سرینگر/ 2015ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے۱ قتدار سنبھالنے کے بعدپہلی بار پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈر اور ریاست کے وزیر سیاحت تصدق مفتی نے کہا ہے ’’کہ دونوں جماعتیں جرم کی شراکت دار بن گئی ہیں اور اس کی قیمت شائد کشمیریوں کی ایک پوری نسل کو اپنے خون سے چکانا پڑے گی۔‘‘ایک قومی اخبار کے ساتھ بات کرتے ہوئے تصدق مفتی نے یہ بات واضح کردی کہ یہ ان کی ذاتی رائے نہیں بلکہ پی ڈی پی کے اندر ابھرتا ہوا ایک خیال ہے۔اگرچہ تصدق مفتی پی ڈی پی کے ترجمان نہیں ہیں ، تاہم پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کے فرزند اور موجودہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے برادر ہونے کی بنا پر ان کی بات کو سنجید گی کے ساتھ لیا جا سکتا ہے۔تصدق مفتی نے کہا’’ اقتدار میں ہونے کے باوجود ہم پر بھروسہ نہیں کیا جارہا ہے‘‘۔ ’’ہمیں ریاست کی ترقی میں شراکت دار بننا تھا، تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ وعدوں کو پورا نہ کرکے ہم ایسے جرم کے شراکت دار بن گئے ہیں، جس کی قیمت شائد کشمیریوں کی ایک پوری نسل کو خون سے چکانا پڑے گی۔‘‘انہوں نے مرکز پرہٹ دھرمی چھوڑ نے اور مسئلے کا اعتراف کرنے، تناو کو کم کرنے ، مذاکراتی عمل کی بحالی اورایجنڈا آف الائنس میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے پر زور دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ بصورت دیگر پی ڈی پی کو لوگوں کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے ان سے معافی مانگنا پڑے گی۔تصدق مفتی نے کہا کہ جس طرح کٹھوعہ میں ایک مصوم بچی کی عصمت دری اور قتل ہوا ہے، اور جس طرح اس معاملے کو فرقہ واریت کا رنگ دیا گیا ہے، اس سے ہم سب کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا’’اگر مخلوط سیاست کا مطلب ناکامی اور رسوائی میں جینا ہے تو مجھے سر چھپانے کی جگہ ملنی چاہئے،‘‘پیلٹ بندوقوں سے متاثر ہونے والی بینائی اور مارے جانے والے ملی ٹینٹوں کی آخری رسومات میں لوگوں کی کثیر تعداد کی شرکت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ناراضگی کی سطح اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ جہاں سے یہ خون خرابہ اس حد تک پہنچ سکتا ہے ، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملے گی۔انہوں نے کہا کہ’’ لوگوں کے خلاف کوئی بھی جنگ نہیں جیتی جاسکتی اور ہمیں اس سے صرف نظر نہیں کرنا چاہئے۔حکومت اس بات کا انتظار نہیں کرسکتی کہ پہل کون کرے گا۔‘‘انہوں نے کہا کہ فوری طور سے سیاسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری مرکز کی ہے کہ وہ متعلقین کے ساتھ مذاکرات کے طور طریقے تلاش کرے۔تصدق مفتی نے کہا کہ پاکستا ن کے ساتھ مذاکرات اہمیت کے حا مل ہیں اور سیاسی عمل میں سُستی کچھ وقت تک ہمیں فائدہ دے سکتی ہے، لیکن دوررس سطح پر اس سے ہمیں کافی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔تصدق مفتی نے اپنے مرحوم والد مفتی محمد سعید کے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ جب 2015میں ایجنڈا آف الائنس مختلف نظریات رکھنے والی دو جماعتوں ، پی ڈی پی اور بی جے پی کو نزدیک لانے کیلئے انتہائی ہوشیاری سے تشکیل دیا گیا تو میں ان لوگوں میں شامل تھا، جنہوں نے اس غیر قدرتی اتحاد سے کناری کشی اختیار کی ۔انہوں نے کہاکہ اکثر لوگوں نے ایجنڈا آف الائنس کو حکمرانی کے ایجنڈے کے نقطہ نظر سے دیکھالیکن میں نے اسے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے فریم ورک کے ایک حصے کے طور پر دیکھا کیونکہ مسئلہ کشمیر ہی ہماری ریاست کو درپیش مسائل کی بنیادی جڑ ہے۔تصدق مفتی نے کہا کہ حکمرانی کا عمل بنیادی ڈھانچے میں فقط تفاوتوں کو دور کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے جانا بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ’’ ہمیں اس حکومت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، جس کے پاس بیت الخلا تعمیر کرنے ، ٹرانسفارمر نصب کرنے اور سڑکوں کی تجدید کیلئے کافی رقومات دستیاب ہیں۔مگر ہمارے پاس زخمیوں کی ہمدردی اور ناراضگی کو دور کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ مرکزی معاونت والی ایک ایسی سکیم کشمیر میں سود مند ثابت ہوسکتی تھی جس کی رو سے مستند سیاسی پہل شروع کی جاسکے ۔ تصدق مفتی نے ہلاکتوں میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم اس صورتحال میں کیا توقعات رکھ سکتے ہیں ، جب لوگوں کی ناراضگی کا جواب دینے کیلئے ہمارے پاس صرف گولیاں ہیں۔ہم ان مائوں سے اپنی نظریں کیسے چرا سکتے ہیں جنہیں اپنے نوجوان بیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ’’ میں اس حقیقت سے کافی مضطرب ہوں اور یہ صورتحال میرے دماغ پر مسلسل اثر انداز ہورہی ہے۔‘‘تصدق مفتی نے کہا کہ تشدد میں اضافے اور روز مرہ کی ہلاکتوں نے کشمیر کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کچھ وجوہات ہیں جن سے نوجوان تشدد میں ملوث ہورہے ہیں تو اُن وجوہات کو فوری طور سے دور کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم تمام پلوں کو منہدم کرکے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ عوام کو ریاست کی طاقت کے بل بوتے پر چلایا جاسکے۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ طلبااپنے غصے کا اظہار کرتے ہیںجو کہ قابل تشویش ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی طرف سے بندوق اٹھانے کو انتہا پسندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ہم خیالات کی جنگ میں نہیں الجھ سکتے ۔ اگر ہمیں بر صغیر میں امن کے قیام کی خواہش ہے توسیاسی طور غلط ثابت ہونے کے اندیشے کے باوجود میں مسئلہ کشمیر کو فوری طور حل کرنے کی وکالت کرتا ہوں ۔‘‘انہوں نے کہا’’زمینی سطح پر پیش آنے والے سانحے پر میں اس وجہ سے چپ نہیں رہ سکتا کہ میں سرکار کا حصہ ہوں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ’’انسانی زندگیاں دونوں اطراف سے قیمتی ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ’’ یہ حکومت لوگوں کیلئے بنی ہے اور موجودہ صورتحال کاحل نکالنے کیلئے مجھے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔‘‘ تصدق مفتی نے جموں و کشمیر کے وزیر سیاحت کی حیثیت سے اپنے رول کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت سیاحت کا ذکر نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وادی میں ماتمی ماحول نے فضا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تشدد کی وجہ سے وادی میں سیاحتی سیکٹر کو کافی دھچکہ لگا ہے اور یہ ایسی صنعت ہے ، جس کیلئے امن لازمی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی سیاح اپنی جان کو خطرے میں ڈال کرایسی جگہ سیر کرنے نہیںآئے گا جہاں وہ خوشی اور مسرتوں کا احساس بھی نہ کرسکے۔