یو این آئی
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے ایک ’تاریخی فیصلے‘میں کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی حرکات اور ان سے متعلق توہین آمیز مواد کو رکھنا یا دیکھنا بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ کی خلاف ورزی ہے۔ پوکسو ایکٹ کے علاوہ اسے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت بھی جرم تصور کیا جائے گا۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس جے بی پارڈی والا اور منوج مشرا کی بنچ نے این جی او ‘جسٹ رائٹ فار چلڈرن الائنس کی اپیل اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن کی مداخلت پر معاملے میں مدراس ہائی کورٹ کے فیصلے کو پلٹ دیا اور نئی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔بنچ نے اپنے فیصلے میں مرکزی حکومت کو ‘چائلڈ پورنوگرافی کے لفظ کو ترمیم شدہ اصطلاحات – ‘بچوں کا جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مواد سے تبدیل کرنے کے لیے ضروری طریقہ کار اپنانے کی ہدایت دی ہے۔بنچ نے کہا’پارلیمنٹ کو پوکسو قانون میں ترمیم لانے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ‘چائلڈ پورنوگرافی’ کی اصطلاح کو ‘بچوں کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مواد’ سے تبدیل کیا جا سکے تاکہ اس طرح کے جرائم کی حقیقت کو زیادہ درست طریقے سے ظاہر کیا جا سکے۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ فی الحال حکومت اس ترمیم کیلئے آرڈیننس جاری کر سکتی ہے۔عدالت عظمیٰ نے ملک میں جنسی تعلیم کے پروگراموں کے وسیع پیمانے پر نفاذ کی تجویز بھی پیش کی ، جس میں نابالغوں کے ساتھ جنسی تعلق کی تصویر کشی کے قانونی اور اخلاقی نتائج کے بارے میں معلومات بھی شامل ہونی چاہئے۔بنچ کو امید ہے کہ اس سے ممکنہ جرائم کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جنسی تعلیم
جیسے پروگراموں کو عام لوگوں میں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا چاہیے اور نوجوانوں کو جنسی رضامندی اور جنسی استحصال کے اثرات کے بارے میں واضح سمجھ فراہم کرنا چاہئے۔