عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر//حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین عبدالغنی بٹ کا بدھ کو انکے آبائی گائوں بوٹینگو سوپور میں ان کی رہائش گاہ پر 90سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ بٹ، جو گزشتہ کچھ برسوں سے خرابی صحت کی وجہ سے سوپور میں اپنی رہائش گاہ تک محدود تھے، نے بدھ کی شام آخری سانس لی۔1935میں پیدا ہوئے، بٹ نے سرینگر کے سری پرتاپ کالج سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے فارسی میں پوسٹ گریجویٹ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔خاندانی ذرائع کے مطابق بٹ کو ان کے آبائی قبرستان میں دیر رات انتہائی خاموشی کے ساتھ مقامی لوگوں ،لواحقین اوررشتہ داوں کی موجودگی میں دفن کیاگیا۔وہ حریت کانفرنس کے چیئرمین رہے ہیں اور انہیں اعتدال پسند لیڈر کے طور جانا جاتا تھا۔
تعزیت پرسی
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے پروفیسر بٹ کی وفات پر ایکس پر اپنا تعزیتی پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا’’مجھے سینئرکشمیری سیاسی رہنما اور ماہر تعلیم پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال کی خبر سن کر دکھ ہوا۔ ہمارے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے الگ تھے لیکن میں انہیں ہمیشہ ایک انتہائی سول انسان کے طور پر یاد رکھوں گا۔ اس میں بات چیت کے مقصد کی حمایت کرنے کی ہمت تھی جب بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ تشدد ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اس وقت کے وزیر اعظم واجپائی اور نائب وزیر اعظم اڈوانی سے ملے۔پروفیسربٹ کو جنت الفردوس میں جگہ ملے۔ ان کے خاندان اور چاہنے والوں سے میری تعزیت‘‘۔پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے اپنے تعزیتی پیغام میں ایکس پر لکھا’’پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال کا سن کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ وہ کشمیر کی ہنگامہ خیز تاریخ کے درمیان اعتدال پسندی کی آواز تھے ایک قابل احترام عالم، استاد اور سیاست میں عملی نقطہ نظر رکھنے والے دانشور۔ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے مضبوط حامی، ان کا اثر و رسوخ گہرا تھا۔ذاتی طور پر، انہوں نے ہمیشہ مجھے بہت پیار دکھایا، اور میں مشکل وقت میں تسلی کے لیے ان سے رجوع کرتی تھی۔ مختلف سیاسی نظریات کے باوجود، وہ مفتی صاحب کے قریبی اور قابل احترام دوست رہے، اور ایک ساتھ، امن اور مفاہمت ان کی سیاسی مہمات کا مرکز تھے‘‘۔اپنی پارٹی سربراہ سید محمد الطاف بخاری نے پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔اپنے تعزیتی پیغام میں بخاری نے کہا’پروفیسر کے انتقال کی خبر ملی، یہ میرے لیے ایک ذاتی نقصان ہے، اور آج میرا دل ایسے شخص کی جدائی پر افسردہ ہے جس کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’پروفیسر میرے والد مرحوم کے قریبی دوست اور ہم جماعتی تھے، اسلئے بھی میرے دل میں اْن کے لئے ایک خاص مقام تھا۔ میں نے ہمیشہ ان کی عزت و تکریم کی ہے اور اْن کی عقل و دانش سے استفادہ حاصل کیا ہے‘‘۔ میرواعظ کشمیر عمر فاروق نے ایکس پرلکھا ’’ابھی انتہائی افسوسناک خبر سنی کہ میں نے ایک پیارے بزرگ، ایک عزیز دوست اور ساتھی پروفیسر عبدالغنی بٹ صاحب کو کھو دیا، جن کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک بہت بڑا ذاتی نقصان! اللہ جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ کشمیر ایک مخلص اور بصیرت والے رہنما سے محروم ہوگیا‘‘۔انہوںنے مزید لکھا’’یہ بات مجھے الفاظ سے باہر ہے کہ حکام نے پروفیسر ایس بی کے اہل خانہ کو ان کی نماز جنازہ جلدی ختم کرنے پر مجبور کیا۔ مجھے اپنے گھر کے اندر بند کر دیا گیا ہے، اور اس کے آخری سفر میں اس کے ساتھ چلنے کے حق سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ میری رفاقت 35 سال کی دوستی اور رہنمائی پر محیط ہے۔ بہت سے دوسرے لوگ بھی ان کی آخری تعزیت کے خواہش مند تھے۔ ان کی جنازہ میں شرکت اور اسے آخری الوداع کہنے کے سکون سے بھی محروم رہنا ناقابل برداشت ظلم ہے‘‘۔ پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے اپنے تعزیتی پیغام میں ایکس پر لکھا’’پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر اہل خانہ سے دلی تعزیت،جن کا انتقال ہوگیا جنہیں ادباً لوگ پروفیسر صاحب کے نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ سیاست کے علاوہ ایک ادبی شخصیت بھی تھے۔وہ میرے والد مرحوم کے ساتھی تھے۔ اور میری اس کے ساتھ طویل گفتگو ہوئی ہے۔اللہ اسے جنت عطا فرمائے‘‘۔نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ اور ممبر اسمبلی جڈی بل تنویر ڈصادق نے ایکس پر لکھا’’پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر دکھ ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ انہیں جنت عطا فرمائے۔ ان کے اہل خانہ اور خیر خواہوں سے ہماری دلی تعزیت‘‘۔پی ڈی پی لیڈرعارف لائیگرونے بھی پروفیسر بٹ کے انتقال پر تعزیت کا اظہارکرتے ہوئے ایکس پر لکھا’’پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر گہرا دکھ ہوا، ایک ممتاز عالم دین اور تجربہ کار رہنما، معاشرے اور عوامی زندگی میں ان کی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔ سوگوار خاندان کے ساتھ میری دلی تعزیت ہے۔ اللہ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین‘‘۔