اب یہ بات تسلیم نہ کرنا بہت بڑی نادانی ہوگی کہ دنیا ایک ایسی تبدیلی کے آخری پڑاو پر آپہنچی ہے جہاں خوشحالی ، ترقی اور سکون کے تمام افکار کی موت یقینی ہے۔یہ بات کہنا ایسے وقت قدرے عجیب معلوم ہوگا جب انسان ترقی کی حیرت انگیزبلندیوںکو چھورہا ہے ۔ اس نے ستاروں پر کمندیںڈال دی ہیں اور قدرت کے راز اس پر افشاء ہورہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ترقی کے ہر زینے پر اپنی ہلاکت کے سامان بھی نصب کررہا ہے ۔جہاں وہ انسانی سینے میں مصنوعی دل لگا کر اس کی یقینی موت کو زندگی میں تبدیل کررہا ہے وہیں وہ اجتماعی ہلاکت کے ایسے سامان بھی بنارہا ہے جو قدرت کی بنائی اس سرزمین کو برباد کرنے کیلئے کافی ہیں ۔یہ اس موضوع کا ایک پہلو ہے جس پر ہم بات کرنے جارہے ہیں۔
اس کا دوسرا پہلو انسانی آبادی کے وہ تضادات ہیں جو رفتہ رفتہ ہمہ گیر اُلجھاؤ اور ٹکراو کے میدان تیار کررہے ہیں اور ڈونالڈ ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے کے اعلان کے بعد یہ فیصلہ کن موڑ اختیار کرچکے ہیں ۔ یہ فیصلہ ُامت کے پیٹ میں ایک اور خنجر گھونپے جانے کے مترادف ہے لیکن ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں کہ یہ اُمت اس فیصلے کے خلاف اٹھ کھڑی ہوگی ۔یہ ایک تلخ صداقت ہے کہ وہ مزاحمت کی کوئی اہلیت نہیں رکھتی اور اس کا ثبوت اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس اعلان کے بعد روایتی احتجاجوں ،عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کے مذمتی اجلاسوں اور اٹھاون مسلم ملکوں کے چند قائدین کے قابل ذکر بیانات کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوا ۔
یہ اس صورتحال سے بھی زیادہ مایوس کن ہے جو اسرائیل کے قیام کے وقت دیکھنے میں آئی ۔اُس وقت سعودی عرب سمیت کئی ملکوں نے بہت سخت سٹینڈ لیا تھا اور کچھ ہی عرصے کے بعد اسرائیل کے خلاف ایک جنگ بھی لڑی گئی جو بری طرح سے ہاری گئی ۔ بے آب و گیاہ زمین کی ایک چھوٹی سی نوزائد ریاست نے طاقتور عرب ملکوں کے چھکے چھڑا کر رکھ دئیے ۔شکست خوردہ قوموں نے اس کے لئے یہ جواز پیش کیا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ جیسی عالمی طاقتیں تھیں ۔ اس جواز میں یقینی طور صداقت ہے لیکن جنگ ان طاقتوں نے نہیں خود اسرائیل کی فوجوں نے ہی لڑی ۔ اور اگر اسرائیل کے پاس ان کے دئیے ہوئے ہتھیار تھے تو کئی عرب ملکوں کے پاس سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کے ہتھیار بھی تھے ۔آج سوویت یونین باقی نہیں اور کئی عرب ممالک خود انہی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہیں جو اسرائیل کے تحفظ کے اعلانیہ ضامن ہیں ۔
