بندوں کو قران مجید مفہوم کے ساتھ سمجھنے کی تلقین کرتا ہے اور اللہ سے یہی دعا مانگتا ہے کہ انہیں قران کو معنی کے ساتھ سمجھنے کی توفیق عطا ہو۔ اس کتاب میں حمدیہ شاعری پڑھ کر میں نے یہ اخز کیا ہے کہ اس میں عبدومعبو کے رشتے کا والہانہ اظہار بھی ہے اور اپنے خالق و مالک کی عظمت و کبرائی کا بیان بھی۔ قارئین کرام اس تصنیف کو پڑھ کر ضرور محظوظ ہوسکتے ہیں۔