طارق منور
رختِ سفر باندھ کر گھر کی دہلیز پر کھڑا ہو کر میں نے پلٹ کر کہا:
“امی۔۔۔ ابو۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔ آپ اپنے رب سے دعا کرتے رہنا، ان شاء اللہ واپس آ کر پھر ملیں گے۔”
چند میٹر آگے بڑھتے ہی دل میں شفیق ماں باپ کی جدائی نے ہلچل مچادی۔ تاب نہ لا کر میں نے باہر کے گیٹ پر پلٹ کر دیکھا۔ گھر کے دریچوں سے امی اور ابو دونوں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے۔ تھرتھراتے لبوں سے کچھ مانگ رہے تھے، اور آنکھوں سے اشکوں کا دریا بہا رہے تھے۔ ان کے آنسوئوں نے میرے سنگ دل کو ریزہ ریزہ کر دیا۔
بہر حال میں سفر کی جانب بڑھا۔ آبائی شہر کی سرحد کراس کی اور چلتے چلتے تھک گیا۔ سورج کی تیز کرنوں نے میرے ہر مسام سے عرق رواں کر دیا تھا۔ ہمت تھکن سے چور ہو گئی تھی اور آگے بڑھنے کی طاقت باقی نہ رہی۔ میں نے تھوڑی دیر کے لئے آرام گاہ ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگر اُدھر پیچھے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ بے چینی میرے چہرے پر نمودار ہونے لگی۔ امید کے دامن کو تھامتے ہوئے میں اور آگے بڑھا۔
اچانک ایک سایہ دار درخت دکھائی دیا۔ “اے میرے مالک، تیرا شکر!” میرے تشنہ لبوں کو جیسے کسی ساقی نے سیراب کر دیا۔ میں نے تیزی سے قدم اٹھائے، پیڑ کے قریب پہنچ کر کندھوں سے سامان اتارا، زمین پر رکھ دیا اور ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔
نیند غالب ہونے لگی، اچانک ایک غیبی آواز آئی:
“منزل کو پانے والے لوگ سکون کی نیند کا مزہ نہیں لیتے۔ وہ تھکن کو نہیں مانتے، بس قدم آگے بڑھاتے ہیں۔”
میں نے آنکھیں کھولیں، دائیں بائیں دیکھا، مگر کوئی نہ تھا۔ خود سے کہا، “میرا وہم ہے۔” اور پھر بے خوف ہو کر دوبارہ آنکھیں بند کیں۔ سوتے سوتے بے ہوش ہو گیا۔ خوابوں کا قافلہ رواں ہو گیا، اور میں حقیقت کے سفر سے غافل ہو گیا۔
کبھی ایک خواب کو سجایا، کبھی دوسرے کو، اتنا مگن ہوا کہ گھر کی دہلیز سے نکلتے وقت ماں کی نصیحت یاد نہ رہی:
“بیٹا، تمہیں معلوم ہے نا کہ تمہارے ابو نے کس طرح محنت کی؟ دن رات خون پسینہ ایک کر کے تمہاری تعلیم کے لئے اپنی ساری جمع پونجی وقف کی۔ اس لئے کبھی عشقِ مجازی کے چکر میں نہ پڑنا اور اپنی تعلیم کے سفر میں کبھی رکنا نہیں۔”
ادھر آفتاب بھی غروب ہو رہا تھا، خنک ہوا چلنے لگی، اور میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈک محسوس کرنے لگے۔ نیند میں کھلبلی مچ گئی۔ چند جھپکیوں کے بعد آنکھیں کھولیں، دن گزر چکا تھا اور کل ایڈمشن کا آخری دن تھا۔ زار و قطار رونے لگا، کیونکہ تھوڑی دیر کے آرام کے سبب سب کچھ کھو دیا۔
دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، بدن کپکپی سے لرز رہا تھا۔ اوپر آسمان کی طرف دیکھا، تو تارے مجھے ملامت کرنے لگے:
“تم نے تھوڑے سے آرام کے لئے اپنے والدین کے خواب اور قربانی کا سودا کیا!”
میں نے روتے روتے پیڑ سے کہا:
“میرے سفید پوش ابو، امی کا خواب ادھورا رہ گیا۔ میرے والدین کا تمناؤں کا بستہ میری غفلت کی وجہ سے آج جل گیا…”
���
ہردوشورہ، ٹنگمرگ، بارہمولہ کشمیر