سرینگر//سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ نے 1989-90کے دوران کشمیر ی پنڈتوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات سے متعلق ایک عرضداشت کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا ہے کہ27سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد اس بارے میں ثبوت و شواہد اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ’’رُوٹس آف کشمیر‘‘نامی کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم نے ایڈوکیٹ وکاس پڈورہ کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ وادی کشمیر میں1989اور1990کے دوران اسلحہ برداروں کے ہاتھوں کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات کے احکامات صادر کرے۔ایڈوکیٹ پڈورہ نے عدالت کو بتایا کہ اس عرصے میں جب ملی ٹینسی اپنے عروج پر تھی تو وادی میں700سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں کو وادی میں ان کے گھر بار چھوڑنے اور وادی چھوڑ کرجانے پر مجبور کردیا گیا جس کے نتیجے میں وہ ان ہلاکتوں کی تحقیقات میں بھی شامل نہیں ہوسکے۔وکیل موصوف کا کہنا تھا کہ ان ہلاکتوں کے سلسلے میںمختلف پولیس تھانوں میں مجموعی طور215ایف آئی آر درج ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کیس کو بھی اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ نہ ہی مرکزی سرکار، نہ ریاستی حکومت اور نہ ہی عدلیہ نے ان معاملات کا نوٹس لیا اور نہ ہی ان کے بارے میں ضروری کارروائی عمل میں لائی۔ عرضی دائر کرنے والی کشمیری پنڈتوں کی انجمن نے ان ہلاکتوں کے سلسلے میں کئی علیحدگی پسند لیڈران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا جو اُس وقت جنگجو کمانڈر تھے اور ان میں لبریشن فرنٹ چیرمین محمد یاسین ملک اور جے کے ایل ایف (آر) کے فاروق احمد ڈار(بٹہ کراٹے) کے نام عرضی میں درج تھے۔ تاہم عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ،جسٹس جے ایس کھیہار اور جسٹس ڈی وائی چندرچود پر مشتمل بنچ نے عرضی کی سماعت عمل میں لانے سے دوٹوک انکار کرتے ہوئے اسے خارج کردیا۔انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ 27سال کا طویل عرصے گزرنے کے بعد اب قتل،آتشزنی اور لوٹ مار کے ثبوت اکٹھا کرنا انتہائی مشکل ہوگاجس کے نتیجے میں وادی سے کشمیری پنڈتوں کی اجتماعی نقل مکانی کی صورتحال پیش آئی۔ڈویژن بنچ نے عرضی دہندگان کے وکیل سے مخاطب ہوکر کہا’’27سال تک آپ اس کے اوپر بیٹھے رہے، اب آپ ہمیں یہ بتایئے کہ ثبوت کہاں سے آئیں گے؟‘‘