تیری بزم میں ابھی اور گُل کھلیںگے
اگر رنگ یار انِ محفل یہی ہے
امریکی سامراج کے سربراہ اور امریکہ کے صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلخلافہ قراردے کراور امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے منتقل کرکے یروشلم میںکھولنے کا قدم انتہائی اشتعال انگیز ، مفسدانہ اور شرانگیز ہی نہیں بلکہ جارحانہ، آمرانہ، جنگ بازارنہ، فرعون مزاجانہ اور انسانیت سوزانہ بھی ہے۔ اس لئے انتہائی قابل مذمت ہے۔ دُنیابھرمیں ٹرمپ کے اس ظالمانہ فیصلہ کے خلاف زبردست احتجاج ہواہے۔ عالم گیر سطح پر ساری دنیا میں اس کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے ہیں۔ جوکہ لگاتار جاری ہیں۔ عوامی سطح پر زبردست احتجاجی مظاہروں کے علاوہ کسی ایک ملک کی سرکار نے بھی ٹرمپ کے اس قدم کی حمایت نہیں کی بلکہ اسے رد کردیاہے۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے تمام ممبران نے ماسوائے امریکہ کے اس قدم کی مذمت کی ہے۔ امریکہ کے یوروپی اتحادیوں نے بھی اسے نامعقول قراردیاہے۔ خود اس کے اتحادی عرب ممالک کو بھی اس قدم کی تنقید کرنے پر مجبور ہونا پڑاہے۔ روس، چین ، فرانس، برطانیہ کی بڑی طاقتوں نے بھی اس قدم کو ناجائز قراردیا ہے۔ ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ یکاوتنہا ہوگیاہے۔ لیکن بایں ہمہ بے شرمی اور بے حیائی کی انتباء ہے کہ ٹرمپ اور امریکہ اس قدم سے پسپائی کے لئے تیار نہیں اور اس پر عملدرآمد کے لئے بضد ہیں۔
یروشلم جسے بیت المقدس بھی کہا جاتاہے۔ اہل اسلام کا قبلہ اول اور مکہ ومدینہ کے بعد سب سے مقدس مقام ہے۔ اسے ایک کٹر مذہبی صہیونی ریاست کا دارالخلافہ قراردینا انتہائی شر انگیز فتنہ پر درانہ فعل ہے۔ جس نے سارے عالم اسلام میں رنج والم کا ماحول پیدا کردیاہے اور جذبات کو مشتعل کردیاہے۔ ٹرمپ کا یہ فعل اس لئے انتہائی اشتعال انگیز ہے۔ ٹرمپ کے اس قدم نے سارے مشرق وسطیٰ میںخصوصی طورپر آگ لگانے کا کارنامہ انجام دیاہے اور ساری دُنیا میںتنائو اور ٹکرائو کی صورت حال پیدا کردی ہے۔
یروشلم فلسطین کامرکزی مقام ہے۔ سامراجی طاقتوں نے فلسطین میں یہودی صہیونی ریاست کا قیام عمل میںلاکر دُنیا عرب کی پیٹھ میں ایک خنجر گھونپا ہی تھا۔ جس کے باعث لاکھوں فلسطینی عربوں کو گھر بار چھوڑ کر مہاجرانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوناپڑا۔سالہا سال گزر جانے کے بعد ابھی تک فلسطینی عربوں کی حالت زار اُسی طرح قائم ہے۔ لیکن فلسطینی مجاہدین نے شکست تسلیم نہیںکی اور آزادپٹی وطن کے لئے بیش بہا ء قربانیاں دیں جوکہ حالیہ تحاریک آزادی میں ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ نتیجتاً آخر کار اگرچہ پورا فلسطین تو آزاد نہیں ہوسکا ور سامراجی طاقتوں کے بل بوتے پر اسرائیل کی صہیونی ریاست قائم رہی ہے۔ لیکن فلسطین کے ایک حصہ پر فلسطین کی الگ ریاست کے قیام کا فیصلہ لے لیا گیاتھا۔ یاسر عرفات کی رہنمائی میں فلسطین کی الگ ریاست کا قیام بھی عمل میںلایا گیا۔ لیکن ابھی تک اُسے باقاعدہ طورپر تسلیم نہیں کیاگیا۔ فلسطین کی الگ ریاست کے قیام کی فیصلہ میں اقوام متحدہ سمیت امریکہ بھی شامل ہے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ عالمی فیصلہ اور یقین دہانی کی روشنی میں فلسطینی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کیا جائے۔ لیکن سامراجی سازشوں کے تحت ابھی تک یہودی صہیونی ریاست کے دبائو کے تحت اس پرعمل درآمد نہیںکیا جارہاہے اور مجوزہ فلسطینی کے رقبہ میں بھی یہودی بستیاں بسائی جارہی ہیں۔ چہ جائیکہ عالمی فیصلہ کے مطابق باقاعدہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرکے جس میں مشرقی یروشلم میں اس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قائم کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے پر عمل کیا جاتا ۔ اب امریکی سامراج اور اس کا سربرائہ ٹرمپ یروشلم کواسرائیل کا دارالخلافہ قراردے کر نہ صرف یروشلم مکمل طورپر اسرائیل کے حوالے کررہاہے۔ بلکہ حسب عالمی وعدہ اور یقین دہانی کے باوجود فلسطینی ریاست کے الگ قیام کو بھی ناممکن بنارہاہے ۔ جوکہ سراسر ظالمانہ، جابرانہ اور آمرانہ فعل ہے۔ بلکہ مجوزہ فلسطینی ریاست جس میں محمود عباس کی سرکردگی میں فلسطینی انتظامیہ موجود ہے۔ اُسے بھی یہودی ریاست اسرائیل کے تابع رکھنے کی سازش ہے۔ جسے ہرگز قبول نہیں کیاجاسکتا۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ حسب عالمی فیصلہ اور وعدہ کے الگ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے اور یروشلم اُس کی راجدھانی قراردیاجائے۔ اقوام عالم کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ٹرمپ کو اپنا قدم واپس لینے پر مجبورکریں۔ بلکہ فوری طورپر یہ الگ فلسطینی ریاست کا آزادنہ وجود تسلیم کرکے یروشلم کو اُس کی راجدھانی قراردیں۔
ہندوستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطین کی جنگ آزادی اور عرب ممالک کی امریکی سامراج کے خلاف جدوجہدوں اور مزاحمت کی حمایت کی ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہندوستان کی موجودہ مودی سرکار نے ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کے فیصلہ پر خاموشی اختیار کررکھی ہے جوکہ درحقیقت درپردہ اس فیصلہ کی حمایت کے مترادف ہے۔ یہ ہندوستانی عوام کی خواہشات اور تمنائوں کے بلاشبہ برعکس ہے۔ ہندوستانی عوام کا فرض ہے کہ وہ اس رویہ کے خلاف احتجاج کریں اور مطالبہ کریں کہ مودی سرکار ٹرمپ سرکار کاآلہ ء کار بننے کی بجائے عالمی رائے عامہ کے ساتھ اپنی آواز ملاکر ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف عالمی احتجاج میںشمولیت اختیار کرے۔ ایسا دکھائی دیتاہے کہ ٹرمپ اور ٹرمپ کی امریکی انتظامیہ عالمی رائے عامہ کی پرواہ کئے بغیر خود سری کارویہ اختیار کرکے عالمی امن کو خطرے میںڈال رہی ہے۔ جس طرح ٹرمپ نے سات مسلم آبادی والے ممالک کے باشندوں پر ویزا کی پابندیاں عائد کی ہیں۔ جنہیں ابتداء میں کچھ امریکی عدالتوں نے کالعدم قراردے دیاتھا۔ لیکن اب امریکہ کی سپریم کورٹ نے انہیں قبولیت بخش دی ہے۔ جس طرح ماحولیات کے متعلق بین الاقوامی فیصلوں کو برلن کانفرنس میں ٹرمپ نے قبول کرنے سے انکار کردیاہے۔ جس طرح عالمی تجارتی تعلقات کو پس پردہ پشت ڈال کر ٹرمپ نے میکسکو کی سرحد پر دیواربندی کافیصلہ کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مزعون مزاج ٹرمپ کو عالمی رائے عامہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ایران کے ساتھ امریکہ سمیت یوروپی ممالک کے معاہدہ جس میںایٹم بم نہ بنانے کی ایران کی یقین دہانی کے بعد ایران کے خلاف تمام پابندیاں ختم کرنے کا معاہدہ کیا گیاتھا۔ کو ٹرمپ کی طرف سے یکطرفہ طورپر ختم کرنے کے اعلانات سے ظاہر ہوتاہے کہ ٹرمپ نہ صرف خود سر بلکہ ناقابل اعتبار بھی ہے جوکہ معاہدوں کی پابندی سے بھی مُنکر ہے۔
