عصر حاضر کا نظام تعلیم بے مقصدیت کی شکار ہے جس کی وجہ سے انسان ہر چیز کو مادیت اور پیٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اس نظام تعلیم کا مقصد زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا اور ڈگریوں کی حصولیابی کے بعد ملازمت حاصل کرنے تک محدود ہے ۔ اس نے انسان کو پیسے کمانے کی ایک مشین بنا دیا ہے ۔ غلامانہ ذہنیت حامل افراد اسی تعلیم سے پیدا ہورہے ہیں جن کے پاس نہ زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد ہوتا ہے اور نہ ہی دینی و ملی تقاضوں کا پاس و لحاظ ۔یہ نظام تعلیم نہ انسان کو ہمہ گیر شعور فراہم کرتا ہے نہ ہی یہ کسی قسم کی تربیت کا ذریعہ ہے ۔ عصر حاضر کا نظام تعلیم بر طانوی مفکر لارڈ میکاولے کے افکار ونظر یات پر مبنی ہے جو انتہائی ناقص نظام تعلیم کہلاتا ہے ۔ تنگ نظری ، مقامیت ، مادیت ،اخلاقی بے راہ روی اور عورت کا استحصال ، نوعمر وں میں بڑھتے ہوئے جرائم (Juvenile Delinquency)نیز خود کشی کے گراف میںاضا فہ ہونا اسی نظام تعلیم کی دین ہے اور تعلیم صر ف خواندگی (literacy)اور ہنر کا نام نہیں ہے اور نہ ہی یہ معلومات حاصل کرنے اور ڈگریوں کو جمع کرنے کا نام ہے بلکہ یہ خالق کائنات کی معرفت اور رضا حاصل کرنے کا نام ہے ۔
علمـــ کے معنی جاننا ، پہچاننا اور ادراک کے ہیں یا کسی چیز کو اس کی اصل حقیقت سے مکمل طور پر پالینے کانام ہے ۔ امام راغب الاصفہانی کے نزدیک علم کی تعریف یہ ہے :
العلم ادراک الشئی بحقیقتہ ، وذلک ضربان احدھما ادراک ذات الشئی والثانی الحکم علی الشئی بوجودی الشئی ھو موجود بہ او نفی شئی ھو منفی عنہ ۔(مفردات القرآن )
علم کسی شئے کی حقیقت کے ادراک کانام ہے اور یہ دو طرح ہے ایک ذات شئی کا ادراک دوسرے کسی چیزکوکسی دوسرے چیز کی موجودگی کے باعث حکم لگانا جو اس کے لیے موجود ہے یا اس کی نفی کرنا جو اس سے منفی ہے ۔
لیکن یہ معرفت اور ادراک انسان کو کون واقف کراسکتا ہے ۔ یہ عظیم کام ایک معلم یا استاد کا ہے ۔ معلمی کا پیشہ دنیا میں سب مقدس پیشہ ہے ۔ استاد کا کام نئی نسل کی ذہنی نشونماء اور اس کی اخلاقی تربیت کرنا ہوتا ہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب استاد نظریاتی طور سے لیس ہو ۔نظریاتی اساتذہ ہی اپنے قوم کا بھڑا پار کروا سکتے ہیں ۔ قوموں کی ترقی اور عروج بہترین نظام تعلیم اور نظریاتی اساتذہ پر منحصر کرتاہے ۔ ایک مشہور ماہر تعلیم سے پوچھا گیا آپ قوم کے مستقبل کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے ۔تو ان کا جواب تھا :
''show me its education system that i can tell you about its future ''
ترجمہ:’’مجھے اپناانظام تعلیم دکھاؤ کہ میں بتا سکتا ہوںکہ اس کامستقبل کیا ہوگا ‘‘۔
اس ماہر تعلیم کے اس سنہری بات پر میں یہ اضافہ کرنا چاہوںگا کہ نظام تعلیم کتنا بھی اچھا ہو لیکن اگر اس کو آگے بڑھانے اور موثر بنانے میں اچھے اورنظریاتی اساتذہ میسر نہ ہوں تو نظام تعلیم جمود اور بے اثر ہوکر رہے گا ۔ایک خوش حال، اخلاقی طور سے بلند اورصحت مند سماج صرف اسی صورت مین وجود میں آسکتا ہے جب اچھے اورنظریاتی استاد حاصل ہوجائیں ۔
