پنجابی ادب اور افضل اَحسن رندھاوا کا باہمی رشتہ کچھ اس طرح سے جڑا ہواہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے کہ رندھاوا صاحب کے بغیر پنجابی ادب مکمل نہیں۔ ان کا جنم یکم ستمبر 1931 ء کو امرتسر میں ہوا اور وفات اس منگل 19 ستمبر 2017ء کی صبح کو پاکستانی پنجاب کے شہر فیصل آباد میں ہوئی۔ ان کی زیادہ تر مشہوری بطور پنجابی کے افسانہ نگار ہے لیکن انہوں نے شاہ کار ناول بھی لکھے ہیں۔ ان کے ایک ناول ’’مناں کوہ لاہور‘‘ پر پاکستان میں فلم بھی بنی جو بہت مقبول ہوئی ہے۔
ان کے اور دو ناول ’’رّن، تلوار اور گھوڑا‘‘ اور’’دوآبہ‘‘ بھی بہت مقبول ہوئے اور خاصے پڑھے گئے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے :دیوا تے دریا، سورج گرہ،رات دے چار سفر، مٹّی دی مہک اور پیالی وچ آسمان ہیں۔ ان کے زیادہ تر اقسانے لوگوں کی عام زندگی پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ہر موضوع پر لکھا ہے۔ ان کے افسانے عام لوگوں پر ہونے والی بے انصافیوں، ظلموں اور زیادتیوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ انہوں نے بہت کچھ 1947ء کے درد بارے بھی لکھا ہے جو کہ اُس وقت کے ہر پنجابی ادیب نے لکھا ہے، چاہے وہ مغربی پنجاب میں بسا ہو یا مشرقی پنجاب میں۔یہ پنجاب کی تواریخ کا سب سے بڑا درد وکرب ہے۔
مرحوم رھاندواجس دلیرانہ انداز اور بلند آواز میں وہ لکھتے رہے، اس پر کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ افضل احسن رندھاواقلم سے نہیں لاٹھی سے لکھتے ہیںلیکن ان کے افسانوں میں جس طرح کی درد بیانی موجود ہے، لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سیاہی سے نہیں آنسوئوں سے لکھتے ہیں۔ ایس ہی ان کی ایک کہانی 1947ء کے درد کی کہانی ’گواچی ہوئی خشبو‘ یعنی’’ گم شدہ خوشبو ‘‘ہے۔ اس کہانی کی شروعات وہ اس طرح کرتے ہیںـ۔۔۔
’’میں کون سی کہانی لکھوں ؟
جب میں کہانی لکھنے کی سوچتا ہوں تو میرے گرد بہت ساری کہانیاں آکر کھڑی ہو جاتی ہیں، مجھے گھیر لیتی ہیں۔کسی کہانی کے تو ہاتھ محنت مشقت کر کے بری طرح خاردار ہوے پڑے ہیں، کسی کہانی کے سر پر چادر نہیں ہے،کسی کے سر پر دوپٹہ ہی نہیں بچا۔ کسی کہانی کا ماکھن جیسا جثہ چھلنی ہوا پڑا ہے۔کسی کہانی کے خوبصورت چہرے پر بارود کی بدبو ہے، کسی پر خون کے داغ ہیں۔ کسی کہانی کا بازو کٹا ہے اور کسی کی ٹانگ غائب ہے۔ کسی کی آنکھوں سے دکھائی دینا بند ہو گیا ہے اور کسی کا گوشت آگ میں جھلس گیا ہے۔ میری تو کوئی بھی کہانی ثابت صورت نہیں ہے۔کسی کا بھی حسن قائم نہیں ہے، کسی کا لباس ہی بدن پر پردہ نہیں کرتا۔ شاعر اور ادیب تو ازل سے حسن بانٹتے آئے ہیں، میں کیا کروں، کیا لکھوں، کس کو لکھوں، اے میرے ربّا‘‘۔
