موجودہ زمانے کو اگر کلی طور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا ،کیونکہ انسان نے اس ضمن میں کافی سے زیادہ ترقی کی ہے اور اپنی سہولیات کے لئے ہزاروں کار آمد چیزوں کو ایجاد کیا ہے۔ہزاروں چیزوں اور متعدد ایجادات کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم صرف ایک موبائیل فون کی بات کریں تو واقعی انسان حیران رہ جاتا ہے ۔آج سے بیس پچیس سال قبل کی طرف نظریں دوڑایئے تو یاد پڑتا ہے کہ گھر میں خوشی یا غمی ہر دو صورت میں نہ وادی میں ،ملک میں بلکہ ایک محلے سے دوسرے محلے تک کے لئے بھی پیغام رساں کو دوڑانا پڑتا تھا کیونکہ گھریلو لینڈ لائن فون بھی کسی خاص گھر یا کسی بیوپاری کے ہاں ہی ہوا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب سن 1995ء میں ممبئی میں تھا ،مجھے بہت خوش دیکھ کر وہاں کے ساتھیوں نے مجھ سے خوشی کی وجہ جاننا چاہی اور جب میں نے اُن کو فون لگنے کی بات کہی تو انہوں نے منہ سکوڑ کہ کہا کہ یہ کوئی بڑی خوشی کی بات تو نہیں ہے مگر جب میں نے اُنہیںاصلی صورت حال سے آگاہ کیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وادی میں نئی ایجادات اور انسانی زندگی سے وابستہ سہولیا ت اُن دنوں ہمارے یہاں ذرا ٹھہر کر اور سوچ سمجھ کر ہی قدم رکھا کرتی ہیں تو وہ حقیقت حال سمجھ گئے اور یہ بھی جان گئے کہ تخصیص کی وجہ کیا تھی۔اور غالباًقارئین کو یاد ہی ہوگا کہ یہ وہی وقت تھا جب شام ہوتے ہی دروازے بند اور کھڑکیاں خاموش ہوجایا کرتی تھیں،روزن چُپ اور گلیاں سونی ہوجایا کرتی تھیں۔پھر اُلو ہی بولتے اورکتے ہی بھونکا کرتے تھے اور کالے ہیولے شکار کی تلاش میںپھر ا کرتے تھے ۔کبھی کبھی فضا اور خاموش خامو ش ماحول کا سینہ گولیوں کی آواز سے چھلنی ہوجایا کرتا تھا اور بستروں میں دُبکے ،سروں کے اوپر چادر تانے گھروں کے بے روح مکین اور دُبک جاتے ،اورسکڑ سمیت کر اپنے وجود کو ٹھنڈے بستروں میں گم کردیتے۔شائد وہ بستروں کو ہی محفوظ جائے پناہ سمجھتے تھے۔برعکس اس کے موجودہ وقتوں میں ابھی نو زائد بے بی نے دُنیا کی فضا میں آکر پہلی بار منہ بسورا نہیں ہوتا ہے کہ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوستوں،رشتہ داروں اور واقف کاروں کو تہنیت کا پیغام اورخوش خبری مل چکی ہوتی ہے ۔ اسی طرح بچھڑنے والے ،دوسری دنیا میں جانے والے کو ابھی آخری سانس لینا باقی ہی ہوتی ہے ،ابھی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کرچکی ہوتی ہے کہ پُرسہ دینے والے ، تعزیت کرنے والے دروازے پر پہنچ چکے ہوتے ہیں ،اتنا ہی نہیں بلکہ محلہ ویلفیئر یا تعزیت کمیٹی کی جانب سے آشپاز دیگ ،ہانڈی ،طشتری ،سیخ اور دیگر لوازمات کے ساتھ سوگوار کنبے کے صحن میں آحاضر ہوتا ہے اور عقابی نگاہوں سے اپنی بساط بچھانے کے لئے جگہ کو ڈھونڈرہا ہوتا ہے،لیکن اس کے باوجود بھی اتنی سائنسی ترقی اور اتنی تیز رفتارزندگی ہوتے ہوئے بھی ہم اسے ترقی کی معراج نہیں کہہ سکتے کیونکہ ابھی انسان کو نہ جانے کن مراحل سے گزرنا ہے ،کونسے اور کتنے منز لیںطے کرنی ہیں ،کتنی نئی کھوج کرید کرنی ہے اور انسانی وسائل اور ترقی کی کن راہوں پر قدم رکھنا ہے ۔