سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور نہ ہی یہاں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل ہوتی ہیں۔سیاست میں ذاتی مفادات ہوتے ہیں جن کے مطا بق کبھی کبھی دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہیں اور کبھی کبھی دشمنیاں دوستی میں ڈھل جاتی ہیں۔اس کی ایکزندہ مثال ریاست جموں و کشمیر میں پی ڈی پی اور بھاچپا اتحاد ہے ۔ دونوں پارٹیوں نے انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے خلاف بول کر سادہ لوح عوام سے ووٹ حاصل کیا۔ پی ڈی پی نے ریاست کی خصوصی پوزیشن 370کے حق میں نعرۂ مستانہ بلند کر کے ایک ایسی ہوا بنا دی کہ لوگ ووٹ دینے کیلئے مجبور ہوگئے ، یہاں لوگوں کا پی ڈی پی کو ووٹ دینا اس لئے مجبوری بن گیا تھا کیونکہ صوبہ کشمیر کے تقریباً تمام لوگوں کی یہی تمنا تھی کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی بھی قسم کا کھلواڑ نہ کیا جائے۔ وہیں صوبہ جموں کے صرف ڈھائی اضلاع کے رہنے والے لوگ370کے خلاف تھے ۔ انہی ڈھائی اضلاع کے عوام کی خواہش کے مطابق بی جے پی نے +44مشن کے نام سے 370کو مستقل طور ختم کرنے کی مہم چلا کر عوام سے ووٹ حاصل کیا۔دونوں ہی پارٹیاں اس سیاسی بازی گرانہ کھیل میں کسی حد تک کامیاب ہوئیں۔
حیران کن بات ہے کہ دو مختلف ہی نہیں بلکہ دو متضاد قوتیں جنہوں نے انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے خلاف ہلا بول کر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو اپنے اپنے شیشے میں اتارکر ووٹ حاصل کیا اور بعد از انتخابات سرکار بنانے کیلئے’’ سوچ وچار‘‘ کا ایک بہت بڑا اچھوتا ڈرامہ بھی رچا یا۔ سب سے زیادہ نشستوں پرکامیابی حاصل کر نے والی پی ڈی پی نے کسی بھی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کیا، نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مفت حمایت کو بھی بے دردی سے نکارا ۔ اپنے علاقائی تشخص، نعروں اور وعدوں کوپی ڈی پی نے بشمول عوامی خواہشات بالائے طاق رکھ کر کرسی کے مزے کو ترجیح دیتے ہوئے اُسی جماعت کے ساتھہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف انتخابی مہم میںخوب اچھل کود کر کے عوام سے ووٹ حاصل کیا تھا ۔ اہل کشمیر سے کہا تھا کہ اگر ہمیں ووٹ نہ دیا تو جن سنگھ دروازے پر کھڑی ہے۔یہاں سے حقیر مفادا ت کی اس سیاست کا راز صاف طور سے افشاء ہو جا تا ہے کہ حقیقی معنوں میں پی ڈی پی کا بھاجپا کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنا سیاسی نکاح نہ کرنا عوام کو بیوقوف بنانے تک محدود تھا کیونکہ اتحاد تو جان کاروں کے مطابق در پردہ طور انتخابات سے قبل ہی ہو چکا تھا۔