ٹرمپ نے جس طرح شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ معاملات طے کرنے کی بجائے خالص جنگجوآنہ رویہ اختیار کرکے مشرق بعید میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو قریب تر لادیاہے وہ واضح طورپر اس کی خردماغی کی نشاندہی کرتاہے۔ جس طرح ٹرمپ نے کچھ عرب ممالک کے ساتھ مل کر ایران کوگھیرنے اور ایران کے خلاف محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کرنے کا رویہ اپنایاہے اور ایران کو مدافعت کے لئے ایٹم بم بنانے پر مجبور کررہاہے۔ اُس سے ٹرمپ انتظامیہ کی جارحانہ فطرت کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔
جس طرح ٹرمپ انتظامیہ مشرق وسطیٰ میں شیعہ سُنی تضادات کو ہوا دے رہی ہے۔ لبنان میںحزب اللہ کے خلاف کاروائی کا منصوبہ بنارہی ہے۔ اسرائیل کے ذریعہ شام کے علاقوں پر بمباری کررہی ہے۔ اُس سے بھی ٹرمپ کی جنگجوآنہ پالیسی کا بخوبی اظہار ہوتاہے۔
جس طرح بحرئہ جنوبی چین کے سلسلہ میں معاملات بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی بجائے پیسیفک ریجن کے تجارتی معاہدہ کے نام پر امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا اور ہندوستان کامحاذ بنایاہے۔ جو بعدازاں جنگی معاہدہ میں بھی تبدیل ہوسکتاہے۔ اُس سے ٹرمپ کے جارحانہ عزائم کابخوبی اندازہ ہوجاناہے۔
تمام تر واقعات سے ظاہر ہے کہ ٹرمپ ایک جارحانہ جنگجوآنہ جابرانہ، مزعون مزاجانہ، خود سری کی پالیسی پر گامزن ہے اوردُنیا کے ہر خطہ میں بدامنی پھیلانے پر کمر بستہ ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوںکی وجہ سے دُنیا کے کسی بھی خطہ میں بدامنی پیدا ہوسکتی ہے اور کسی بھی خطہ میں جنگ آزمائی کی صورت حال نمودار ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ جیسے مزعون مزاج، بددماغ اور طاقت کے نشے میں سرشار شخص سے کچھ کرگزرنے کے عزائم کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اس لئے کوئی اندازہ لگانا کہ یہ ناقابل یقین کیا گُل کھلاتاہے۔ وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتاہے کہ اُس کی پالیسیوں سے دُنیا کے تمام خطوں میں فتنہ، فساد ، جنگ بازی کا خطرہ بدرجہ اُتم موجود ہے۔یہ دُرست ہے کہ دُنیا کے مختلف ممالک میں طاقتوں کے توازن کے پیش نظر ٹرمپ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کوکامیابی نصیب نہیںہوسکتی۔ لیکن اُس کی پالیسیوں سے عالمی امن و امان کو خطرہ ضرور درپیش ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قراردے کر اورا س کی راجدھانی میں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا قدم اُٹھا کر ٹرمپ نے دیگر خطوں کی طرح مشرق وسطیٰ کے خطہ میں بھی امن وامان کو خطرہ پیدا کرکے اس خطہ کوجنگ بازی کی لپیٹ میں لانے کا مفسد کیاہے۔ اس لئے دُنیا بھر کے ممالک اور عالمی رائے عاملہ کافرض ہے کہ وہ رائے عامہ کادبائو استعمال کرکے ٹرمپ کو یروشلم کے متعلق ناعاقبت اندیشا نہ قدم کو واپس لینے پرمجبور کرکے دیگر خود سری اور خردماغی کے فیصلوں پر بندش بھی لگائے۔