تحقیق و تدبر کے حوالے سے ہماری نظروں کے سامنے جو کچھ ہوا ہے، یا ہورہا ہے، اُس کے حساب سے تو لگتا ہے کہ اس سیارے کا انسان ابھی طفل ِمکتب ہی ہے کیونکہ روز کوئی نہ کوئی ایسی نئی دریافت ،نئی کھوج ،کائنات میں بکھرے اَن گنت ستاروں اور سیاروں کے بارے میں ایسے نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں کہ انسانی ذہن چکرا جاتا ہے ۔دراصل انسان کی فطرت ہی اس طرح کی تخلیق ہوئی ہے کہ اس میں ثبات نہیں،ٹھہراو نہیں،اُس کی منزلوں کے سنگ میل بدلتے رہتے ہیں ، منزلیں وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہیں ،اس لئے ؎
ستاروںسے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
یہ بات ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ کچھ ایجادات اور انسانی سہولیات کی ا ن اشیاء کو ہم اپنی طبیعت بلکہ اپنی فطرت کے مطابق نام کرن کردیتے ہیں،یعنی اپنے طور سے اپنے نام رکھ دیتے ہیں۔مثال کے طور پر رائس کُکر کو ہم نے’’ بَتہِ موٹر ‘‘اور پریشر کُکر کو’’ چکیِ دیگُل‘‘ کا نام دیا ہے اور اسی طرح شخصیات کے ناموں کا بھی وادی میں ایک الگ ہی مزاحیہ انداز ہے ۔یہ برا نام رکھنا ،عرف دینا یا بہ الفاظ دیگرnickname رکھنا ہماری سرشت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے اور کشمیر میں یہ عام ہے ۔موجودہ وقتوں کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے مگر سابقہ ایام میں اچھے یا برے نام سے ہر ایک شخص متصف ہوتا تھاجو اُس کے ساتھ ساتھ چل کر زندگی تمام ہونے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا تھا بلکہ کسی کسی صورت میں وہ نام اُس کے گھر کے ساتھ بھی جُڑ جاتا تھا اور گھر کی پہچان بنتا تھا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وادی میں یہ برے نام رکھنے کی شروعات کیسے ہوئی اور اس بری عادت کی ترغیب کس سے اور کیسے ملی۔بات اصل میں یہ ہے کہ دور مغلیہ شاہی کا ہو یا دُرانی آمریت کا ،سکھا شاہی ہو یا ڈوگرہ راج ،یہاں کا ہر اعتبار سے غریب طبقہ ظلم و جبر اور قہر و استحصال کا ہمیشہ سے شکار رہا بلکہ موخرالذکر دو حکومتوں کے دوران انتہائی بے عزت و بے وقعت بھی رہا ۔آواز بلند کرنے یا احتجاج کرنے کا اُس میں یارانہ تھا کیونکہ جس کے پاس کھانے کے لئے روٹی اور تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا نہ ہو تو وہ انقلاب اور احتجاج کی بات سوچے گا یا اپنے آپ کو اور دانوں کے لئے ترستے اپنے بیوی بچوں کی زندگی بچانے کی فکر کرے گا ؟اس صورت حال میں اگرچہ وہ بے دست و پا تھا مگر اُس کے ذہن میں ہمیشہ ایک بدلے کی آگ بھڑکتی رہتی تھی ۔اس لئے ان حالات میں وہ انتقام تو نہ لے سکتا تھا مگر اُس آگ پر پانی ڈالنے کیلئے وہ استحصالی ظالم کوبرے ناموں سے یاد کرتا تھا کیونکہ وقتی طور پر اُس کے پاس انتقام کا یہی ایک ذریعہ تھا ۔حالانکہ اس طرح سے ہوتا کچھ بھی نہ تھا مگر اُس کو ایک طمانیت سی حاصل ہوجاتی تھی ،اُس کو ایک سکون سا ملتا تھا ،کیونکہ ؎
