ریاست جموں وکشمیر کے اردو افسانہ نگاروں میں پشکر ناتھؔ ایک باوقار اور نمائندہ نام ہے۔وہ ریاست کے ایک پختہ کار اور تخلیقیت شناس افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے نہ صرف افسانہ نگاری کے میدان میں اپنا لوہا منوا لیا ہے بلکہ ڈرامہ نگاری میں بھی انہوں نے کا فی شہرت حاصل کی ہے۔ہندو پاک کی ادبی حلقوں میں انہوں نے اپنی ایک منفرد پہنچان بنا لی ہے۔
پشکر ناتھ تکو ۳۱ مئی ۱۹۳۲ء کو شہرخاص سرینگر کے محلے عالی کدل میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد تارا چند تکو محکمہء مال میں ایک اچھے عہدے پر فائز تھے۔ پشکر ناتھ نے ابتدائی تعلیم وادی کشمیر کے مقامی اسکولوں میں حاصل کی ۔ اس کے بعد ۱۹۵۰ ء میں جموں یونیورسٹی سے بی ۔ اے کی سند حاصل کی۔اسی دوران اُن کے والد صاحب ریٹائر ہوگئے۔ والد صاحب کی سبکدوشی سے پشکر ناتھ تنگ دستی کا شکار ہوئے۔پشکر ناتھ کو مزید تنگ دستی کا سامنا تب کرنا پڑا جب اُن کی شادی شریمتی موہنی تکوسے کی گئی ۔ لہٰذا اس تنگ دستی سے مقابلہ کرنے کے لیے پشکر ناتھ نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے بجائے نوکری کی تلاش میں لگ گئے۔آخر کار ۱۹۵۳ ء میں انہیں اکاوٹنٹ جنرل کے دفتر میں ملازمت مل گئی۔ یہاں وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے اور برسوں کی خدمات انجام دینے کے بعد اسی دفتر سے سبکدوش ہوگئے۔پشکر ناتھ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصّہ جموں گذارا کیونکہ ۱۹۶۸ ء میں جب ان کا تبادلہ سری نگر سے جموں ہوگیا تب سے پشکر ناتھ مستقل طور جموں میں ہی رہائش پذیر تھے۔ بہر حال طویل علالت کے بعد پشکر ناتھ ۲۰۰۵ ء میں چل بسے۔
پشکر ناتھؔ بہت ہی شریف النفس انسان تھے۔ سادگی اور انکساری اس کی طبیعت کا حصّہ تھی۔ وہ ایک لائق اور شفیق انسان تھے۔ انہوں نے نہ کسی کو حسد یا نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ اپنے تخلیقی کام میں مگن رہتا تھا۔ آوارہ ادبی گردی یا شعبدہ بازی کا قائل نہ تھے۔ وہ ایک با اخلاق انسان تھے۔ ہر ایک کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرنے کے حامی تھے۔ اس نے صرف اردو میں لکھا اور تا حیات اردو میں ہی لکھتے رہے۔پشکر ناتھ ریاست کے ایک کہنہ مشق افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔انہوں نے اپنی تخلیقی سفر کا آغاز ۱۹۵۳ ء سے کیا۔ اُن کی پہلی کہانی ’’ کہانی پھر ادھوری رہ گئی ‘‘ ملک کے نامور جریدے ’’ بیسویں صدی ‘‘ دہلی میں شائع ہوئی۔ پشکر ناتھ کے تعلق سے یہ قول عام ہے کہ انھوں نے کہانی لکھنے کا آغاز اپنے دوست برج پریمی کے چلینج سے کیا۔ جب برج پریمی نے انہیں کہا کہ تم کہانی نہیں لکھ سکتے ہو۔ بہرحال اس چلینج کو قبول کرنے کے بعد پشکر ناتھ کی تین سو سے زائد کہانیاں ملک کے نامور رسائل جیسے بیسویں صدی ، نگار ، آجکل ، کتاب نما ، تعمیر ، ہمارا ادب، شیرازہ ، شاعر وغیرہ میں وقتاً فوقتاً چھپتے رہے۔ اُ ن کے پانچ افسانوی مجموعے ’’ اندھیرے اُجالے ( ۱۹۶۱) ’’ ڈل کے باسی‘‘ (۱۹۷۳) ’’ عشق کا چاند اندھیرا (۱۹۸۲) ’’ سات رنگ کا سپنا ‘‘ ( ۱۹۸۴) اور ’’کانچ کی دنیا‘‘( ۱۹۸۴) شائع ہوکر ادبی حلقوں میں کافی داد وتحسین حاصل کر چکے ہیں۔آخرالذکر مجموعہ ادبی حلقوں میں کافی مقبول ہوا۔