نظام تعلیم میں استاد کا اتنا اہم کردار ہوتا ہے کہ وہ طلباء کو جس سانچے میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں ۔ اور جس سانچے میں چاہیں رنگ سکتے ہیں ۔ استاد اپنے شاگرد کو جس راستہ کی طرف رہنمائی کرے گا اور جو طریقہ بھی ان کو سکھا دے گا چاہے وہ طریقہ صحیح ہو یا برا، وہی طالب علم کے ذہن میں نقش ہو کر رہے گا ۔تعلیم کو موثر اور خدا رُخی بنانے (God Oriented) کی ذمہ داری استاد کے کندہوں پر ہوتا ہے ۔ کیوں کہ پورے نظام تعلیم کا مرکزی کردار استاد کی ہی ذات ہے ۔ وہ نئی نسل کی فکری اور اخلاقی تربیت اپنے خون جگر سے کرتا ہے اوریہ اس کا مشن بن جاتا ہے ۔ یہ مشن اس کی زندگی کا سب سے اہم فریضہ بن جاتا ہے ، اسی فریضہ کی تکمیل کے لئے اس کی تمام تر توانائیاں وقف ہوجاتی ہیں ۔ وہ اس کو تجارت ا ور پیشہ نہیں سمجھتا ہے بلکہ ایک مقدس فریضہ باور کرتا ہے ۔وہ اس فریضہ پر کوئی داغ دھبہ لگنے نہیں دیتا ہے بلکہ مسلسل خوب سے خوب تر اور فکری طور سے مضبوط سے مضبط تر بنانے میں مصروف رہتا ہے ۔ یہی وہ امتیاز ہے جو اسے نظریاتی طور سے کمزور اور پیشہ ور استاد سے ممیز کرتا ہے ۔ دونوں کی راہیں اور مقاصد جدا جدا ہیں۔ ملازم یا پیشہ ور استاد نہ صرف طلباء کو اخلاق و کردار کی تعمیر سے غافل رہتا ہے بلکہ وہ اس میں مادہ پرستی اور کیرئر ازم کا سوچ بھی پروان چڑھاتا ہے جب کہ نظریاتی استاد طلباء کو نہ صرف آداب فرزندی سکھاتا ہے اور ان کی فکر و سوچ کو صحیح سمت کی طرف لے جاتا ہے بلکہ وہ ان کو قوم و ملت کی اصلاح اور تعمیر کا ذریعہ بھی بناتا ہے ۔ وہ طلبہ کو صاحب کتاب بنانے، جیسا عظیم فریضہ سے غفلت نہیں برتا ہے ۔ علامہ اقبال کا یہ کہنا بالکل بجا ہے ؎
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
نظریاتی استاد یہی کام کرتا ہے کہ وہ طالب علم کو ــ’’ کتاب خوانی ‘‘سے نکال کر ’’ صاحب کتاب ‘‘ کی عظیم منزل تک پہنچادیتا ہے ۔ اسی استاد کی عظیم جستجو سے طالب علم مادیت، کیرئیر ازم اور ہوس پرستی سے محفوظ رہتا ہے ۔ وہ طالب علم کی زندگی کا اعلیٰ و ارفع مقصد متعین کرتا ہے ۔ اور ایک بامقصد زندگی جینے کا ہنر سکھاتا ہے اگر وہ ایسا کردار ادا نہیں کرتا تو طالب علم کی زندگی بکھر جاتی ہے ۔ امریکی مفکر راک فیلرنے صحیح طور لکھا تھا کہ’’ طلباء اپنی زندگی کا کوئی مفہوم و مقصد چاہتے ہیں اگر ان کا زمانہ ، ان کی ثقافت اور ان کے اساتذہ انہیں کوئی عظیم مقصد نہیں دے پاتے تو وہ اپنے لئے حقیر مقصد کا تعین از خود کر لیتے ہیں ‘‘ فرد کی تعمیر و تطہیر میں استاد کلیدی رول ادا کرتا ہے ۔وہ نہ صرف طالب علم کی شخصیت کو منور کرتا ہے بلکہ اس کے جذبات کو بھی صحیح رخ دیتا ہے ۔یہی وہ وہ استاد ہے جو طلباء کو فکری اور اخلاقی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے اور رُوح انسانی اس کی سب سے بڑی صنعت ہوتی ہے ۔ بقول علامہ اقبال ؎
شیخ ِمکتب ہے اک عمارت گر
اس کی صنعت ہے روح انسانی
ایک نظریاتی استاد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ چند بنیادی اور ہم سوالات کے جوابات فراہم کرتا ہے مثلا میں کون ہوں ؟میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ مجھے پیدا کرنے والا کون ہے ؟ مجھے دنیامیں کیوں بھیجا گیا؟اور مالک حقیقی مجھ سے کیا کام لینا چاہتا ہے ؟۔ خالق اور مخلوق کے در میا ن اور پھر مخلوق اور مخلوق کے مابین کیا تعلقات ہیں ؟