سحر نے زخم دئے شام نے نمک چھڑکا
اسی طرح میرے لیل و نہار گذرے ہیں
حفیظ ؔمیرٹھی
مختلف اشیاء کے علاوہ شخصیات کے ناموں کا وادی میں ایک منفرد مزاحیہ بلکہ مضحکہ خیز انداز بھی ہے ۔وہ یوں کہ ہم مختلف شخصیات کے اپنے خود ساختہ نام رکھتے ہیں ،مثال کے طور پر ڈوگرہ راج میں وادی کا پہلا بجلی گھر مہورہؔ اوڑی میں بنایا گیا تھا ۔ مخصوص وقت تک کے لئے ہر گھر میں ایک دو لیمپ جلانے کی اجازت ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ پُرانے گھروں یا مکانوں میں (اب اگر کوئی موجود رہا ہوگا ،یا ہوکر بھی اُس میں کوئی ایڈیشن یا آلٹریشن نہ ہوا ہو)کمرے کی دیوار میں سیلنگ کے پاس بہت تھوڑا سا شمع دان جیسا کٹاؤ ہوتا تھا ،وہاں پر بجلی کا بلب لٹکایا جاتا تھا جو بچت کی خاطر دوکمروں کو ہلکی سی ملجگی روشنی فراہم کرتا تھا ۔اس طرح کے انتظام سے بجلی کے اَرمان تو پورے ہوتے تھے مگر روشنی بس نام نہاد ہی ہوتی تھی ،اتنی کہ چراغ جلاکر لیمپ کو دیکھنا پڑتا تھا کہ بجھا ہے یا جل رہا ہے ۔
مہورہ ؔاوڑی والے اُس بجلی گھر کو ایک فرانسیسی انجینئر نے بروئے کار لانے میں کافی یوگ دان دیا تھا ۔وہ اپنی فیملی اور ساس کے ساتھ کشمیر نرسنگ ہوم سونہ وار سرینگر کے سامنے نشیب میں ایک بنگلہ نما خوبصورت ہَٹ میں قیام پذیر تھا ۔ذاتی طور پر تو میں نے اُس فیملی میں سے کسی کو نہیں دیکھا ہے ،البتہ گھر میں یہ باتیں ہوتی تھیں ۔ انجینئر صاحب کا نام ڈیگالؔ صاحب تھا اور اُن کی ساس کا نام میڈم والٹینؔ تھا ۔نام لینے کے لئے ہمارے ہم وطن حضرات انجینئر صاحب کو دیگُل(ہانڈی) صاحب اور اُن کی ساس کو والوالٹین بئڈِ(بُڑھیا) پکارتے تھے۔اسی طرح میڈم گراٹھؔ کو ’’گریٹہ‘‘(چکی) مٔل اور ٹینڈل بسکو کو ’’بِسکوٹ‘‘ صاحب کہا کرتے تھے ۔موجودہ زمانے میں گرچہ وادی میں مجموعی طور پر کچھ مادی ترقی ہوئی ہے مگر اس ترقی پذیر دور میں بھی ہم اپنی عادت کے مطابق ہی آگے بڑھتے ہیں۔نِک نیم (Nick name)رکھنا یا ناموں کا حلیہ بگاڑنا ہماری فطرت ثانیہ ہوکے رہ گئی ہے ۔جیساکہ پہلے ہی عرض کرچکا ہوںکہ اس وراثت میں ہمیں سابقہ سو سال کی خجالت ،ظلم و تعدی اور حقوق انسانی کے احترام سے خالی اُن ادوار کی تلخیاں ملتی ہیں جو ہم سہتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تھکا ہوا پراگندہ دماغ اور دباکچلا وجود کچھ نہ سہی کم از کم اپنا غصہ چھانٹنے کے لئے ظالم کو بُرے عرف و القاب سے یاد تو کرسکتا ہے اور یوں دل کی بھڑاس نکالنااُس کے اپنے حد اختیار میں ہوتا ہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر چڑھائی کی مگر اُسے جنگ میںناکام ہوکر واپس لاہوؔر لوٹنا پڑا ۔بعد میں پٹھان دور حکومت کے آخری برسوں میںایک کشمیری پنڈت بل کاکؔ در مہاراجہ سے لاؔہور میں جاکر ملا اور اُسے پھر سے کشمیر پرچڑھائی کرنے کی درخواست کی ۔یقینی کامیابی کا بھروسہ دلانے کے عوض اُس نے اپنے بیٹے راج کاؔک در کو لاہوؔر میں یرغمال رکھا۔