افسانہ نگاری کے علاوہ پشکر ناتھ نے ریڈیو ڈرامے اور ٹی وی ڈرامے بھی لکھے جو ریڈیو کشمیر اور ریڈیو جموں سے نشرہو کر داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ ایک ناول بعنوان ’’ دشت تمنا ‘‘ بھی تحریر کیا ہے۔ مزید پشکر ناتھ کے بے شمار افسانے ، ڈرامے ، خاکے اور طنزیہ تحریریں ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں۔ان کی بہت ساری تخلیقات غیر مطبوعہ ہیں جو اُ ن کے لواحقین کے پاس ہیں۔بہرحال اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پشکر ناتھ کو اردو ادب کے ساتھ کتنا گہرا لگاؤ تھا۔ پشکر ناتھ کو اُن کے اردو خدمات کے تئیں ملک کے طول و عرض میں عزازات و انعامات سے نوازا گیا۔جیسے کلچرل اردو اکیڈمی سرینگر (دو مرتبہ ) ، اُتر پردیش اردو اکادمی ایوارڈ ، آکاش وانی سالانہ ایوارڈ اور شریکا پیٹھ سنستھا جموں قابل ذکر ایوارڈ ہیں۔
اردو ادب میں پشکر ناتھؔ ایک جانا پہچانا نام ہے۔ ان کا نام عصرِ حاضر کے اہم افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے ایک رومان نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں قدم رکھا ، لیکن بہت جلد اپنے منصب کو پہنچان کر رومانی دنیا سے باہر آگئے، اور کشمیر کی زندگی کے کرب و درد کو اپنے افسانوں میں ڈھال دیا۔ان کے ابتدائی افسانوں میں رومان نگاری کے واضح رحجانات کے باوجود بھی بعض افسانوں میں فطرت کی نزاکتوں اور غربت کی مجبوریوں کا ایک فنکارانہ تضاد نظر آتا ہے۔انہوں نے گردوپیش کی زندگی کے بحران اور رشتوں کی کشاکشی کا سارا کرب اپنے افسانوں میں سمو لیا۔ان کے افسانوں کا محرک کشمیر کی زندگی اور اس کی حسین فضائیں ہیںلیکن ان کے نظر میں فطرت کے ان دلفریب منظر کے درمیان عوام کی غربت اور ان کا افلاس ایک المیہ ہے جس کے نقوش وہ بڑی فنکاری کے ساتھ ابھارتے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں وادی کے حسین اور دلفریب نظاروں ، خوب صورت جھرنوں ، برفیلے پہاڑوں ، جھیلوں اور دریاؤں کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی بے بسی ، دبی کچلی انسانی زندگی اور اس کے مسائل جہالت ، بھوک ، افلاس اور احساسِ محرومی کو بھی بڑی فن کاری سے پیش کیا ہیں۔ان کے افسانوں میں وہ کشمیر نہیں ملتا جس کے بارے میں شاعروں اور افسانہ نگاروں نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے ہیں۔ اُن کے افسانوں میں وہ کشمیر نظر آتا ہے جس میں عام لوگوں کو افلاس ، ناداری ، محرومی اور مجبوری کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ان کے دل میں کشمیر کی تڑپ ایک درد بن کر رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔وید راہی پشکر ناتھ کے ابتدائی افسانوں کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:۔
’’ پشکر ناتھ کی ا ن کہانیوں میں اس کا غم نہیں، اپنے آنسو اور اپنی ٹیسیں نہیں بلکہ کشمیر کے غم زدہ حُسن ، لوگوں کے سسکتے ارمان اور کل انسانیت کا درد ہے۔یہی ان کہانیوں کی جان ہے۔ پشکر ناتھ کے پاس خوبصورت تخیل ہے ، حقیقت پسندانہ نظر ہے اور بے انتہاپیاری زبان ہے ۔ ان سب نے مِل جُل کر ان کے فن کو جلا بخشی۔‘‘(اندھیرے اُجالے ۔ سرورق ۔ از وید راہی)
