وقت یہ ثابت کررہاہے کہ پاک چین دوستی کوہ ہمالیہ سے بھی بلند ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی طرف سے اِس دوستی کو اِس مقام تک پہنچانے میں جس سچائی، مخلصی اور محبت کا مظاہرہ کیا گیا ہے شاید ہی اِس کی پوری دنیا میں کوئی مثال ہو۔23 مارچ 2017جمعرات کوپاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میںافواج پاکستان کی پریڈ میںتاریخ میں پہلی بارچین کا 90 رکنی فوجی دستہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا،افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے بری ،بحری اورفضائی فوجی دستے نے جہاں اس پریڈکاماحول گرمادیاوہیں بعض مبصرین کے مطابق یہ مشترکہ فوجی پریڈخطے میں مسئلہ کشمیرکوحل کرنے کاپیغام دے رہاتھا۔مبصرین کے مطابق اسے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی لہذااس کے پس منظرمیں بہت کچھ پنہاں ہے ۔مسئلہ کشمیراس خطے کاواحدایساسلگتاتنازع ہے کہ اگرپہلے ہی کی طرح اس اہم مسئلے کے حل سے نظریں چراکرمجرمانہ طرزعمل اختیارکیاتویہ اس خطے کاایک تباہ کن جنگ کاباعث بن سکتاہے ۔ اس تباہ کن جنگ میں ایک طرف بھارت ہوگااوردوسری طرف پاکستان اوراس کاتزویراتی حلیف چین ہونگے ۔سوال یہ ہے کہ وہ کونسے محرکات ہیں کہ مسئلہ کشمیرگذشتہ ستربرسوں سے حل نہیں ہوپارہاجبکہ اس کے حل کافارمولہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں طے شدہ ہے ۔ کتنابڑاالمیہ ہوگاکہ کشمیرجیساآسان مسئلہ حل نہ ہونے کے باعث اس قدرپیچیدہ بن چکاہے کہ ایسی تباہ کن جنگ کی وجہ بن رہاہے کہ جس جنگ کی خوفناکی کاکوئی اندازہ نہیںکرسکتاہے ۔
کیایہی دانشمندی کہلاتی ہے کہ کشمیریوں کاحق خودارادیت غصب کرکے خطے کے ہنستے بستے شہروں کے شہربستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹادیں جائیں یایہ پھراصل دانشمندی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداوں کوبنیادبناکرکشمیرکاتنازع حل کرکے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ اس خطے کے مکینوں کے چہروں پردائمی مسکراہٹیں بکھیریں جائیں۔بھارت سے شائع ہونے والے بڑے اخبارات پر کئی باربھارت کے مبصرین نے اس امرکی طرف واضح اشارہ کیاکہ اگربھارت اورپاکستان کے درمیان اب جنگ ہوجاتی ہے تویہ چومکھی جنگ ہوگی کیونکہ بھارت کوبیک وقت پاکستان اورچین سے مقابلہ ہوگاکیابھارت اس جنگ کامتحمل ہوسکتاہے ؟
چین جتناآج پاکستان کے قریب آچکاہے اوروہ جس طرح ہر موقع اور ہر مرحلے پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کاحق نبھارہاہے۔محتاج وضاحت نہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ پاک چین دوستی میں انقلاب کی حدیں قائم ہورہی ہیں۔چین دفاعی شعبے میں پاکستان کی بھرپور مدد کررہا ہے۔1984 میں پاکستان اور چین کے درمیان جوہری توانائی کے میدان میں تعاون کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں میں 2001 میں الخالد ٹینک ، 2007 میں لڑاکا طیارے جے ایف ۔ 17 تھنڈر ، 2008 میں ایف ۔ 22 پی فریگیٹ اور کے 8۔پی قراقرم جدید تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل ہے۔ دونوں ممالک کی افواج کئی مشترکہ فوجی مشقیں بھی کر چکی ہیں۔ جن میں سب سے 2016کے اواخرپر کراچی میںہونے والی فوجی مشق تھی۔ 2005 اور 2010 میں دکھ کی گھڑی میں چین نے پاکستان میں آئے ہوئے سیلاب اور زلزلے کی تباہ کاریوں کے مداوے کے لیے 247ملین ڈالرز کی امداد کی تھی۔10400میگاواٹ بجلی، 832 کلومیٹر شاہراں کی تعمیر، 1736 کلومیٹر ریلوے لائن کی تعمیر اور گوادر کی بندرگاہ پر متعدد ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبے شامل ہیں۔ چین نے اٹیم بم بنانے میں پاکستان کی دنیا کی تمام مخالفتوں کے باوجودپاکستان کے اس حق کو تسلیم کیا۔
