محمد یاسین کچلو
میں نے بڑے چاو سے ایک چیل کروکس نامی کمپنی کی حیدرآباد میں خریدی تھی۔ چپل چونکہ بہت مہنگی تھی ،اس لئے میں اُسے بہت احتیاط سے استعمال کرتا تھا اور گھر اپنی اس خوبصورت سی چپل کو چھپاتا پھرتا تھا تاکہ کوئی اِسے چوری نہ کرسکے، بلکہ اس چپل کو میں نے کسی کو گھر میں بھی پہننے کی اجازت نہیں دی تھی۔
ایک دن مجھے کہیں جانا تھا تو میں چپل کو اپنی جگہ سے لینے گیا تو چپل کو وہاں سے غائب پایا۔ تمام گھر میں ڈھونڈا، مگر چپل ندارد۔ مختلف قِسم کے شکوک و شبہات دل میں پیدا ہونے لگے۔ شک کی سوئیاں مختلف اطراف اور مختلف لوگوں پر جانے لگیں۔ چوری کرنے والے کو دل ہی دل میں بد دعائیں تو دینے لگا مگر چپل تھی کہ جس کی یاد دل سے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ چور کا تو صرف ایک گناہ تھا کہ اس نے چوری کی تھی مگر میں شک اور بدگمانی کے ان گنت گناہوں میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا۔ دس پندرہ دن گزر گئے تو میں نے آہستہ آہستہ اب چپل کی امید ہی چھوڑ دی۔ایک دن میں جمعے کی نماز کے لئے مسجد گیا ہوا تھا تو وہاں باہر صحن میں مجھے اُسی شکل و صورت اور اسی ماڈل کی چپل دکھائی دی۔ دل تو گواہی دے رہا تھا کہ یہ وہی چپل ہے مگر پھر سوچا کہ ایسی چپلیں تو اور بھی لوگوں نے خریدی ہونگی، دنیا میں صرف میں نے ہی تو ویسی چپل نہیں خریدی ہوگی۔ مگر از راہ اشتیاق میں تھوڑی دیر رُکا اور سوچا کہ دیکھ ہی لوں کہ آخر یہ چپل کس کی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک باریش بزرگ شخص تشریف لائے اور چپل پہننی شروع کی۔ میں بھی نہایت ہی مؤدبانہ انداز میں ان کے پاس گیا اور نہایت شائستہ انداز میں ان سے عرض کی کہ میرے پاس بھی ایسی ہی ایک چپل تھی مگر کچھ عرصہ پہلے وہ کہیں کھو گئی اور پھر سارا ماجرا ان کو سنا دیا۔ وہ بزرگ نہایت اطمینان اور تبسم بھرے انداز میں میرا قصّہ سنتے رہے اور مابعد بولے کہ کچھ ہفتے پہلے جمعے کی نماز پر میری چپل یہاں کسی نے چرا لی یا کوئی غلطی سے اٹھا کر لے گیا۔ جب مسجد کے اندر سے تمام نمازی چلے گئے توامام صاحب نے باقی بچنے والی آخری چپل مجھے یہ کہہ کر تھما دی کہ شاید اسی چپل کے مالک نے غلطی سے آپ کی چپل پہن لی ہو۔ بزرگ مزید بولے کہ میں اس چپل کو بار بار اسی لئے پہن کر مسجد میں آیا کرتا تھا کہ شاید اس کا کوئی مالک نکل آئے اور میں امانت ان کے حوالے کر دوں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے چپل اتار کر میرے حوالے کر دی اور بدلے میں کوئی چپل لینے سے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر مجھے اپنی گمشدہ چپل کبھی ملی تو میں اُسے ہی لوں گا ورنہ میں کسی اور کی چپل بھلا کیسے لے سکتا ہوں مگر میرے بار بار اصرار اور یہ بتانے پر کہ نقصان تو آپ کا ہوا اور آپ کی وجہ سے ہی مجھے میری چپل واپس ملی ہے، وہ مجھ سے پانچ سو روپے لینے پر راضی ہوئے۔
مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ شاید گھر کا کوئی فرد ہی کبھی اسے پہن کر مسجد میں آیا ہوگا اور جانے انجانے میں کسی اور کی چپل پہن کر گھر واپس آیا ہوگا اور میں یوں ہی طرح طرح کے شکوک و شبہات اور بدگمانیوں میں مبتلا ہو کر نہ جانے کتنے لوگوں کو چپل کی چوری میں ملوث سمجھ بیٹھا تھا جب کہ یہ درحقیقت چوری کا سرے سے کوئی مسلہ ہی نہیں تھا اور میں اپنی اس سوچ پر دل ہی دل میں آج تک شرمندگی محسوس کر رہا ہوں۔
رابطہ۔9419213025