’’ موت کا سودا گر ‘‘ ’’ راز دل ‘‘ ’’ پردہ نشین ‘‘ ’’ گالی ‘‘ ’’ نروان ‘‘ ’’ انتقام ‘‘ ’’ جاہل کمینے ‘‘ ’’ اندھیرے اجالے ‘‘ پشکر ناتھ کے ابتدائی افسانوں میں نمائندہ افسانے شمار کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ افسانوں میں مصنف نے تڑپتی اور سسکتی ہوئی زندگی کی ان منٹ نقوش اُبھارے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں کشمیریوں کی فطری سادگی ، مروت اور ایثار و خلوص کے نقش اتارتے ہوئے وقت ، حالات اور ماحول کی اس بے رحمی کو بھی موضوع بنایا ہے جس نے نہ صرف ان کی زندگیوں میں زہر گھول دیا بلکہ ان کے اعلی انسانی خصائل ، احساسات اور جذبات کی بھی توہین اور تذلیل کی۔ افسانہ گالی ، نروان ، حال دل ایسے افسانے ہیں جن میں پست طبقے کے لوگوں کے خیالات ، مظلوموں کی فریاد ، ظالموں کا ظلم، سرمایہ داروں کا رویہ اور اس طرح کی کئی حقیقتیں پنہاں ہیں ، جو قاری بخوبی سمجھ سکتا ہے۔افسانہ ’’ گالی ‘‘ میں ایک محنتی بھنگن عورت کی کہانی بہت ہی انوکھے انداز میں بیان کی گئی ہے۔ عزت حاصل کرنے کے لئے وہ کافی جدوجہد کرتی ہے۔وہ سڑکوں اور گلیوں کا کیچڑا اُٹھاتی ہے اس لیے لوگ اسے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ پشکر ناتھ خود کہتے ہیں کہ :۔
’’ اسے ایک نہایت معمولی عورت ہونا بُرا نہیں لگتا تھا بلکہ دنیا کی نگاہوں کی چھبن بری لگتی تھی جو حقیر اور گندے ماحول میں پنپنے والے انسان کو نہیں دیکھی۔‘‘
(افسانہ ’’ گالی ‘‘ ۔ ہمارا ادب ۔ کلچرل اکادمی سرینگر ۔ ص ۱۸۲)
پشکر ناتھؔ ریاست کے ایک کہنہ مشق نگار ہیں۔ان کی کہانیاں ایک منجھے ہوئے فن کار کی فنی بصیرت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔اُن کا تجربہ کافی وسیع اور مشاہدہ بڑا گہرا تھا۔وہ ایک حقیقت نگار ادیب تھے۔اس لیے ان کے افسانوں میں حقیقت اور تخیل کر درمیان حدِ فاصل کا لحاظ جھلکتا ہے۔ان کے افسانوں میں حقیقی زندگی کے مسائل ، ان کا عمیق مطالعہ اور احساس فکر کی مکمل ہم آہنگی ملتی ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کا مواد روزمرہ زندگی سے اخذ کیا ہے۔ان کے افسانوں کا بنیادی موضوع انسان ہے۔انسان کے دکھ درد ، انسانی زندگی کے اتار چڑھاؤ انسانی ذہن کے اسرار و رموز اور نفسیات کو انہوں نے بخوبی سے پیش کیا ہے۔انہوں نے اپنے افسانوں میں فلسفہ نہیں بگھار ا اور نہ ہی سیاست کے کرتب دکھائی بلکہ ان کی کہانیوں میں جذبے اور احساس کا ادراک ملتا ہے اور ایک منجھا ہوا شعور بھی جھلکتا ہے۔ان کو زبان و بیان پر بھی قدرت حاصل تھی جس کی بنا پر انہوں نے خوب صورت افسانے قلم بند کیے۔سطحی جذباتیت کی قید وبند سے آزاد ہو کر وہ حقیقت کی تفہیم کے عمل میں سرگرم ہوگئے۔ان کے افسانوں میں نئی خود شعوریت کا احساس پروان چڑھنے لگا۔انہوں نے اپنی طویل تخلیقی سفر کے دوران فارم کے کئی تجربے استعمال میں لائے ہیں۔بعض کہانیاں ناول کی تکنیک میں ، بعض داستانی تکنیک ، بعض بیانیہ ، بعض خود کلامی اور بعض کی کہانیوں میں شعور کی رو کی تکنیک کو برتا گیا ہے۔غرض پشکر ناتھؔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے نظر آتے ہیں۔ بقول نصرت چودھری :۔