ظاہر سی بات ہے کہ ان بنیادی سوالات کا جواب تعلیم وتربیت کے ذریعہ سے استاد ہی دے سکتا ہے ۔ اس کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ طلباء کو ذہنی نشونماء کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے تیسری خوبی یہ ہے کہ وہی قوم و ملت کو ایک اچھی اور بامقصد نسل فراہم کرسکتا ہے جو مستقبل میں ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نصابی کتب پڑھانے تک محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ طلباء میں روحانی اور اخلاقی خوبیاں پروان چڑھانے کے لئے بھی کوشاں رہتا ہے ۔ان ہی خوبیوں کی بدولت استاد عزت و احترام کا سب سے زیادہ حق دار ہوتا ہے صرف طلباء ہی نہیں بلکہ سماج کے ہر طبقہ پریہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ ایسے اساتذہ کا دل کی گیرائیوں سے عزت و توقیر کرے ۔امام ابو حنیفہ کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے استاد کے گھر کی طرف پاوں کر کے نہیں لیٹتے تھے۔ مشہور عربی شاعر احمد شوقی نے استاد کے مقام و مرتبہ کے بارے میں صحیح کہا تھا کہ استاد کے لئے کھڑے ہوجاو اور پورا پورا احترام کرو کیوں کہ معلم کا مقم رسول کے قریب قریب ہوتا ہے ۔امام شعبہ نے استاد کی عظمت کے بارے میں فرمایا کہ :
کل من سمعت منہ حدیثا ، فانا لہ عبد ( جامع بیان العلم و فضلہ،ص: ۵۱۲) ’’جس سے میں نے ایک حدیث پڑھی ہے ، وہ میرا آقا اور اور میں اس کا غلام ہوں ‘‘۔
استاد اور شاگرد کا رشتہ باب بیٹے جیسا ہوتا ہے ۔ استاد شاگرد کا روحانی باپ کہلاتا ہے کیوں کہ یہ رشتہ ہی ایسا ہے کہ یہ عزت و تکریم ، پاکیزگی اور تقدس سے مالا ہوتا ہے ۔ جس طرح سے ماں باپ اپنی اولاد کے لیے مخلص اور خیر خواہ ہوتے ہیں، اسی طرح ایک استاد بھی اپنے شاگردوں کے لیے نہایت مخلص اور خیر خواہ ہوتا ہے لیکن آج استاد اور شاگرد کے درمیان یہ مقدس رشتہ پامال ہوچکا ہے اب یہ رشتہ صرف پیسوں تک محدود رہا ہے ۔ نہ ہی استاد مربی ہونے کا رول ادا کر رہا ہے اور نہ ہی شاگرد عزت و تکریم کا فریضہ انجام دے رہا ہے ۔غرض کہ دونوں طرف سے کوتاہیاں ہو رہی ہیں ۔ ان کوتاہیوں کو قلع قمع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ فرد اور سماج دونوں کی اصل ضروریات کو پورا کرسکے ۔ مثالی استاد بننے کے لئے ضروری ہے کہ استاد فکری اور اخلاقی طور سے لیس ہو ۔ اگر آپ ایک لڑکے کو تربیت یافتہ بنائیں گے تو آپ صرف ایک لڑکے کو تربیت بنائیں گے اور اگر آپ ایک لڑکی کو تعلیم و تربیت کا انتظام کریں گے تو آپ ایک خاندان کو تعلیم و تربیت سے مزین کر سکتے ہیں اور اگر آپ ایک استاد کو تربیت یافتہ بنائیں گے تو گویا آپ قوم و ملت کے ایک بڑے حصہ کو اخلاق و تربیت سے مزین کر رہے ہیں ۔
آج ڈاکٹر رادھا کرشنن کی یوم پیدائش کے موقع پر یوم اساتذہ منایا جاتا ہے تاکہ استاد اور تدریس کا تقدس بحال ہوجائے نیز استادجس عزت و توقیر کا حق دار ہے اور اس کو یہ کیسے حاصل ہوجائے ؟ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس موقع پر ہمیں استاد کی شخصیت کا ایک جامع تعارف حاصل کر نے کے لئے جامعہ ملیہ ا سلامیہ کے بانی کار اور اولین وائس چانسلر جناب ڈاکٹر ذاکر حسین کے فکر وفلسفے سے بھی استفادہ کر نے کے لئے ان کے تعلیمی کارناموں اور تدریسی کاوشوں پر ایک گہری نگاہ ڈالنی چاہیے ۔
رابطہ؛9045105059