چین اپنی جن پالیسیوں کوفالوکررہاہے اس کے تناظرمیں جنوبی ایشامیں’’پاک چین دوستی‘‘ کوایک شہکارکے طورپردیکھاجاتاہے۔۔سرزمین کشمیرپرکشمیریوں کونیست ونابودکرکے کلی طورپرکشمیرہڑپ کرنے کی بھارتی خواہش ہویادہشت گردی کے موضوع پر بھارتی تشریح و تفہیم یاپھرپاکستان کے مقابلے میں بھارتکانیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) میں شمولیت کاخواب، چین سینہ تان کاپاکستان کے ساتھ کھڑاہے اوربھارتی اقدامات کی متواتر مخالفت کرتا ہے۔ ان اہم ایشوز پر چین کے دو ٹوک موقف سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں کہیں پاکستان کے اہم مفادات کا سوال اٹھے گا چین پوری قوت اور ثابت قدمی کے ساتھ پاکستان کا ساتھ دے گا۔
پاکستان اور چین ایک دوسرے کے بڑے اتحادی ہیں۔ یہ اتحاد دفاعی پہلوئوں سمیت اقتصادی پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی بندھن اٹوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کاروباری تعلقات ہمیشہ نمود پذیر رہے ہیں۔پاکستان چین سے سرمایہ کاری حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ دونوں کے مابین 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے طے پا چکے ہیں اور آئندہ پانچ سالوں چین صرف توانائی کے منصوبوں میں 32ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ پاکستان کے چین سے بڑھتے تعلقات اور پاکستان کی خوشخالی و ترقی اس کے دشمنوں کے لیے کسی ڈرانے خواب سے کم نہیں۔ چین کا شمار دنیا کے ان مضبوط ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ جو اقتصادی حوالے سے مستحکم ہیں۔ جب کہ دوسری طرف پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ پاک چین باہمی رشتے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہر عہد میں پاکستان اور چین نے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے اقدامات کیے ہیں۔
گذشتہ برسوں میںکئی بارایساہواچین نے جموںوکشمیراوراروناچل پردیش کے شہریوں کوبھارتی باشندگان نہ مانتے ہوئے انہیں چین جانے کے لئے مروجہ ویزاکے طریقہ کارسے ہٹ کرایک سادہ سی پرچی پر،پرمٹ جاری کردئے تھے ،جس پربھارت نے واویلامچائی تھی جبکہ بھارت آزادکشمیرمیں چینی انجینئرزاورورکرزکوچین کی لبریشن آرمی سمجھتے ہوئے بھی چین سے شکوہ کنان ہے۔ چین سمجھتاہے کہ بھارتی قیادت اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں تغافل جاری رکھے گی تو اس مسئلے کے حل کی ضرورت ختم نہیں ہو جائے بلکہ کسی روز یہ لاوا زیادہ شدت کے ساتھ پھٹے گا اور پورے خطے کا امن دائو پر لگ جائے گا۔ دوسری طرف چین اور بھارت کے درمیان ارونا چل پردیش پر تنازع چل رہا ہے، چین کادوٹوک موقف ہے کہ ارونا چل پردیش کا 84 ہزار سات سوتنتالیس مربع کلومیٹر کا علاقہ تبت کا حصہ ہے۔اروناچل پردیش بھارت کے شمال مشرق میں واقع ہے۔اس کی سرحدیں جنوب میںبھارت کی دو ریاستوں آسام اور ناگالینڈ سے ملتی ہیں، جبکہ مغرب میں بھوٹان، مشرق میں میانمار اور شمال میں عوامی جمہوریہ چین سے جاملتی ہیں۔بھارت نے اس متازعہ علاقے کو 20 فروری 1987میں سلطنت بھارت میں شامل کردیاہے۔