بظاہر تو انتخابات کے زمانے میں دونوں پارٹیوں کی زبردست دشمنی اور رقابت تھی لیکن دوستی کا راز ’’ایجنڈا آف الائنس ‘‘کے تحت اتحادکی صورت میں سامنے آیااور پھر دونوں پارٹیوں کی طرف سے یہ طے پایا گیا کہ ریاست کی خصوصی پوزیشن یعنی 370پر کسی بھی قسم کی بات نہیں ہوگی لیکن ریاست حکومت کے تین برس بیت جانے کے باجود ریاست تعمیر و ترقی طور مفلس تو دکھائی دے ہی رہی ہے ، بغیر اس حساس مسئلے کو اُچھالنے اور چھیڑنے اور اس پر بیان بازیاں کرنے کے، ان دو جماعتوںکے لیڈران کی کار کردگی اورہے بھی کیا؟یہاں تک کہ بھاچپا کے سپوت ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کاریاست کی خصوصی پوزیشن 370کی منسوخی پر دوٹوک الفاظ میں کچھ بھی کہہ دینا اور پھر پی ڈی پی قیادت کا اس بیان کے احترام میں چپ کاروز ہ رکھنا دوغلی سیاست نہیں تو اور کیا ہے ؟ قوم کے ساتھ کھلواڑ نہیں اور کیا ہے؟یہاں یہ حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے کہ ’’ایجنڈا آف الائنس‘‘ تو مفتی سعید کے ساتھ ہی درگور ہوا تھا ۔ریاست کی خاتون وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے سیاسی خیالات ونظریات میں تضاد ہونا ان کے لئے ا چھا ہو نہ ہو مگر ریاست کے لئے مجموعی طور کوئی اچھی بات نہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ سیاست میں دوستی مستقل نہیں ہوتی بلکہ مفادات دائمی ہوتے ہیں اور اس میں دونوں پارٹیوں کے لیڈران سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کو اپنے نجی مفادات ریاستی مفادات سے عزیز ترکیوں ہیں۔اس وقت دونوں پارٹیوں کے لیڈران قریبی ا تحا دی ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ کسی زمانے میں یہی حال نیشنل کانفرنس اور کانگریسیوں کے چوہدریوں کا بھی تھا۔وہ ایک دوسرے کے خلاف زبردستی دشمنی رکھتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انھیں اقتدار ی مفادات کی خاطر ایک ہی حکومت کا حصہ بن کر ایک ہی گھاٹ کرسی کا پانی پینا پڑا۔ پی ڈی پی ریاست جموں و کشمیر میں کانگریس کے کوکھ سے جنمی اور بھاجپاکی پالی وہ نوزائیدہ جماعت تھی جس نے ماضی میں بھاچپا کو فرقہ پرست ، مسلم دشمن اور نہ جانے کن کن خطابات سے نوازا تھا لیکن مفادات دوستی کا پل بن گئے تو کل کے زبانی کلامی دشمن آج کے دوست ہوئے ۔انتخابات کے دوران مفتی محمد سعید نے جس پارٹی کو ریاست کے خرمن امن میں آگ لگانے کا سب سے زیادہ ملزم ٹھہرایا تھا اُن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا نام سر فہرست تھا لیکن اقتدار کی مجبوریاں ملاحظہ کیجئے کہ اسی لیڈر نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہاتھ ملا کر حکومت میں چیف منسٹر کا عہدہ پا یااور اپنی کرسی کو محافظت کو اپنی اولین ترجیح بنایا دیا۔اب اس وقت اس کرسی پر اُن کی صاحبزادی اتحادی چٹنی کے مزے لے رہی ہیں۔مفاداتی سیاست میں اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ دلی کے چوہدریوں کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ یہ دونوں اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ضرور چلتی دِ کھ رہی ہیں لیکن ان میں تعاون اور یک جہتی کا پہیہ صرف مفاد ات کے گرد گھومتا ہے ۔ باقی حساس معاملات پر دونوں پارٹیاں اپنی اپنی راہوں پر گامزن ہیں ۔بس کبھی کبھار اپنی سیاسی بساط کو برقرار رکھنے کیلئے اور اپنے اُن ووٹران کا دل لبھانے کے لئے بھاجپا کا کوئی لیڈر ریاست کی خصوصی پوزیشن 370کے خلاف اپنا بیان داغ دیتا ہے اور پی ڈی پی کا کوئی لیڈر حق لب کشائی کر کے اپنا فرض پوراکر لیتا ہے ۔گوکہ دونوں پارٹیوں کا اقتدار کی خاطر چوہے بلی والا یہ انو کھاکھیل ابھی چل رہا ہے لیکن زمینی سطح پر تماشہ بین عوام پوری طرح سے یہ جان چکے ہیں کہ یہ کھیل صرف اقتدار کی کرسی کا چمتکار ہے ۔بھلے ہی دونوں پارٹیاں اس کھیل میں خود کو کامیاب کھلاڑی سمجھ بیٹھے ہیں لیکن نئے حالات میںیہ کھیل بالکل اُلٹ جائے گا۔