اس لئے اُمتِ مسلمہ عظیم اسرائیل کے قیام کے منصوبے کی اس فیصلہ کن پہل کیلئے کوئی رُکاوٹ ثابت نہیں ہوسکتی ہے جس کا خواب یہودیوں نے اُس وقت دیکھا تھا جب ان کے پاس کوئی وطن نہیں تھا اور ہٹلر ان کی نسلوں کابے دردی کے ساتھ خاتمہ کررہا تھا ۔زندہ قومیں اپنی بربادیوں کے ملبے پر ہی عظمتوں کے مینار تعمیر کرتی ہیں۔اور یہ بات یہودیوں نے ان تمام قوموں پر ثابت کردی ہے جو اپنے ماضی کی عظمتوں کو سینے سے لگائے مستقبل کے خواب دیکھ رہی ہیں ۔ایک بڑا فرق جس کو سمجھنے کی کوشش نہیںکی جارہی ہے یہ ہے کہ کبھی کسی نے نہیں سنا کہ کسی یہودی نے اپنے دشمن کیخلاف کچھ بولا ۔وہ کبھی یہ شکایت بھی نہیں کرتے کہ کوئی ان کیخلاف سازشیں کررہا ہے ۔وہ دوسروں پر الزام دھرنے کے بجائے خود اپنا احتساب کرتے ہیں۔ اپنی خامیوں کو تلاش کرتے ہیں اور انہیں دور کرکے اپنے منصوبوں کی تکمیل میں محو ہیں ۔ ان کے عبادت خانوں میںیہودیت کے نفاذ کا کوئی شور نہیں ہوتا ۔ان کے کوئی غیر سرکاری عسکری محاذ نہیں ۔ وہ دنیا سے الگ تھلگ اپنے بے آب و گیاہ ملک کو اپنی علمی صلاحیتوں سے سبزہ زار بنارہے ہیں ۔ نئی نئی ایجادات کررہے ہیں اور انہی کے بل پر دنیا کو اپنے تابع بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں ۔ان کے مذہب اور تہذیب کی بنیاد علم کا حصول ہے اور ان کا یہ رویہ ہی ان کی کامیابیوں کی منزلیں متعین کررہا ہے۔امریکہ ان کے لئے کچھ نہیں کررہا ہے وہ امریکہ سے سب کچھ کرارہے ہیں ۔ دنیا کے اقتصادی نظام پر ان کا نفوذہے ۔ میڈیا پر ان کی بالادستی ہے ۔ بین الاقوامی سیاست کی تبدیلیوں میں ان کا درپردہ ہاتھ ہے اس لئے ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ۔لیکن وہ ایسی تمام قوموں جن کے عزم و اردے نے دنیا کو مسخر کرکے رکھ دیا کی طرح ہی ایک بات کو فراموش کرنے کی غلطی کررہے ہیں کہ فطرت کے اپنے اٹل اصول ہیں جو کسی تہذیب ، کسی قوم اور کسی گروہ کو عالم انسانیت کے ازلی و ابدی نظام کو الٹ پلٹ کردینے کی اجازت نہیں دیتے ۔
ہٹلر نے اپنے عزم مصمم سے پہلی جنگ عظیم کی ایک شکست خوردہ قوم کو اس قابل بنادیا کہ وہ دنیا کو مسخر کرنے کے خواب دیکھنے لگی لیکن یہی خواب اس کی تمام تر کامیابیوں کو ملیامیٹ کرنے کا باعث بھی بنا۔یہودی بھی کامیابیوں کے سفر طے کرتے کرتے عالم انسانیت کیخلاف جارحانہ عزائم کو اپنے اہداف کاحصہ بناچکے ہیں ۔ یہی وہ سوچ ہے جو ان کی تمام کامیابیوں کے ساتھ ان کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی برباد کرنے کے ساماں کررہی ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان نے امت مسلمہ سے زیادہ سخت ردعمل غیر مسلم دنیا میں پیدا کیا ۔امریکہ جیسی عالمی قوت کے اپنے ہی اتحادی اس کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں ۔ یہ صورتحال روایتی صف آرائیوں کی جگہ نئی صف آرائیوں کی تنظیم کے لئے زمین تیار کرنے لگی ہے ۔