’’ پشکر ناتھؔ اُن افسانہ نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے تخلیقی سفر کے دوران ارتقا کی کئی منزلیں طے کی ہیں۔انہوں نے وقت کے تغیرات کے ساتھ اور نئے رحجانات کے تحت روایتی حقیقی انداز سے ذرا ہٹ کر زندگی کے تلخ حقائق ، اقدار کی شکست اور زندگی کی بے معنویت اور بے ستمی کا نوحہ پیش کیا ہے۔ ان کے انداز اور سوچ میں پہلے سے زیادہ فکری گہرائی ملتی ہے۔جدید عصری مسائل ان کے ہاں ابہامی اور علامتی پیکروں میں سامنے آتے ہیں ان کے ہاں صنعتی اور سائینسی ترقی کے باعث ابھرتے بحران ، سیاسی استبدایت ، شکست و ریخت میں مبتلا معاشرہ زندگی کی بے معنویت اور بے سمتی کا عکس نمایاں ہے۔‘‘
(شیرازہ ۔جموں و کشمیر میں اردو افسانہ ۔ نصرت چودھری ۔۔جلد ۳۷ ۔ شمارہ ۸۔۶۔ص ۲۳۱)
بلاشبہ پشکر ناتھؔ کا نام ریاست کے اُن افسانہ نگاروں میں سرفہرست ہے جنہوں نے اپنے گردوپیش کے تناظر میں عصری زندگی کے کرب و مسائل کو علامتی اور تجریدی پیرایہ اظہار میں پیش کرنے کے تجربات کو پروان چڑھانے کی کامیاب کوشش کی۔انہوں نے علامتی اور تجریدی انداز میں عصری کرب ، اقدرا کی شکست و ریخت ، فرد کی تنہائی ، گھٹن ، بے گانگی ، زندگی کی گہما گہمی اور اُنسیت سے بیزاری جیسے عوامل کو اپنے کہانیوں کا روپ دے کر پیش کیا۔انہوں نے اپنی تخلیقی سفر کے دوران ترقی کے کئی زینے طے کئے اور تغیر زمانہ کے ساتھ اور نئے رحجانات کے تحت روایتی اندازسے قدرے مختلف اور جدت کے ساتھ زندگی کی کڑوی صداقتوں ، پامالی اقدار ، جنسی بے راہ روی اور استحصال ، انسانی کھوکھلے پن ، ہوس گیری اور زندگی کی بے معنویت کا روح قرسا رُخ پیش کیا۔
افسانہ ’’ پل نمبر صفر کے گدھ ‘‘ علامتی اور نئے افسانے کی عمدہ مثال ہے۔افسانے میں نہ صرف زمانہ حال کی بلکہ مستقبل کی کہانی پوشیدہ ہے۔ افسانے میں مصنف نے دورِ حاضر کے استحصال ، چھینا جھبٹی ، سینہ زوری ، نفسانفسی کے المیہ کو علامت پیرایہ میں اظہار میں پوری فنی آب وتاب کے ساتھ اُجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کہانی میں عصرِ حاضر کے جبرواستبداد اور نئی نسل کے المیے کو نہایت چابکدستی اور فنکاری سے علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔یہ افسانہ دورِ حاضر کے جابرانہ عزائم کا ایک ایسا اظہار ہے جس سے نکلنا شاید ہی انسانی تقدیر میں نہیں۔اس افسانے میں ریاست کی پوری تاریخ قلمبند کی گئی ہے۔ یہ افسانہ دورِ حاضر کی صداقتوں کا عکاس بھی ہے ۔ اس کہانی میں اپنے گردوپیش کے حوالے سے خود غرضی اور استحصال کا ایک المیہ پیش کیا گیا ہے۔چناروں پر بیٹھے ہوئے گدھ اور کشتی کے نکڑ پر بیٹھے ہوئے بوڑھے اور نحیف ملاح کو علامت کی گہری معنویت سے ابھارا گیا ہے۔افسانہ میں گدھ آنے والی وہ نسل ہے جو جبرواستبداد کا نمونہ ہے۔جن کے ہاں نراجیت ، خود غرضی اور چھینا جھپٹی اور استحصال جائز ہے اور دوسری طرف بوڑھا ملاح دورِ ماضی کی علامت کے طور پر اُبھرتا ہے ، جو بہ زبان خاموشی ، آلام و مسائب کو سہتا ہے لیکن انسانی اقدار کو پامال ہونے نہیں دیتا۔بوڑھے اور گدھ کی علامتوں کا سہارا لے کر افسانہ نگار نے آج اور کل بلکہ آنے والے زمانے کی صورت حال پر پیشن گوئیاں کی ہیں کہ آنے والی نسل کے پاس ترقی کے سارے سامان میسر ہوں گے لیکن پیار ، محبت ، اخوت اور خلوص سے محروم ہوں گے۔
(بقیہ بدھوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)