ان کے پاس الفاظ کا بہت بڑا خزینہ ہے،وہ پنجابی کی دولت کے وسیع سمندر میں غوطہ خوری کے ماہر تھے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے لیکن پنجابی زبان کی ایسی رنگت پیش کرتے رہے کہ ان کا ترجمہ ایک طرح سے ناممکن سا ہے۔ انہوں نے پنجابی زبان کو بہت امیری بخشی ہے۔پاکستانی پنجاب کے دیہات کی موجودہ زندگی بارے ان کے افسانوں کے کچھ اجزاء اس طرح ہیں۔ایک لمبی کہانی ’ بندے کھانیاں‘ میں انہوں نے زندگی کے بہت سارے پہلوئوں پر بات کی ہے۔نئے زمانے کی نوجوان نسل میںجوانی کی ہوا، سماجی بندشیں اور مجبوریاں، رشوت بازی، جھوٹے کیسوں میں پولیس تشدد کی انتہا، بدلے کی آگ میں دہشت گردی اور نقلی پولیس مقابلے جیسے مدعے بہت سلیقہ سے اٹھائے ہیں۔ ان کی عبارت کے یہ حصص ان مسئلوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
’’دو گائوں کے بیچ کا یہ راستہ کافی چلنے لگا تھا۔لوگ ایک دوسرے کو جاننے والے تھے۔ جوان ہو رہے اور جوان ہو چکے منڈے کُڑیاں ( لڑکے لڑکیاں) بھی اسی راستے پر چلتے تھے۔ وہ تو بچپن سے ہی ایک دوسر ے کو جانتے تھے اور آپس میں ہنسی مذاق بھی کر لیتے تھے۔ چودھریوں کی ایک لڑکی ایک عام کسان کے بیٹے پر فدا ہو گئی تھی لیکن لڑکا ایک گائے کی طرح شریف کہ کوئی response نہیں دیتا تھا۔ ایک دن لڑکی نے اس کو راستے میں بازو سے پکڑ کر کھڑا کر لیا، بولی ’’ وے میرے میں کیا کمی ہے، تو میری طرف دیکھتا تک نہیں۔ لڑکی نے مردوں کی طرح پوچھا اور آگے لڑکے نے عورتوں کی طرح گردن جھکا لی اور وہاں سے دوڑ پڑا۔ اپنے جوتے کا ایک پائوں بھی وہاں چھوڑ گیا۔ لڑکی نے جوتا اٹھایا، اس کو بوسہ دیا، سینے پر لگایا اور اپنے بستے میں ڈال لیا۔ ایک چغل خور بندہ یہ سب دیکھ رہا تھا ،اس نے لڑکی کے باپ کو بتا دیا۔
باپ نے گھر میں تفتیش جاری رکھی۔ جوتے کا ایک پائوں لڑکی کے تکیہ کے نیچے سے برآمد ہو گیا۔ بس اب مقدمہ بن گیا۔ زبانی زبانی فردِ جرم تیار کر کے چودھری نے اپنی گھر والی سے بات کی۔ اس نے آگے سے ڈانٹ دیا کہ خبردار !اگر لڑکی سے کوئی بات کی یا اُس لڑکے کے گھر گیا تو، سارے گائوں کی مٹّی ہمارے سروں میں پڑ جائے گی۔ بہت غصہ ہے تو کسی مویشی پر نکال لے یا کسی نوکر پر۔ کرنے والا کام یہ ہے کہ میرے مائکے چلا جا، میرے بھائیوں سے بات کر کہ لڑکی کے ہاتھ پیلے کرکے دفع کرنے کی سوچ۔
لڑکی کا رشتہ کر دینا تو چودھری مان گیا لیکن اُس لڑکے کو سخت سزا دلوانے پر قائم رہا۔ کس قصور کی سزا یہ تو نہ چودھری بتا سکتا تھا اور نہ ہی جس کو سزا ملنی تھی۔اس نے پولیس تھانے جا کر تھانے دار کی جیب میں نوٹوںکا بڑا بنڈل ڈال دیا ۔ رات کو اپنی ایک بھینس کھلوا کر دور کے ایک دوست کے گھر بھجوا دی۔ دوسرے دن پولیس نے بھینس چوری کرن کے جرم میں اس لڑکے کو گرفتار کر لیا۔
جن کے گھر بھینس بندھی تھی، وہ دونوں وقت دودھ پیتے رہے اور تھانے کے اندر یہ لڑکا اسی بھینس کی چوری کے الزام میں چاروں وقت کی تفتیش کو برداشت کرتا رہا۔ یہ تفتیش تھانے کے بند کمروں میں پولیس کے موٹے تازے جوان کرتے رہے۔ لڑکے کی چیخیں اور فریادیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ نہ برادری کی پنچایتیں نہ کوئی عدالت، نہ انسانی حقوق کی کوئی انجمن۔ شاید اس کی چیخ فریاد تو عرش بریں پر بیٹھی اس ہستی تک بھی نہیں پہنچی جس کے بارے بتایا جاتا ہے کہ وہ ہر شیٔ دیکھتا ہے اور ہر آواز سنتا ہے۔
تھانے کے اندر اس لڑکے سے ملاقات بند تھیں۔ اس کے ماں باپ تھانے کے دروازے پر بیٹھے رہتے اور کسی جان پہچان والے اثرو رسوخ والے بندو ں کو ملتے رہتے۔ جب وہ دروازے کے نزدیک آتے تو ان کو ڈانٹ کر دور بھگا دیا جاتا۔ اندر پولیس والے اس کی ایک ایک ہڈّی کی آزمائش کرکے ان میں سے بھینس برآمد کرتے رہے، کئی دن اس کے شریر میں گوشت کی ہر بوٹی، اس کی ہر نس اور خون کے ہر قطرے سے بھینس برآمد کرتے رہے۔ اس کی ضمانتوں کی درخواستیں برآمدگی کے ریمانڈوں کے نیچے دبی رہتیں۔ آخر ایک رہنما سکول ماسٹر کی مدد سے ہائی کورٹ کے بیلف کے آنے سے لڑکے کی ضمانت ہوئی۔
ماسٹر اپنے ایک ساتھی سے باتیں کرنے لگا، ’’پولیس کے تشدد سے سینکڑوں ہزاروں بندے مرتے ہیں۔ ہر روز، ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں آپ نے ان لوگوں کی لاشیں دیکھی ہوںگی لیکن کیا کوئی زندہ لاش بھی دیکھی ہے؟ ترشی، مرچھی، ٹوٹی پھوٹی، ٹیڑھی میڑھی، چپکی اور کچلی ہوئی؟ میںنے آج دیکھی ہے، ایسی زندہ لاش اپنے ایک شاگرد کی جس کو اپنے بیٹے کی طرح محسوس کرتا ہوں ،بالکل بھولا، نہایت شریف، نرا گئو (خالص گائے) اور بھینس کی چوری کاملزم، چور اور ڈاکو بدمعاش۔ اس طرح کے اندھے، بے رحم اور غیر انسانی تشدد کو تفتیش کا نام دینا کتنی بڑی بد دیانتی ہے؟ کتنا بڑا کفر؟
لڑکے کو ضمانت تو مل گئی، ضمانت کے کاغذات سے وہ چار بندوں کے سہارے تھانے سے باہر تو آ سکتا تھا لیکن گھر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ سوٹی کے سہارے بھی پیدل نہیں چل سکتا تھا، اس کی کوئی بھی ٹانگ اور بازو ثابت نہیں تھے۔ اس کو بیل گاڑی سے سیدھا ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کے علاج کو 6؍ مہینے کا وقت اور تین ایکڑ زمین لگ گئی۔ اس درمیان اس کا باپ یہ سب کچھ نہ برداشت کرتا ہوا چل بسا۔ ماں ہسپتال کے برآمدوں میں گھومتی پاگل سی ہو گئی تھی۔وہ کبھی فرش پر بیٹھ جاتی اور کبھی اندر جا کر پلستروں میں لپٹے ہوئے اپنے بے قصور بیٹے کو دیکھتی رہتی اور باہر نکل کر کہیں زور سے رو لیتی‘‘۔
افسانہ تو بہت آگے چلتا ہے لیکن ہم بات کرتے تھے ،افضل احسن رندھاوا کی طرف سے لفظوں کے انتخاب اور ان کے استعمال کی۔ کیا اس سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قلم سے نہیں ڈانگ (لاٹھی) سے لکھتے تھے؟ اور سیاہی کی جگہ آنسوئوں کا استعمال کرتے تھے؟ادیب ہونے کے ساتھ ہی وہ لوگوں کے روزمرہ کی زندگی میں بھی مددگار تھے۔ وہ وکالت بھی کرتے تھے اور اکثر بار کونسلوں کے صدر رہے ۔ وہ ایک بار پاکستان کی پارلیمنٹ نیشنل اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ وہ کئی بار بھارت کے دورے پر بھی آ گئے۔ مشرقی پنجاب میں اکثر پنجابی ادب کی تقاریب میں شرکت کرتے رہے۔وہ عالمی پنجابی کانفرنسوں کی کشش بھی بنتے رہے۔
در اصل وہ مغربی یا مشرقی پنجاب کے نہیں سارے پنجاب کے ادیب تھے۔ تقسیم کے باوجود وہ پانچ دریاؤں کی اس سر زمین کے شہری رہے۔ ان کو مغربی اور مشرقی دونوں پنجاب سرکاروں نے انعام دئے۔ بطور ایک بڑے انعام ان کوپنجاب کے دونوں خطوں کے لوگوں نے برابر کا پیار اورعزت واحترام دیا ۔ ان کے جانے سے سارے پنجابی ادب کو دھکا لگا ہے، بلکہ سچ میں ان کے جانے سے پنجابی ادب کاایک دور پورا ہو جاتا ہے۔ وہ لاٹھی سے لکھتے تھے یا آنسووں سے یا دونوں سے، ہم مندرجہ بالا افسانہ کے دو اگلے پیرے بھی پڑھ ڈالہیں تو بہتر ہے ۔
’’۔۔۔۔جب وہ لڑکا ہسپتال سے نکلا تو پھاوڑیوں سے چل رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا۔اس نے ڈاکٹروں کا شکریہ کیا کہ بہت کچھ ہو گیا ہے، میںنے اب کبڈّی نہیں کھیلنی، جو بقایا کام کرنا ہے اسی سے ہو جائے گا۔ ماسٹر یہ سن کر گھبرا گیا۔ اس سے بہت پوچھا لیکن اس لڑکے نے کچھ نہیں بتایا۔ بس تین چار مہینے بعد گھر سے نکل گیا اور اس کی کوئی خبر نہیں آئی۔ جب آئی تو ایک اخبار میں پڑھی۔
وہ لڑکا ایک دن اپنے دو ساتھیوں سمیت تھانے میں پہنچ گیا، تھانے دار کو بولا کہ وہ چوری کی بھینس واپس کرنے آیا ہے۔ تھانے دار اور چار سپاہی AK 47 سے بھون دئے۔ پھر ایسی خبریں کئی بار آتی رہیں، پولیس والے اس کی کلاشنکوف کے شکار ہوتے رہے۔ ایک دن ایک بندہ ہاتھ میں اخبار پکڑے ماسٹر کے پاس دوڑتا آیا، خبر چھپی تھی کہ وہ لڑکا پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ ماسٹر نے کہا کہ اس کو پتہ لگ گیا تھا۔ بندے نے پوچھا:’ماسٹر صاحب کیا یہ مقابلہ اصلی تھا یا نقلی؟‘‘ ماسٹر نے بتایا: ’نہ یہ اصلی تھانہ نقلی، یہ تو تھا ہی نہیں، لڑکے کو دودھ میں زہر ملا کر مار دیا۔ پھر اس کی لاش کو گولیوں سے بھون دیا اور کچھ گولیاں ان کو رسید کر دیں جو زہر دینے کی سازش میں شامل تھے، انہیں کی فوٹو چھپیں کہ وہ کراس فائرنگ میں مارے گئے۔ زخمی سپاہیوں کی تصویریں چھپیں جو ہسپتال میں زیر علاج تھے اور اس’’ خو نخوار ڈاکو‘‘ کی جو لڑکی کے سامنے جوتا چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔
رندھاوا صاحب نے بہت کچھ لکھا ہے، بہت بڑی باتیں لکھی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی تسلی ابھی نہیں ہوئی تھی۔ شاید وہ اور بھی بہت کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ انہوںنے بہت تھوڑی نظمیں اورا شعار بھی لکھے۔ ایک شعر میں کچھ اس طرح کا اشارہ کرتے ہیں کہ ’’ میں تو دریاؤں کا ہم عمر دوست تھا لیکن مجھے کھیتوں کی نالیوں میں تیرنا پڑ رہا ہے‘‘
ہانی ساں میں دریاواں دا
مینوں کھالاں وچ ترنا پے گیا
رابطہ 09878375903