محمد ہاشم القاسمی
ہم جہاں رہتے سہتے ہیں، بود و باش اختیار کرتے ہیں گاؤں، قصبہ، شہر کے ماحول اور معاشرے میں جس سے تعلق ہر وقت رہتا ہے ،وہ پڑوسی اور ہمسایہ ہے، اس لئے اس میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق مٹادیا گیا، صرف انسانی رشتہ کا لحاظ رکھا گیا ہے اور حق جوار یعنی پڑوسی کا حق کی بحسن و خوبی ادائیگی کیلئے مذہب اسلام میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔
ہر شخص کے لئے معاشرے کا پہلا فرد اس کا پڑوسی ہے جب ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کا ہر طرح خیال رکھے گا، اس کے رنج وغم کے موقع پر اس کا مداویٰ اور مشقت، تکلیف و پریشانی کے وقت نصرت وحمایت، اورامداد کے لیے کھڑا رہے گا تو خود بخود اطمینان وسکون کی فضاء قائم ہوگی اور دین کا مقصد اجتماعیت کی صورت میں نمودار ہوگا، اور امت کا ہر فرد اسلام کے سایہ تلے سکون کی زندگی گزارسکے گا، اسی وجہ سے اسلام نے پڑوسی کے حقوق اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی حد درجہ تاکید کی ہے۔ ہمسایہ ایک گھر کا ہو یا ایک ملک کا پڑوسی ہو، اس میں کوئی شک نہیں کہ اچھا پڑوسی ہزار نعمت ہوتا ہے، جس کو اچھا ہمسایہ مل جائے اُس کی زندگی میں دکھ نہیں آ سکتے اور اگر پڑوس اچھا نہ ہو تو پھر انسان کا اُٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا عذاب بن کر رہ جاتا ہے۔
حق ہمسائیگی (پڑوسی کا حق) کی پاسداری کا ثبوت فقہ اسلامی میں حق شفعہ ہے، جو ہمسایہ کو ہمسایہ کی جائیداد وغیر منقولہ اسباب پر شریعت اسلامی نے قائم کیا ہے۔ اس کی رو سے کسی جائیداد کی فروخت کے وقت ہمسایہ کو سب سے پہلے اس کی خریداری کا حق حاصل ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اﷲؐ نے فرمایا: ’’پڑوسیوں کو تکلیف دینے والا شخص جنّت میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پڑوسیوں کے اتنے حقوق ہیں تو خود اپنے گھر والوں کے کتنے حقوق ہوں گے۔ جب پڑوسیوں کو تکلیف دینا، ان کا دل دکھانا جائز نہیں تو خود اپنے گھر والوں سے بول چال چھوڑنا، مارنا پیٹنا اور غیر اخلاقی برتاؤ کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟علماء کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں پڑوسیوں کے چند حقوق ترتیب دیئے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
پڑوسیوں کا پہلا بنیادی حق یہ ہے کہ جب وہ آپ سے کوئی مدد مانگیں تو (اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر) ان کی مدد کریں۔ (۲) اگر (ضرورت کے پیش نظر) وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ یاد رکھیں کہ اگر پڑوسی ایسا ہو جو قرض لے کر واپس نہ کرتا ہو تو ایسے پڑوسی کو قرض دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر پڑوسی معاملات کا اچھا ہو تو قرض دیا جائے ورنہ قرض کے بہ جائے جہاں تک ہو سکے تعاون کر دیا جائے۔(۳) جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے (پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر) تو اس کے فقر و تنگ دستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔(۴) اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمار پُرسی کی جائے۔ اور اس موقع پر بھی کچھ پھل فروٹ وغیرہ ساتھ لے جایا جائے یا کچھ رقم اسے دی جائے لیکن اس دینے کو ضروری نہ سمجھا جائے ،ہاں اس کی ضرورت کو سمجھا جائے۔(۵) جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے (مثال کے طور پر،ان کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔(۶) جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے (مثال کے طور پر فوتگی ہو جائے، ان کے ہاں چوری ہو جائے، ایکسیڈنٹ ہو جائے یا گھر میں کسی چیز کا نقصان ہو جائے) تو ان کے ساتھ اظہار ہم دردی کرنا۔(۷) جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ ہاں اگر فوت ہونے والے پڑوسی کے عقائد غیر اسلامی ہوں تو جنازے میں شرکت سے اجتناب کیا جائے کیوں کہ جنازہ حکم شرعی ہے، رسم نہیں۔(۸) اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہَوا رک جائے۔ یا اس صورت میں ہے جب عام آبادیوں میں گھر بنایا جائے اگر کسی مجبوری کی وجہ سے رہائش یا دفاتر وغیرہ کے لیے پلازے بنانا ناگزیر ہوں تب بھی اخلاقی طور پر پڑوسی سے اس کی اجازت لی جائے اور پڑوسی کو بھی اخلاقی طور پر اجازت دے دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ بے پردگی کے پیش نظر پڑوسیوں کو اطلاع کیے بغیر اپنے گھر کی چھت پر چڑھنا جائز نہیں ہے۔ (۹) گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوش بُو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ یہ نہ ہو ایک گھر سے روزانہ قِسم ہا قِسم کے کھانوں کی خوش بُو مہکتی رہے اور ساتھ والا پڑوسی بھوکا رہے، ہاں اگر کھانا تیار کرنے کے بعد کچھ ان کو بھی اخلاقی طور پر بھیج دیا جائے، تب ٹھیک ہے۔(۱۰) اگر آپ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے یا آپ کے لیے ایسا کرنا فی الوقت ممکن نہیں تو پھر اپنے گھر میں پھل وغیرہ چُھپا کر لائیں تاکہ پڑوسی دیکھ کر دکھ بھری آہیں نہ بھریں اور اپنے بچوں کو پھل دے کر باہر نہ بھیجیں کیوں کہ اس کی وجہ سے پڑوسیوں اور ان کے بچوں کو رنج و ملال اور غربت کا احساس ہوگا۔
اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیں تو ہمارا معاشرہ جنّت کا نمونہ بن جائے۔اﷲ تعالیٰ ہمیں معاشرتی زندگی بسر کرنے کے لیے پڑوسیوں کی نعمت سے نوازےاوراپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
(رابطہ ۔9933598528 )
[email protected]>