تاریخ کے اوراق پلٹ کر حقیقت کی آنکھ سے اگر دیکھا جاے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح اعیاں ہے کہ جب بھی قوم مسلم کو شکست اور ناکامی کا منہ دیکھناپڑا اُس کی واحد وجہ دین متین کے کسی رکن میں کوتاہی کی وجہ ہوئی ہے – ورنہ جب بھی مسلمانوں نے اسلام کے دائیرہ میں رہ کر دین متین کی پاسداری اور عمل آوری کتے ہوے مدد خداوندی طلب کی ،یا دل میں اس کی سچی خواہش کی کامیابی ان کا مقدر بنتی رہی ہے – یہی وجہ ہے کہ دین اسلام تلوار سے نہیں پیار سے پھیلا ہے اور جتنے بھی معرکے اور جنگیں ہوئی ہیں ان کی کامیابی صرف اور صرف شریعت محمدیؐ کی صحیح معنوں میں اتباع اور توکل علی اللہ ہی کامیابی کی واحد وجہ بنی ہے جن کی بے شمار مثالیں کُتب حدیث اور کُتب تاریخ میں موجود ہیں – اس کے حوالے سے ہم بلا جھجک یہ بات تسلیم کرسکتے ہیں کہ کامیابی صرف دین کے ساتھ وابستگی اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونا ہی سرخروئی ہے ، ورنہ پسپائی یقینی بات ہے ، صحابہ کرام ؓنے آپ علیہ السلام کے دور مبارک میں جو شریعت محمدیہؐ کا بنیادی دور ہے ، باجود قلیل جماعت اور بغیر سازو سامان ہونے کے ہزاروں مخالفین کو شکست سے دوچار کیاجس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی مکمل اتباع کو اپنا مقصد زندگی بنالیا تھا – چاہے کتنی ہی پریشانی مصیبت، تنگدستی، بھوک پیاس اور دشمنوں کی اذیتیں برداشت کیوں نہ کرنا پڑ یں مگر دین متین کے برخلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے – صحابہؓ کو کامیابی ملی اتباعِ رسولؐ سے، ہم آج برباد ہوے ہیں اتباعِ نفس سے ۔صحابہؓ کو کامیابی ملی قران پاک پر عمل سے ،ہم خوار ہوے تارک قران ہوکر ،صحابہ ؓکامیاب ہوے مسجدوں کو آباد کرکے، ہم برباد ہوے مسجدیں ویران کرکے، صحابہ ؓ کامیاب ہوئے دین اسلام سے، ہم ناکام ہوئے دین اسلام سے منہ موڑ کر، صحابہ ؓکو مرتبہ ملا دامن رسول سے چمٹ کر رہنے سے، ہم برباد ہورہے ہیں دامن رسول صل اللہ علیہ وسلم سے خود کوچھڑا کر۔ غرض آج بھی دنیا بھر کے مسلمان کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان و احکام میں سوفی صد کامیابی ہی کامیابی ہے اور ان کے احکام سے ہٹ کر سو فی صد ناکامی ہی ناکامی ہے ۔ صحابہؓ نے دین کو سمجھا کامیاب ہوئے، ائمہ نے دین کو سمجھا کامیاب ہوے، تبع تابعین ؒنے دین کو سمجھا کامیاب ہوئے ،اولیاء کرام ؒنے دین کو سمجھا کامیاب، ہوےصوفیہ کرام علماء کرام دین کے داعیوں شیدائیوں نے دین کو سمجھا تو کامیاب ہوے ، ملکوں پر حکومتیں کیں ، بادشاہوں کو دین کی دعوتیں دیتے رہے ، ان کی حکومتیں ان کا اقتدار ان کو دین کی اشاعت و تبلیغ سے بالکل غافل نہ کر سکا – وہ اللہ تعالی کے ہوگئے تو اللہ رب العزت نے انہیں دنیا کی بادشاہت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہمیش کی اُخروی کامیانی نصیب فرمائی – یہی وجہ ہے کہ آج دنیا ان کی حکومتوں کی اُن سابقون الاولون کے حسنِ اخلاق کی ان کی رعایاکے ساتھ نیک برتاؤ کی مثالیں پیش کرتی ہے لیکن اس دور میں ہم دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کا ہر محاذ پر ناکام نظر آرہے ہیںاور جب تک مسلمان دین سے دوری اختیار کیے رہیں گے تو قیامت کی صبح تک کامیابی مقدر نہیں بنے گی ،چاہے لاکھ کوششیں کر تے جائیں ، جب شریعت محمدیہ ؐکے دائرہ میں ہم واپس آجائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسلام کو ماننے والوں پر اپنا دبدبہ قائیم کر سکے اور اپنے زیر تسلط کر کے جس طرح چاہے اس کا استحصال کرے ۔