سرینگر //معمولی برف باری نے محکمہ بجلی کے دعوئوںکی پول کھول کر رکھ دی ہے ، اکثر علاقوں میں بجلی کے کھمبے اور ترسیلی لائنیں زمین پر گر آئیں ہیںاور متعدد علاقے گھپ اندھیرے میں ڈوبے ہیں ۔ترسیلی لائنوں اور کھمبوں کو بدلنے کیلئے ریاستی سرکار نے اگرچہ گذشتہ سال ہر ایک اسمبلی حلقہ کیلئے وزیر اعظم ترقیاتی پیکیج کے تحت فی کس ایک کروڑکی رقم فراہم کی اور اس رقم کو متعلقہ ارکان اسمبلی کے تابع رکھا گیا تاکہ وہ علاقوں کی نشاندہی کریں اور اسی حساب سے ترسیلی لائنیں اور ٹرانسفارمر تبدیل کئے جائیں گے۔تاہم پیسہ خرچ کرنے کے باوجود بھی زمینی صورتحال جوں کی توں ہے اور اکثر علاقوں میں ابھی بھی ترسیلی لائنیں عارضی کھمبوں کے ساتھ بندھیں ہوئی ہیں ۔پچھلے تین روز سے وادی کے موسمی صورتحال اور معمولی برف باری سے بجلی کا نظام اکثر علاقوں میں درہم برہم ہے جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو شدید ترین مشکلات کا سامنا ہے ۔کپوارہ ، بانڈی پورہ ، گاندربل ، باہمولہ ،بڈگام ، شوپیاں ، پلوامہ ، اننت ناگ ، کولگام کے علاوہ دیگر بالائی علاقوں میں پچھلے دو روز سے بجلی کا نظام بد سے بتر ہو گیا ہے اور اکثر علاقے بجلی سپلائی سے محروم ہیں ۔معلوم رہے کہ بجلی کھمبوں اور ترسیلی لائینوں کو نصب کرنے کیلئے وادی کے 46اسمبلی حلقوں کیلئے سرکار نے 46کروڑ کی رقم فراہم کی تھی جبکہ مالی سال2016.17کے دوران ریاست کے 87اسمبلی حلقوں کو بھی اسی طرح رقوم دئے گئے لیکن اس رقم کا بھی زمینی سطح پر کچھ کام نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ ابھی بھی ایسے علاقے ہیں جہاں ترسیلی لائنیں کھمبوں کی جگہ عارضی پیڑوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں ۔محکمہ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ان رقومات کو اگرچہ محکمہ پی ڈی ڈی نے خود خرچ کیا ، تاہم اس کا پلان ممبران اسمبلی نے تیارکیا اور پھر من مرضی سے اس پیسے کو سیاسی اثرو رسوخ کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ جہاں بجلی کے نئے کھمبے تھے وہاں اُن کو اکھاڑکر اُن کی جگہ پھر نئے کھمبے نصب کئے گئے اور جن علاقوں میں ترسیلی لائنیں پیڑوں کے ساتھ بندھی ہوئی ہیں وہاں ایک بھی پیسہ خرچ نہیں کیا گیا۔محکمہ بجلی کی چیف انجینئر M&REکشمیر شہناز گونی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی بھر میں بجلی کے اڈھائی سو بجلی ٹرانسفارمر خراب ہوئے ہیں تاہم 33کے وی اور 12کے وی ترسیلی لائنوں کے علاوہ تمام علاقوں میں بجلی بحال کر دی گئی ہے ۔پرائم منسٹر ڈیولپمنٹ سکیم کے تحت فراہم کئے گئے رقومات کو خرچ کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس پیسے کو خرچ کیا گیا ہے تاہم ایک کروڑ کی رقم سے اسمبلی حلقوں میں بوسیدہ بجلی نظام کو مکمل طور پر نہیں بدلا جا سکتا ۔