سرینگر//ایک اعلیٰ حریت رہنما کی طرف سے مسئلہ کشمیرپرکسی کے ساتھ بھی بات کرنے کیلئے اپنے دروازے وارکھنے کے اعلان نے مرکزکے خصوصی نمائندے برائے کشمیردنیشورشرما ،جنہیں ریاست جموں کشمیر میں اپنے پہلے دودوروں کے دوران اہم متعلقین کی سردمہری کاسامناکرنا پڑا،کیلئے امیدکی نئی کرن پیداکی ہے۔’کشمیروائر‘کے ساتھ بات کرتے ہوئے اعلیٰ حریت لیڈراورمسلم کانفرنس کے سربراہ پروفیسرعبدالغنی بٹ نے کہا،’’ہاں میرے دروازے ہر کسی کیلئے کھلے ہیں،جومسئلہ کشمیرپربات کرناچاہتاہو۔اگرمیرادعویٰ صحیح ہے تومیں اپنے دروازے بندکیوں رکھوںگا‘‘۔تاہم پروفیسر عبدالغنی بٹ نے اس بات پرزوردیاکہ مسئلہ کشمیر کوحل کرنے کیلئے پاکستان کوبات چیت میں شریک کرنالازمی ہے۔انہوں نے کہا،’’جنگ کسی مسئلہ کاحل نہیں ہے۔میں جنگ کاحامی نہیں ہوں۔بھارت اور پاکستان دونوں نیوکلیائی طاقت کے حامل ممالک ہیں‘‘۔پروفیسر بٹ نے مزیدکہا کہ صرف مذاکرات سے ہی مسائل کوسلجھایا جاسکتا ہے اور پاکستان کومذاکرات میں شامل کرنا ضروری ہے۔مسلم کانفرنس سربراہ پروفیسرعبدالغی بٹ نے کہا کہ یہی حریت کانفرنس کا آئین بھی کہتا ہے اور مسلم کانفرنس کے آئین میں بھی یہ درج ہے۔ پروفیسر نے کہا کہ نہ صرف جموں کشمیربلکہ پورے جنوبی ایشیاء کے خطے کامستقبل دائو پر لگا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پورے خطے کی سلامتی کیلئے جنگ کوئی بھی آپشن نہیں ہے بلکہ مسئلہ کے دائمی حل کیلئے بات چیت ہی واحد راستہ ہے اور اس میں پاکستان کی شمولیت لازمی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ مرکزکی طرف سے کشمیر کیلئے مقررکئے گئے خصوصی نمائندے دنیشورشرما کے ساتھ بات کرنے کوتیار ہیں۔ میرے دروازے ہرکسی کیلئے کھلے ہیں ۔اگر لوگ میرے ساتھ بات کرنے کیلئے آئیں گے تومیں ان کیساتھ بات کرکے اُن سامنے اپنا نقطہ نگاہ رکھوں گاکہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کئے بنا مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت ناممکن ہے۔پروفیسرعبدالغنی بٹ نے کہا،’’اگر دنیشورشرمامیرے ساتھ بات کرنے کاانتخاب کریں گے ،تو اچھاہوگا ۔میں مسئلہ کشمیر سے متعلق حقائق پیش کروں گا۔جب تک نہ بات چیت ہوگی ،کسی بھی مثبت نتیجہ کی اُمیدعبث ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ لازمی ہے کہ ہوشمندی سے کام لیا جائے اور ایسا ماحول تیار کیاجائے جس میں بات چیت پروان چڑھ سکے۔انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ بات چیت میں آپ کو کوئی پیش رفت حاصل نہ ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ بات کرنی ہے اور سمجھداری اور عقل کی بات کرنی ہے ۔پروفیسر بٹ کے اس بیان سے مرکزی حکومت کی پریشانی بھی کچھ حد تک کم ہوئی کیونکہ اُس کی طرف سے کشمیرکیلئے نامزد کئے گئے نمائندے کو اپنے پیش روئوں جن کے ساتھ یہاں والہانہ سلوک کیا گیا، کے برعکس یہاں سردمہری کے ماحول کا سامناکرنا پڑا۔حتی کہ اہم اپوزیشن جماعت نیشنل کانفرنس نے اُن کابائیکاٹ کیا۔عمرعبداللہ جوپارٹی کے کارگزار صدر ہیں ،کے علاوہ کوئی بھی ایک رہنما اس پارٹی کا شرما سے ملنے نہیں گیا حالانکہ نیشنل کانفرنس نے ریاست جموں کشمیر میں 30سال تک راج کیا ہے۔شرمااپنے پہلے دورے کے دوران ہری نواس گیسٹ ہاوس جہاں ان کاقیام تھا،سے نکل کر عمر عبداللہ سے ملنے گئے جن کی رہائش گاہ وہاں سے چند سو میٹر کی دوری پر ہے۔اہم متعلقین مشترکہ مزاحمتی قیادت جس میں میرواعظ کی سربراہی والی حریت کانفرنس ،گیلانی کی قیادت والی حریت (گ) اور یاسین ملک کی لبریشن فرنٹ شامل ہیں،نے شرما کے ساتھ بات چیت کو مستردکردیااور کہا کہ یہ ایک’ لاحاصل مشق اوروقت کا زیاں ‘ہے۔مشترکہ مزاحمتی قیادت نے یہ واضح کیا کہ جب تک نہ مسئلہ کشمیر کو اس کے تاریخی پس منظر میںدیکھا جائے اور کشمیریوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے ،برصغیریاکشمیر میں پائیدارامن کاقیام ناممکن ہے۔