سرینگر// جذباتی روابط میں فقدان نے ’’ عام چڑیا’’ کو نابود کیا ہے جبکہ سماجی و ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بے ترتیب اور گنجان شہر کاری نے ان پرندوں کو اپنی فطری پناہ گاہوں سے دور کر دیا ہے۔ دنیا بھر میں20مارچ کو’’ عام چڑیا کے عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے،تاہم دنیا کے بیشتر حصوں بالخصوص شہری آبادی والے علاقوں میں یہ عام پرندہ اب زیادہ نظروں سے نہیں گزرتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید دور کے ساتھ ہی جہاں شہری بستیوں کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے وہیں ان پرندوں کی قدرتی پناہ گاہیں بھی سکڑ رہی ہیں۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں لوگوں کی عدیم الفرصتی اور جدید دور کے آسائشی و آریشی سامانوں نے بھی اس عام چڑیا کو انسانوں سے دور کیاکردیاہے جبکہ بچوں سے لیکر بڑوںتک سبھی فطری تفریح کے اس سامان کو فراموش کر کے عارضی تفریح کے ذرائع سے اپنا دل بہلا تے ہیں۔ ماہر سماجیات ڈاکٹر ہلال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی میں کچھ دہا ئی قبل جگہ جگہ چھوٹے بچوں کو ان گھریلو چڑیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا، اب بالکل نظر نہیں آتا کیونکہ اب دور جدید میں نہ والدین کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان پرندوں کے ساتھ کھیلنے کی ترغیب دیں اور نہ ہی اس میں دلچسپی ہیں،بلکہ بچوں کو الیکٹرانک کھلونے اور تفریحی کا سامان بہم رکھ والدین خود کو بری الازمہ قرار دیتے ہیں۔ڈاکٹر ہلال کے مطابق کمپیوٹر کھیلوں اور موبائل گیموں سے بھی اب چھوٹے بچوں کا دل بہلایا جاتا ہے،تاہم ہمارے بچپن میں ہمارے والدین’’ وچھہ ژئر،ژئرکیاہ کران، ژر آئی‘‘ جیسے جملے کہہ کر ان پرندوں کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ پرانے وقتوں میں چڑیوں کی چہچاہٹ کو آمد صبح سے تعبیر کیا جاتا تھا ،جب چاروں اور ان کے چہچہانے کی آوازیں رات کے سناٹے کا سینہ چیر دیتی تھیں ۔ حیوانیات’زالوجی‘ میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ایک طالب علم شبیر احمد نے بتایا کہ جب وہ نمازفجر کے بعد دریائے جہلم کے کنارے صبح کی سیر کو نکلتے تھے،تو چڑیوں کی میٹھی بولی اور چہچاہٹ میں الگ ہی سرور آتا تھا۔انہوں نے کہا کہ کئی برسوں سے اب چڑیوں کی عدم موجودگی میں دل کو مخمور کرنے والی چڑیوں کی بولی کیلئے انکے کان ترس رہے ہیں۔ کئی ایک ماہرین نے اس گھریلو پرندے کے نابود ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ظاہر کی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ پہلے لوگوں کے جذبات اس پرندے سے جڑے تھے،جبکہ ان پرندوں کو آسانی سے غذا بھی میسر رہتا تھا تاہم وہ اب نہیں ہو پا رہا ہے۔ سرینگر کے ایک بزرگ شہری عبدلسلام نے بتایا کئی دہائیاں قبل عام طور پر سرینگر سمیت وادی کے دیگر علاقوں اور قصبہ جات میں شالی کو سوکھنے کیلئے گھرں کے باہر پھیلایا جاتا تھا،اور اس سے چڑیوں کو آسانی کے ساتھ غذا میسر رہتا تھا ،تاہم اس کا سلسلہ اب بند ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دریاکناروں پر گھاس کے جھنڈوں میں یہ چڑیا اپنا بسیرا بناتی تھیں،تاہم اس گھاس پھوس کو اب صاف کیا گیا اور اس کی جگہ کوڑے کرکٹ نہ لی ہے،اور چڑیوں کی پناگاہیں بھی ختم ہوئی۔ وادی میں گھریلو چڑیا کے ساتھ کئی قصے جڑے ہوئے ہیں،اور صبح انہیں دانا کھلانا لوگوں عادت میں شامل تھابلکہ لوگ اس کو عبادت کا حصہ مانتے تھے ۔بڑے بزرگ اپنے صحن اور مکانوں کی چھتوں پر صبح اٹھتے ہی پرندوں کیلئے چاول کے دانے اور دیگر چیزیں ڈالتے تھے اور جانوروں کیلئے یہ دن بھر کی غذا بن جاتی تھی تاہم آہستہ آہستہ اس روایت نے بھی دم توڑ دیا۔سماجی امور کے ایک اور ماہر فرمان علی نے چڑیا کو امن سے جوڑتے ہوئے بتایا کہ چڑیا بیشتر پرامن جگہوں پر اپنا بسیرا بناتی ہے اور یہ دیکھنے میں ملا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں شورش ہے وہاں آہستہ آہستہ چڑیوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں27برسوں سے کشت و خون جاری ہے،اور اسی وجہ سے اب وادی میں چڑیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے تعمیری ڈھانچوںمیں چڑیوں کو اپنے لئے پناہ گاہیں تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے جبکہ پرانے فن تعمیر میں چڑیاں اپنے لئے بہ آسانی بسیرا ڈھونڈلیتی تھیں۔ صحافی معراج الدین مسکین کے مطابق کشمیر کے تہذیب میں چڑیا اس قدر شامل تھی کہ مسلمانوں کے علاوہ پنڈت برداری بھی اپنی بچیوں اور لڑکیوں کے نام ’چڑیا‘ رکھتے تھے۔ ریاست میں گھروں کے علاوہ اسکولوں اور مدرسوں میں بچوں کو شاعرانہ اندز میں چڑیوں سے متعلق نظمیں پڑئی جاتی تھیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ شہر میں جب سے موبائل ٹاوروں کی بھر مار دیکھنے کو ملی تب سے چڑیوں کی تعداد میں کمی آئی۔ دہلی نشین’’ نیچر فار آور سوسائٹی آف انڈیا‘‘ غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ محمد دلاور کا کہنا ہے کہ2010میں انہوں نے ’’چڑیوں کا عالمی دن‘‘ منانے کا سلسلہ شروع کیا اور فی الوقت20مارچ کو دنیا بھر میں50سے زائد ممالک میں یہ دن اس روز منایا جاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انسانی طرز زندگی میں تبدیلی اور ٹیکنالوجی کی بھر مار نے چڑیوں کو نابود کیا۔