بہرحال ریاستی عوام ابھی تک حیران و ششدر ہے کہ مفتی سعید کو آخر کیا ہوا تھا کہ انہوں نے قطبین کو ملانے کا اتنا بڑافیصلہ کر سی کے فراق میں کر ڈالا اوراپنے ووٹران کو تپتے صحرا میں تن تنہا چھوڑ کر ماضی ، حال اور مستقبل کے دشمن ، خاص کر ریاست کے فرقہ وارانہ بھائی چارے اور خرمن ِامن میں آگ لگا دینے والے سنگھ پریوار کو اپنا اتحادی اور ہمسفر وہمراز بنا لیا؟؟ اس سلسلے میں بہت سی کہانیاں سینوں میں محفوظ ہیں جو آہستہ آہستہ منظر عام پر آ کر ہی رہیں گی ۔ اس بارے میں کسی خفیہ ڈیل کے تصدیق طلب قصے بھی زبان زدہ خا ص و عام ہیں۔بس کچھ اور ماہ وسال انتظار کیجئے اور مفاداتی سیاست کے برے نتائج کو دیکھئے ۔ بے شک عوام الناس کے لئے دُکھ کی بات یہ ہے کہ ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں جو ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اُن کے سلب شدہ حقوق دلانے کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے کے دعوے کرتے نظر آرہی ہیں، وہ حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کے ازالے سے زیادہ حصول ِقتدار کی جنگ لڑتی نظر آرہی ہیں۔ ان جماعتوں کی خودغرضی ، سیاسی ناپختگی اور سیاسی بالغ نظری کے فقدان کے باعث ریاست میں ظلم و بربریت اور ناانصافی کا ماحول بر ابربنا ہوا ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ ملک میں یہ واحد ریاست ہے جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے، جہاں جو سیاسی پارٹی چاہے جھوٹے دعوئوں اور وعدوں کی نیلم پری دکھاکرسادہ لوح عوام سے ووٹ حاصل کرے، اقتدار میں آئے اور پھر اسی عوام کو کبھی افسپا، کبھی بلیٹ ، کبھی پلیٹ اور کبھی پاوا شل اور نہ جانے اورکیا کیا تحفے م دے کر ایک ایک کو موت کے گھاٹ اُتارے۔ ان سے کون پوچھنے والا ہے جب یہاں نہ قانون ہو نہ انصاف۔یہاں انصاف کے سا ہوکار بھی سیاسی چوہدریوں کے اشاروں پرناچتے ہیں ۔سینے میں درد ِدل رکھنے والے عام انسان کی حیثیت سے راقم الحروف اپنے سیاسی قائدین سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ اب بھی وقت ہے ریاست کے کشیدہ حالات کی سنگینی کا احساس کرکے اس کی نیا کرسی سے بالاتر ہوکر پارکیجئے۔ انا اور ضد سے اپنے ہی ہاتھوں سیاسی بحران کی پھیلتی ہوئی اس آگ کو، بے نفسی ، پیار، خلوص اور ایثار کے پانی سے بجھایئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور ناقابل اعتبار کرسی کے سحر میں گرفتار ہوکرپھر توبہ واصلاح کا وقت نہ پاؤ۔ سیاسی قائدین کے دربار میں یہ چند اشعار پیش ِخدمت ہیں ؎
پیچ در پیچ سوالات میں اُلجھے ہوئے ہیں
ہم عجب صورتِ حالات میں اُلجھے ہوئے ہیں
ختم ہونے کا نہیں معرکۂ عشق و ہوس
مسئلے سارے مفادات میں اُلجھے ہوئے ہیں
9797110175/ ،9103193805