ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے آبا و اجدادآفریدی پٹھان تھے ۔ان کے دادا غلام حسین خان عرف جمن خاں کے دو لڑکے عطاء حسین خان اور فدا حسین خاں تھے۔ عطا حسین خان کو کوئی اولاد نہیں تھی اور فدا حسین کی پیدائش ۱۸۶۸ ء میں ہوئی ۔وہ بیس سال کی عمر میں تجارت کے شوق میں حیدرآباد چلے گئے اور وہاں مرادآبادی برتنوں کا کام شروع کر دیالیکن حصول تعلیم کا شوق پھردل میں پیدا ہواتو پڑھنے لکھنے میں مصروف ہوگئے اور قانون کی کا امتحان پاس کرکے اورنگ آباد میں وکالت شروع کردی ۔’’آئین ِدکن‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا ،جب وکالت اور رسالہ خوب چلے اور فدا حسین کی شہرت دکن بھر میں ہوگئی تو حیدرآباد آگئے اور بیگم بازار کے حلقے میں جہاں تجارت کا آغاز کیا تھا، وہیں دفتر بنا لیا۔فدا حسین کی شادی قائم گنج کے کلال خیل کے بنی داد کی لڑکی نازنین بیگم سے ہوئی ۔اس ملنسارجوڑی گھر سات لڑکے ہوئے جن میں ڈاکڑ ذاکر حسین کا نمبر تیسرا ہے ۔ان کی ۸ ؍فروری ۱۸۹۷ء مطابق (۶؍رمضان المبارک ۱۳۱۴ھ بروز پیر)کو حیدرآباد میں ولادت ہوئی۔ذاکر صاحب کے والد حیدرآباد میں سخت بیمار ہوجانے کی وجہ سے اپنے وطن قائم گنج میں لوٹ آئے جہاں ۱۹۰۷ء میں ۳۹ سال کی عمر میں وفات ہوگئی۔والد صاحب کے انتقال سے قبل ذاکر صاحب کی کی ابتدائی تعلیم گھرپر ہی شروع ہوگئی تھی اور اس طرح اونچے خاندان کے بچوں کی طرح ذاکر صاحب گھر پر رہ کرانگریز ٹیوٹر کے ذریعہ پڑھے ،والد کے انتقال کے بعد وہ قائم گنج آئے تو انہیں مولوی بشیر الدین کے قائم کردہ ۱۸۸۰ء اسلامیہ ہائی ا سکول اٹاؤہ میں داخل کرادیا گیا۔ یہاں پر ذاکر صاحب کو اسکول کے صدر مدرس سید الطاف حسین کی سرپرستی ملی جن کے مفید اثرات ذاکر صاحب کی زندگی پر پڑنے لگے کہ آپ میںعلم وادب ،تحریر و تقریر، بحث و مباحثہ کا شوق پیدا ہوا ،نیزقومی و ملّی مسائل میں دلچسپی لینے کا آغاز ہوا۔اٹاوہ اسلامیہ ہائی اسکول سے ذاکر صاحب فارغ ہوئے توانہوںنے ۱۹۱۳ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیااور ۱۹۱۸ بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے اقتصادیات کے علاوہ قانون کے مضمون میںبھی داخلہ لے لیا ۔ذاکر صاحب نہایت ذہین ،ہوش مند اور سمجھ دار طالب علم تھے ۔علی گڑھ کالج برطانوی حکومت کے حلیفوںکامرکز کہا جاتا تھا، یہاں بھی طلبا میں دو گروپ بن گئے تھے ، انقلابی گروپ کی جانب سے مطالبہ کیا جانے لگا تھاکہ علی گڑھ کالج برطانوی حکومت سے امداد لینا بند کردیا جائے اور تمام امداد کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۲۰ء کو طلباء کے سامنے اپنا نقطہ نظر واضح طور پر رکھ کر اپنا موقف منوایا اور انجام کار ذاکر صاحب اورا ن کے ساتھیوں نے علی گڑھ کالج کو خیرباد کہہ کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے برلن جرمنی روانہ ہوئے ۔برلن میں تقریباًتین سال کا عرصہ گزار کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ، پھر گاندھی جی کے ساتھ رہ کرحق بیانی، حق شناسی ،حق کوشی اور ہمہ گیرانسانیت کے جذبے نے اگر کچے سونے کو کندن بنادیاتو حکیم اجمل خان کے خُلق و مروت، صبر وحلم نے اس پر جلّاکردی۔۱۵ ؍ا گست۱۹۴۷ء کو ملک آزاد ہوا تو جامعہ اسلامیہ میںیوم آزادی کا جشن پورے وقار کے ساتھ منایا گیا۔تقسیم ہند کی وجہ سے جس تباہی وبربادی سے ملک وقوم کو گزرنا پڑاوہ اپنی جگہ،لیکن اس کی سب سے شدید ضرب ہندوستان کے قومی تعلیمی اداروں پر پڑی اور سب سے بڑا نشانہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بننے کا خطرہ پیدا ہوگیا، خدشہ اس بات کا تھا کہ کہیں اس ادارے کے سربراہ احساس کم تری کا شکارہوکر اس سے ہاتھ نہ اٹھالیں۔اس لئے پنڈت جواہر لال نہرو اور مولاناا بوالکلام آزادکے ایماء پہ ان آڑے وقتوں میںذاکر صاحب یونیورسٹی کی مدد کے لیے آگے بڑھے ۔ ۱۹۴۸ء میں آپ بحیثیت وائس چانسلر علی گڑھ ہوئے اور بحسن وخوبی اہم ذمہ داری نبھالی۔ ۱۹۵۴ء میں ذاکر صاحب کوپدم وبھوشن کے اعزاز سے نوزا گیا،۱۹۵۶ء میںممبر پارلیمنٹ بنے ، ۹۵۷اء میں بہار کے گورنر بنائے گئے۔ پانچ سا ل اس عہدے پررہ کر آپ نے بہار کی کایاپلٹ دی۔ ۱۹۶۲ء میںملک کے دوسرے نائب صدر جمہوریہ منتخب کئے گئے ۔ ۹۶۳اء کو انہیںہندوستان کے سب سے بڑے اعزازبھارت رتن سے نوازا گیا ۔ ان کی غیر معمولی فرض شناسی ، حُسن کارکردگی اور مقبولیت اور کانگریس کی تائیدوحمایت سے ۹؍مئی ۱۹۶۷ء کو صدر جمہوریہ منتخب ہوئے ۔ ۱۳؍ مئی ۱۹۶۷ء کو انہوں نے صدارتی ذمہ داریاںسنبھالیں۔اس عہدئہ جلیلہ کی عظمت کو چار چاند لگانے کے لیے وہ ہمہ وقت مصروف عمل رہے۔آخرکاریہ عظیم ہستی اس دارِ فانی سے۳ مئی ۱۹۶۹ء کو۱۱؍بج کر۵منٹ پر ملک عدم کوچ کرگئے۔آپ کے انتقال پر ملک اور بیرونِ ملک صفِ ماتم بچھ گئی اورپورے قومی و سرکاری اعزاز کے ساتھ۵ ؍مئی ۱۹۶۹ء کوآپ کا جسد خاکی اسی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سپر د خاک کر دیا گیا جس کی آبیاری کے لیے ذاکر صاحب برسوں کوشاں رہے۔
رابطہ :صدر مدرس محسن احمد اردو پرائمری وہائی اسکول بشیر کالونی روشن گیٹ اورنگ آباد