عالم عرب کے پاس اب بھی ایسے بے پناہ وسائل ہیں جن پر ہر عالمی قوت کی نگاہ ہے ۔سوویت یونین اورچین بڑی قوتیں بن کر ابھر رہی ہیں اور ہر میدان میں امریکہ کے ساتھ مقابلہ کررہی ہے اور امریکہ کا یہ اعلان ان کے لئے ہی سب سے بڑا چلینج ہے ۔ اس لئے اس بات کے امکانات زیادہ روشن ہوچکے ہیں کہ عالم عرب نئی معرکہ آرائیوں کا میدان بن جائے گا اور دنیا میں قوموں کی نئی صف آرائیوں کا آغاز ہوگا جو جلد ہی ٹکراو کے لامتناہی سلسلوں میں تبدیل ہوگا اور یقینی طور اس سے زیادہ بدتر حالات جنم لیں گے جو دوسری عالمی جنگ سے پہلے پیدا ہوئے تھے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب دنیا میں فلسطین کے مسئلے کے سوا عالمی ٹکراو کا کوئی قابل ذکر مسئلہ موجود نہیں تھا اور دنیا رفتہ رفتہ امن اور سکون کی طرف لوٹ رہی تھی افغانستان میں سوویت یونین کے داخلے نے عالمی ٹکراو کی بنا رکھی ۔سوویت یونین کے اس جارحانہ اپروچ نے فطرت کو ایک بار پھر اپنے انسانی نظام کے تحفظ کیلئے متحرک کیا اور سوویت یونین کے یہی عزائم اسے ایک عالمی قوت کے مقام سے گرانے کا باعث ہوئے لیکن امریکہ اوریہودی لابی اس معرکے میں عظیم تر اسرائیل کے خواب کی تعبیر تلاش کررہے تھے ۔اس جنگ میں امریکہ نے اسلام کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جو نہ صرف کمیونزم کی قبر کھودنے کا سب سے موثر ہتھیار تھا بلکہ خود مسلمانوں کے اندر افتراق اور انتشار پیدا کرنے کا بھی موثر ذریعہ تھا ۔
سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکہ اپنی فوجوں کے ساتھ افغانستان میں بھی داخل ہوا ۔ عراق میں بھی ، لیبیا میں بھی اور شام میں بھی ۔ داعش اور القاعدہ جیسی قوتیں ابھریں جنہوں نے سعودی عرب کو بھی عدم تحفظ کے احساس سے دوچار کردیا چنانچہ اپنے تحفظ کیلئے عرب امریکہ کے اور زیادہ قریب آگئے اسی صورتحال نے امریکہ کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے ۔بلاشبہ سعودی عرب کا ولی عہد اس منصوبے میں امریکہ کے ساتھ ہے ۔ کئی اور عرب ممالک کا بھی اسے ساتھ حاصل ہے ۔ اور ایران جو علامتی طور پر اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ہے بھی دفاعی پوزیشن لے رہا ہے ۔حالات پوری طرح سے اسرائیلی منصوبوں کی تکمیل کے لئے موافق تر نظر آرہے ہیں لیکن خاموش سطح کے نیچے کئی طوفان تلملارہے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بھیانک رخ اختیار کریں گے اور دنیا ہمہ گیر ٹکراؤ کی لپیٹ میں آجائے گی اورجزیرۃ العرب میں انتشار اور افراتفری کے نئے بھنور اُبھر یں گے ۔ فوجی اور سیاسی اتحادوں کی نئی صورت سامنے آئے گی ۔ یورپ میں بھی نئے اتحاد اُبھریں گے اور نئے ٹکراو بھی پیدا ہوں گے ۔ اس طرح بے چینی اور بے اطمینانی کی لہریں عالم انسانیت کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھدیں گی۔ عجب نہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے تیسری جنگ عظیم کا بگل بھی بج جائے اور آن ِواحد میں دنیا کا خاتمہ ہوجائے ۔ایسا نہ ہوا تب بھی انسانوں کے لئے یہ دنیا اس وقت تک جہنم سے کم اذیت ناک نہیں ہوگی جب تک نہ اسرائیل کے عروج کا عمل رُک جائے اور عربوں کے اندر اس کا مقابلہ کرنے کی غیرت اور قوت پیدا ہوجائے یا امریکہ واحد عالمی طاقت کا منصب کھودے ۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر