عظمیٰ نیوز سروس
نئی دہلی//پنجاب میں سیلاب کی صورتحال بدستور سنگین بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق برنالہ ضلع میں ایک اور شخص کی موت واقع ہوئی ہے، جس کے بعد ریاست بھر میں جان گنوانے والوں کی تعداد بڑھ کر 57 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ریاست کے راجوے وزیر ہر دیپ سنگھ منڈیاں نے بدھ (17 ستمبر) کو جاری کیے۔وزیر کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں میں ریاست میں قائم امدادی کیمپوں کی تعداد 41 سے کم ہو کر 38 رہ گئی ہے۔ ان کیمپوں میں پناہ لینے والے متاثرین کی تعداد بھی گھٹ کر 1,176 رہ گئی ہے، جب کہ ایک روز پہلے یہ تعداد 1,945 تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ تقریباً 769 افراد کیمپوں سے واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ریاستی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اب تک مجموعی طور پر 23,340 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ زیادہ تر متاثرین وہ ہیں جو ان دیہات میں رہتے تھے جہاں پانی کی سطح حد سے زیادہ بلند ہوگئی تھی۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ دیہات کی تعداد 2,484 تک پہنچ گئی ہے، جب کہ متاثرہ آبادی کا تخمینہ 3,89,279 لگایا گیا ہے۔سب سے زیادہ ضرب کسانوں پر پڑی ہے۔ صوبائی وزیر نے بتایا کہ اب تک تقریباً 1,99,678 ہیکٹر رقبے پر کھڑی فصلیں برباد ہوچکی ہیں۔ گزشتہ رپورٹ میں یہ اعداد و شمار 1,98,525 ہیکٹر تھے لیکن فاضلکہ ضلع سے موصولہ نئی رپورٹ میں مزید 1,153 ہیکٹر زمین پانی میں ڈوبنے کی تصدیق ہوئی ہے۔ دھان اور کپاس کی فصلیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں جس کے باعث کسانوں کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کئی مقامات پر کھیتوں میں اب بھی پانی جمع ہے، جس سے آئندہ فصل کی بوائی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ حالات پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے اور نہ صرف امدادی کام بلکہ متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ ہر دیپ سنگھ منڈیاں نے کہا کہ متاثرہ افراد کو جلد از جلد معاوضہ اور ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر ابھی بھی امداد بروقت نہیں پہنچ رہی اور دیہاتوں سے پانی کی نکاسی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ادھر، کیمپوں میں مقیم افراد کی گھروں کو واپسی اس بات کی علامت ہے کہ حالات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ لیکن ان متاثرین کے سامنے اب نئے چیلنجز کھڑے ہیں، جن میں مکانات کی مرمت، روزگار کی بحالی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔ریاست کے کئی علاقوں میں سڑکیں اور پل تباہ ہوچکے ہیں جس سے آمدورفت دشوار ہوگئی ہے۔ بجلی اور پینے کے پانی کی سپلائی بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکی ہے۔ اس صورت حال میں متاثرہ عوام کو ایک طویل اور مشکل بحالی کے عمل کا سامنا ہے، جب کہ کسانوں کے لیے آنے والے مہینے مزید سخت ثابت ہوسکتے ہیں۔