بہر حال مہاراجہ رنجیت سنگھ نے حملہ کیا ،پٹھان حکومت سازشوں کی وجہ سے انتشار کی شکار تھی ،اس لئے مہاراجہ آسانی کے ساتھ کشمیر پر قابض ہوگیا ۔سکھ دؔور حکومت (1819-1846)میںکشمیری مسلمان کس طرح بے انتہا زیادتی اور مظالم سے روندا گیا ،وہ باتیں میں اپنی آشفتہ بیانی میں آگے ہی کئی بار عرض کرچکا ہوں اور اس وقت وہ موضوع بھی نہیں ہے ۔بہر حال اس وقت بتانا یہ مقصود ہے کہ مہاراجہ نے حکومت کا نظم و نسق سنبھالنے کے بعد یہاں کے لئے پہلا گورنر موتیؔ ؔرام مقرر کیا ۔لگ بھگ چھ سال کی گورنری کے بعد اُس کو تبدیل کرکے اُس کی جگہ سن 1825ء میں کرؔپا رام کو بحیثیت گورنر یہاں تعینات کیا گیا ۔کرپا رام کے لئے لارؔنس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ویلیؔ میں ایک چُھبتا ہوا جملہ تحریر کیا ہے کہ:
He was fond of Boating and Boat women۔ کہتے ہیں کہ کرپا راؔم ناؤ کھینے کے چپوؤں پر گھنگرو بندھواتا تھا اور ایک لمبی کشتی یا تفریحی ناؤ جسے پراندؔہ کہتے ہیں ،میں بیٹھ کر نالہ مار ؔ کی سیر کے لئے نکلا کرتا تھا ۔جب گھنگرو بندے چَپو ایک ساتھ اُٹھتے اور پانی کے ساتھ نبر آزما ہوتے تو اُس ساز و آہنگ سے ایک سماں بندھ جاتا ،اور پھٹے حال کشمیری مسلمان کناروں سے تالیاں پیٹا کرتے تھے۔
اب کشمیری حضرات اس عجیب آبی میوزیکل جلوس کو دیکھ کر کہاں چپ بیٹھنے والے تھے ،انہوں نے چپؤوں اور گھنگرؤں کی مناسبت سے گورنر صاحب کا نِک نیم ’’کرپہ شریُن‘‘ کردیا ۔ناموں کا حلیہ بگاڑنا،بُرے نام یا عرف رکھنے کے ساتھ ساتھ ہم اچھے بھلے اور پیارے ناموں کا بھی تیا پانچہ کردیتے ہیں۔ دینہ،کِشہ،تریہِ،اَمہ،مامَہ،گُلہ،لَسہ اور مُنہ وغیرہ انہی اچھے ناموں کا مخفف یا بگاڑی ہوئی صورت ہے۔پتہ نہیں یہ اختصار ہمیں کیوں اچھا لگتا ہے؟؟؟
مندرجہ بالا سطور لکھنے کا محرک وہ آسمانی ہدایات بنی ہیں جن کے مطابق کسی بنی آدم کے نام کا حلیہ بگاڑنا ،اس کو طنزیہ یا مزاحیہ القاب سے پکارنا اُس کے نام کی اصلی صورت بگاڑنا اور ہر وہ حرکت کرنا، جس میں مخاطب ،متکلم ،واحد یا جمع غائب کی بے عزتی مترشح ہو ،صریحاً منع و ناجائز ہے ۔اس ضمن میں یہ ہدایات اور یہ قدغن ہمیشہ اپنے ایمان کا جُز بنانے کی ضرورت ہے جس میں فرمایا گیا ہے یعنی بہ الفاظ قرآن حکیم(ترجمہ)اپنے لوگوں کی عیب جوئی مت کرو اور نہ دوسرے لوگوں کے نام دھرو یعنی عرف یا نِک نیم رکھو۔گویا کہ ان احکامات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نام رکھنا اور ناموں کا حلیہ بگاڑ کر دوسرے کو بے عزت کرنا ،عرفیت کے ساتھ پکارنا بہت بُری حرکت ہے ۔ایسا طبعاً مجھے بھی بُرا لگتا ہے بلکہ یہ ہم سب کو بُرا لگنا چاہئے۔اس لئے ہمیں اللہ رب العزت کی ناراضگی مول لے کر گناہوں کے مرتکب ہونے کی بجائے حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتے ہیں ؎
غیر کے پتھر کا شیشے پر نہ ہوگا کچھ اثر
پر تمہارے پھول سے یہ چُور ہوتا جائے گا
پرویز مانوسؔ
……………………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995