سرینگر//نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے، وہ پاکستان کا ہے، جو حصہ ہندوستان کے پاس ہے، وہ ہندوستان کا ہے، وہ جتنی جنگیں کرنا چاہتے ہیں، وہ کرسکتے ہیں لیکن یہ (حقیقت) نہیں بدلے گی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے، کشمیر ایک لینڈ لاکڈ (چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا) خطہ ہے اور اس کے تینوں پڑوسی چین، پاکستان اور ہندوستان ایٹم بم رکھتے ہیں اور کشمیریوں کے پاس اللہ کے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ فاروق عبداللہ نوائے صبح کمپلیکس میں یوتھ نیشنل کانفرنس، ضلع صدور اور اقلیتی سیل کے خالصہ عہدیداران کے اجلاس کے موقع پر نامہ نگاروں سے بات کررہے تھے۔انہوں نے وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہنس راج گنگا رام اہیر کا نام لئے بغیر انکے گذشتہ روز کے بیان کے رد عمل میں کہا’’کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے وہ انکا ہے اور یہ حصہ ہمارا ہے، حقیقت یہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ایک پاکستانی وزیرنے حقیقت کہی، آپ’ہندوستانی حکمران‘ بھول جاتے ہیں کہ جو حصہ آپکا ہے وہ ایک سمجھوتہ الحاق کی بدولت ممکن پایا، آپ الحاق کو بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حصہ ہمارا ہے،اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ حصہ ہمارا ہے تو الحاق کو بھی یاد رکھیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے کشمیری عوام کے حقوق پر شب خون مار کر ریاست سے اس کی اٹانومی (خودمختاری) چھین لی۔ فاروق نے کہا کہ کشمیر میں مکمل امن کی بحالی کے لئے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کے ساتھ بھی بات چیت کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل کشمیر کے دونوں حصوں کو اٹانومی دینے میں پنہاں ہے۔نیشنل کانفرنس صدر نے کشمیر کی مکمل آزادی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ’فاروق عبداللہ تو یہ کہتا ہے کہ آزادی کا معاملہ ہی نہیں ہے، ہم لوگ لینڈ لاکڈ (خشکی سے گھرے ہوئے) ہیں۔ ایک طرف سے چین، ایک طرف سے پاکستان اور ایک طرف سے ہندوستان ہے۔ تینوں کے پاس ایٹم بم ہیں۔ ہمارے پاس اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تو پھر یہ جو آزادی کی بات کرتے ہیں، غلط کرتے ہیں‘۔کشمیر سے متعلق حریت کانفرنس کے موقف کے بارے میں پوچھے جانے پر فاروق عبداللہ نے کہا ’حریت جانیں اور حریت کا کام جانیں۔ فاروق عبداللہ حریت میں نہیں ہے اور نہ میں حریت کے بارے میں کچھ کہہ سکتا ہوں‘۔انہوں نے کہا ’ہندوستان نے ہمارا بھروسہ توڑا، حکومت ہندوستان نے ہمارے آئینی و جمہوری حقوق پر شب خون مارا اور اْس محبت و خلوص کو نہ سمجھا جس کے تحت مہاراجہ نے ریاست کا یونین آف انڈیا کے ساتھ مشروط الحاق کیا اور یہی حالات و واقعات کشمیر کی موجودہ بحرانی کیفیت کی بنیادی وجہ ہے۔ آج جو یہاں مصیبت ہے، وہ اسی لئے ہے کہ انہوں نے کشمیری عوام کے حقوق پر شب خون مارا۔ ان کا کہنا تھا ’ہمیں امن کی فضا فراہم کرنے کے لئے دونوں ملکوں کو بات چیت کرنی پڑے گی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں بھی اٹانومی دی جائے اور یہاں بھی اٹانومی ہو‘۔ نیشنل کانفرنس صدر نے مرکزی حکومت کے ’کشمیر نمائندے‘ دنیشور شرما کے دورہ جموں وکشمیر کے بارے میں بتایا کہ حکومت ہندوستان کو کشمیریوں کیساتھ ساتھ پاکستان سے بھی بات چیت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا ’ان کا دورہ کامیاب رہا یا نہیں رہا، یہ تو شرما صاحب ہی کہہ سکتے ہیں۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مسئلہ دو ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے اور صرف اس طرح کی بات چیت سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہندوستان کی حکومت نہ صرف جموں وکشمیر کے عوام بلکہ پاکستان کی حکومت سے بھی بات چیت کرے۔ کیونکہ اس کشمیر کا ایک حصہ ان کے پاس بھی ہے‘۔انہوں نے اٹانومی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اندرونی خودمختاری ہمارا حق ہے، نئی دلی کو بغیر دیر کئے اسے بحال کرنا چاہئے، امن کی بحالی کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