جیسا کہ آج کے دور میں ہمارےمشاہدات میں آرہا ہے – آج احکام شریعت سے ہٹ کر ہم اپنی ذاتی رائے اور من مرضی سے کامیابی کے خواب دیکھ رہیں ، ایسا مشکل ہی نہیں بلکہ بہر صورت ناممکن بھی ہے – آج دنیا بھر میں جو ں جوں مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور انہیں کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوششیں بین الاقوامی سطح پر کی جارہی ہیں ، توں توںمسلمان ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے بے اصل اور فروعی مسائل کو لے کر آپس میں اُلجھے ہوئے ہیں ، جسے اس وقت قوم مسلم کے لئے سب بڑی حقیقی ناکامی کہا جاے تو بےجا نہ ہوگا – دوسری قومیں اپسی اتحاد و اتفاق کی بدولت دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اقتصادی معاشرتی سماجی اور ترقیاتی طور کھوکھلا کرنے پر کمر بستہ ہو چکی ہیں ،یہاں تک کہ قوم مسلم کو ہر طرف سے شکنجہ میں پھنساکر رکھا گیا ہے ، اس وقت وہ قومیں جو کل تک وجود میں نہیں تھیں ، وہیں قومیں آج مسلمانوں کے ہر کام میں رہبر و رہنماء اور حاکم بن بیٹھی ہیں – مسلمان ان کی رضا مندی اور جی حضوری کی خاطر دن رات اپنی ساری صلاحتوں کے ساتھ ساتھ بے جا مال و دولت کا تصرف بھی کئے جارہے ہیں -فیشن بے حیائی فحش گوئی ناچ گانے ڈھول باجے تاشے جوا شراب نوشی عزت و ناموس سے بے رغبتی ادب و احترام کا فقدان غرض ہر قسم کی بُری لت اس وقت بدقسمتی سے مسلمانوں میں عام ہوچکی ہے ، اس کے ساتھ ساتھ قوم مسلم کہیں مسلک کے نام پر ایک دوسرے کے درپے آزار ہیں تو کہیں ذات پات کی منافرت سرچڑھ کے بول رہی ہے، کہیں جھوٹی شان و شوکت میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں مدہوش تو کہیں دنیا کامال و دولت سمیٹنا مقصدِ زندگی بنا لیا گیا ہے ، نہ حلال کی پرواہ نہ حرام کا خوف، نہ دین اسلام کی حدود کا کوئی پاس و لحاظ ،نہ احکام خدا و رسولؐ کی کوئی فکر ہے -جاہ و حشم کی چاہ میں سارے رشتے بھول کر طلبِ دنیا پر فریفتہ ہو چکے ہیں – یہی نہیں بلکہ اس وقت ہزاروں قسم کے مہلک امراض نے مسلمانوں کے اندر جنم لیا ہواہے – ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان بیماریوں کاعلاج ہم اپنے دین اسلام کی روشنی میں تلاش کرتے – اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرتے لیکن ان کو چھوڑ کر ان بیماریوں کی تشخیص کے طریقے بھی ہم غیروں سے حاصل کرنے کی کوشش کررہےہیں جو سراسر مسلمانوں کے لئے بد نصیبی اور ناکامی ہے -صحابہؓ کو بھی مشکلیں پیش آئیں تو اللہ سے رجوع کیا ،اولیاء کرام ؒنے مشکلات میں اللہ پاک کی مدد طلب کی، ہر تنگی و پریشانی کے وقت اللہ کو پکارا تو ان کے سب مصائب اور غم نصرت خدا وندی سے دور ہوئے، فلاح و کامیابی اور غلبہ ان کا مقدر بنا – اللہ نے ابرہہ سے خانہ کعبہ کی حفاظت اپنے چھوٹے پرندوں سے کروائی ،اس لئے کہ اللہ پاک کا گھر ہے اور وہ سب کچھ کر نے پر قادر مطلق ہے- نبی آخرِ زماں صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے گھیراؤ سے بحفاظت بچا لیا، اس لئے کہ اللہ پاک پر بھروسہ تھا – معرکہ بد رو حنین کربلاء میں صحابہؓ نے بڑی طاقتوں کو دنیا سے نیست و نابود کیا کہ آج ابوجہل اور ابو لہب کا کوئی نام لینے والا موجود نہیں اور اسلام کے متوالوں کو تا قیامت یاد کیا جاتا رہے گا ۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہم غیروں کے سامنے سرجھکانے میں اپنی بھلائی سمجھ لیتے ہیں اور وہ وہ اپنے سروں کو اللہ کے حضور جھکانے میں کامیابی سمجھتے تھے- ہم غیروں سے مدد مانگنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے ہیں ، وہ اللہ سے مدد مانگنے میں اپنی خیریت اورعافیت تصور کرتے تھے – آج مسجدیں نمازیوں سے خالی ہیں اور مسلمان مرداورخواتین بازاروں کے زینت بنی ہوئی ہیں – ایک طرف اذان ہورہی ہے ، دوسری جانب مسلمان گیت باجے اور کھیل تماشوں میں لگے ہوئے ہیں – خدا کے خزانے تقسیم ہونے کے اڈے مسجدیں ہیں، وہ نمازیوں سے خالی !!!للہ کا حکم ہے نماز اور صبر سے میری مدد حاصل کر ولیکن ہم نمازوں سے غافل بلکہ نمازیوں کی طعنہ زنی کرتے ہیں – اخلاق وکردار دن بدن گرتےجارہے ہیں – آج بھی اگر مسلم اپنے آپ کو کامیابی کی دہلیز پر لانا چاہتے ہیں تو خلوص واستقامت سے احکام خداوندی کو محبوب دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اور نورانی طریقوں پر پورا کریں ۔ علمائے کرام اس ضمن میںاپنی ذمہ اریوں کا احساس کرتے ہوے بنیادی مسائل قران و حدیث کی روشنی میں منبر و محراب سےعوام کو گوش وگزار کریں- محبت، اخوت، خوف خدا، احکام خدا، اطاعت رسولؐ ، محبت رسولؐ ، اخلاق رسولؐ ، اتحاد اتفاق کی تبلیغ اور تشہیر عام کریں – اختلافی فروعی مسائل کو عوامی اجتماعات میں بیان کرنےسے پرہیز کیا جاے – اگر ضرورت محسوس ہوتو اپنے طور مل بیٹھ کر ایسے مسائل کا محبت بھرے انداز میں حل کریں – چونکہ اللہ کے ہاں مقرب وہی ہوگا جو تقویٰ اور پرہیز گاری میں بڑھا ہوا ہوگا ، نہ کہ کسی مسلک فرقہ یا ذات کو فقط اپنانے سے ہی انسان جنت کا مستحق بن جاتا ہے – مسلمان کو اپنے اصلی رنگ میں اپنے کو رنگتے ہوے اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کی آخری شریعت پر قول و فعل سے عمل کی ضرورت ہے – حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت ہے -اپنے معاشرے اور سماج میں حسن اخلاق کردار معاملات محبت اخوت رواداری کو اپنا کر زندگی گزارنے کی ضرورت ہے – اختلافات منافرت منافقت نفس پرستی قوم پرستی چغلخوری رشوت خوری شراب نوشی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی تاش جوا آبروریزی عصمت دری تکبّر اور غرور وغیر سے خود کو اور اپنے مسلم معاشرہ کو پاک کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے لئے علم دین اور عمل دین کی اشد ضرورت ہے۔ اہل علم طبقہ کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کی ترقی اور کامیابی کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوے قوانین واحکامات پر عمل آوری کے لئے کمر بستہ ہوں اور اپنی قوم کی باگ ڈور اپنےعلم وفضل کے ہاتھوں میں تھام کر قوم وملت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنا رول ادا کریں ۔
9858641906 – 8492048926
mrayaz227@gmail. com