23ستمبر 2014چین کے صدر شی جی پنگ کے بھارت کے دورے کے دوران بھی چینی فوجی جموں وکشمیرکے متنازع علاقے لداخ کی سرحد میں گھس آئے تھے۔اس پراس وقت کچھ اسٹریٹجک ماہرین کی رائے تھی کہ یہ دراندازی چین کے صدر شی جی پنگ کی خود کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ بھی سو سکتی ہے، تاکہ وہ بھارت کو اس کی حیثیت بتا سکیں اور یہ یاد دلاسکیں کہ بھارت اور چین کا تنازع برقرار ہے۔خیال رہے کہ چین اور بھارت کی تقریبا چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کا واضح طور پر تعین نہیں ہوا ہے اور سرحدی تنازعات نے ان1962 میں جنگ کی شکل بھی اختیار کر لی تھی۔ چین بھارت کااصل تنازع اروناچل پردیش اور جموں و کشمیر کے لداخ علاقے پر ہے۔ چین کا موقف ہے کہ اروناچل پردیش پر ہندوستان نے قبضہ کر رکھا ہے۔جب کہ لداخ کے حوالے سے چین کاموقف ہے کہ بھارت نے اس پربھی جبری قبضہ کیاہواہے۔بھارتی وزیراعظم مودی 2015میں ارونا چل پردیش کے دورے پرگئے اوروہاں ریلوے لائن کا افتتاح کیا اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ لگانے کا اعلان کیا تھا۔تواس پرچین نے سخت برہمی کااظہارکیا،چین کی وزارتِ خارجہ نے14فروری 2015 ہفتے کی شام کوبھارتی سفیر اشوک کنتھا کو طلب کیااور مودی کے اس دورے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ایسے دورے چین کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔بیجنگ نے نئی دہلی سے کہا ہے کہ وہ ایسا کوئی اقدام نہ کرے جو طرفہ تعلقات کو پیچیدہ بنا دے۔چین اور بھارت کے درمیان 1962 میں ایک مختصر مگر خونی لڑائی ہو چکی ہے۔دونوں ممالک نے 1996 میں لائن آف ایکچول کنٹرول کو تسلیم کرتے ہوئے اس تنازعے پر مذاکرات شروع کیے تھے۔1996 میں، دونوں ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں دونوں ممالک نے فوجی علاقے میں اعتماد بحال کرنے کے لیے ایل اے سی کے تعین کے عمل کو تیز کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اس معاہدے میں کہا گیا تھا، بھارت اور چین کو ایل اے سی کے تعین کے پہلے مرحلے میں ان حصوں پر کام کرنا ہے، جس میں دونوں کی مختلف رائے ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا نقشہ دینے پر بھی اتفاق کیا تھا۔لیکن ایسا ہوا نہیں 2003 میں بات چیت کرنے اور فیصلہ لینے کی ذمہ داری خصوصی نمائندوں کے حوالے کی گئی 11 سال اور 17 رائونڈ کی بات چیت کے بات بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا۔
بھارت افغانستان اورایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات استوارکررہاہے لیکن سوسنارکی ایک لوہارکی کے مصداق چائنا پاک اکنامک کاریڈور یا( CPAC)ہے جس کے تحت پاکستان کے راستے گوادر اور کاشغر کو ملانے کے لیے ریلوے لائنوں اور سڑکوں کا ایک جال بچھایا جارہاہے اور ایک صنعتی زون قائم کیاجارہاہے۔ یہ چین کا سب سے بڑا سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے اورپاکستان کی صنعتی تقدیربدلنے کایہ دیباچہ ہے۔ بنیادی طور پر اگرچہ یہ پاکستان اور چین کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ ہے لیکن اس کے علاقائی بلکہ عالمی پہلو بھی ہیں۔ اس کے ثمرات سے جنوبی ایشیا اوروسط ایشیائی ممالک کے علاوہ مغربی ایشیا بلکہ شمالی افریقہ کے ممالک بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس سب کے لئے خطے میں امن کے حالات کی ضرورت ہے اور خطے میں امن کو لاحق پا ک بھارت تصادم سے بڑھ کرکوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کوخطے میں کشمیرتنازعے کی موجودگی میں قیام امن پر تشویش لاحق ہے ۔اب بھی وقت ہے کہ چین ،پاکستان ،بھارت اورکشمیرکی مسلمہ قیادت ایک جگہ بیٹھ کرمسئلہ کشمیرکوحل کریں تاکہ اس خطے پراس خطے پرچھاجانے والے تباہی کے بادل چھٹ جائیں۔