پتھرائو اور ہڑتالوں کی سیاست ختم، دفعہ 370ہٹانے کا مقصد تقریباً پورا
اسمبلی چنائو نئی ووٹر فہرستوں کے مطابق، ریاستی درجہ بحالی اسکے بعد
سرینگر// جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہنا ہے کہ میر واعظ عمر فاروق کو نظر بند نہیں رکھا گیا ہے، وہ اپنے گھر پر ہیں اور وہاں سیکیورٹی فورسز کو ان کی حفاظت کیلئے تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 370ہٹانے کا مقصد کافی حد تک حاصل کیا جاچکا ہے، اب وادی میں ہڑتال اور پتھرائو کی سیاست ختم ہوگئی ہے، نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی فکر ہے،جس کا اندازہ ’ہر گھر ترنگا مہم‘ سے لگایا جاسکتا ہے، جس نے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کیساتھ بات کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا نہ کرنی چاہیے۔
میر واعظ کی نظر بندی
بی بی سی ہندی کیساتھ ایک انٹرویو کے دوران منوج سنہا نے کہا ،’’ میر واعظ عمر فاروق کو گھر میں نظر بند نہیں رکھا گیا ہے، ان کے ارد گرد پولیس کو اس لئے تعینات رکھا گیا ہے تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے’’۔اْنہوں نے مزید کہا،’’2019میں بھی ان پر پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) نہیں لگایا گیا تھا، وہ نظر بند نہیں ہیں، اْنہیں طے کرنا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں ‘‘۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ اْن کے والد کو بھی بدقسمتی سے قتل کر دیا گیا تھا، پولیس ان کے ارد گر رکھی گئی ہے تاکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے،انہیں خود فیصلہ کرنے دیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، وہ نہ تو قید ہیں اور نہ ہی گھر میں نظر بند ہیں، اْن کے گھر پر کوئی سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں ہے، وہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا’’ ان پرکوئی قدغن نہیں ہے، کوئی پابندی نہیں، کہیں نہیں روکا گیا ہے،پہلے کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں، کئی بڑی ہلاکتیں ہوئی ہیں، جو ملی ٹینٹوں نے کی اور آئی ایس آئی کے کہنے پر الزام بھارت پر لگایا گیا،میں سمجھتا ہوں کہ کہیں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے،سیکورٹی فورسز انکے آس پاس رہتی ہے،انکے گھر میں نہیں بلکہ اس ائریا میں کہ اگر وہ نکلیں تو انکی حفاظت کو یقینی بنایا جائے‘‘۔
دفعہ 370ہٹانے کا مقصد
لیفٹیننٹ گورنر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں ذمہ داری کیساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ جس مقصد کو سامنے رکھ کر 3سال قبل اس قانون کو ختم کیا گیا، بہت حد تک اسے حاصل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا’’ہم کو معلوم ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ جو قانون بناتی تھی، کئی قوانین میں لکھا جاتا تھا کہ یہ جموں کشمیر میں لاگو نہیںہونگے، اور اس کا فائدہ جموں کشمیر کے عوام کو نہیں مل رہا تھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلا فائدہ یہ ہوا کہ 890کے قریب ایسے قوانین ہیں جو جموں کشمیر پر براہ راست لاگو ہوئے،دوسرا مقصد یہ تھا کہ جموں کشمیرپوری طرح سے ضم ہوجائے جس میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ صورتحال بدل گئی ہے،ہر گھر ترنگا مہم کے دوران حال ہی میں صرف وادی کشمیر میں17لاکھ مقامات پر ترنگا لہرایا گیا اور ان میں6لاکھ30ہزار کے قریب گھرشامل ہیں ، جہاں ترنگا لہرایا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہماری توجہ یہاں ریونیو کیسے بڑھایا جائے، پر مرکوز ہے اور، آئندہ 5برسوں میںیہ دوگنا ہوجائیگا، جسکی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ سیکورٹی ایجنسیوں میں تال میل بہت بہتر ہے، امن کے حصول کی خاطر90فیصد کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔اب وزیر اعظم کی سربراہی والی مرکزی حکومت یا انکی ہدایت پر چلنے والی جموں کشمیر کی انتظامیہ امن خریدنے میں نہیں بلکہ امن قائم کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ماحو ل جلد از جلد پیدا ہوسکے جہاں امن خریدنے کی نہیں بلکہ اسے قائم کرنے کی ضرورت ہو۔
اسمبلی چنائو
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ عوامی سرکار صرف یہ نہیں اسمبلی چنائو ہوں،20ہزار عوامی نمائندے 22ہزار کروڑ کی منصوبہ بندی کریں تاکہ ترقی کے کام ہوں وہ بھی عوامی راج ہے۔انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں 8 فیصد یا دس فیصد شرح کے حساب سے ووٹ ڈالے جاتے تھے، وہاں مرد و خواتین نے 80فیصد ووٹ ڈالے۔پنچ، سر پنچ، ڈی ڈی سی، بی ڈی سی، بلدیاتی اداروں کے نمائندے و چیر پرسن تو وہ بھی تو عوامی نمائندے ہیں۔انہوں نے کہا’’ہاں اسمبلی چنائو خصوصی ہیں، اسکے لئے وزیرداخلہ نے لوک سبھا میں وعدہ کیا ہے کہ پہلے حد بندی، اسکے بعد چنائو اور بعد میں ریاستی درجہ کی بحالی‘‘۔انہوں نے کہا کہ حد بندی کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور اب چنائو کن ووٹر فہرستوں پر کرایا جائے، اس پر کام ہورہا ہے۔انکا کہنا تھا کہ اب چنائو نئے ووٹر فہرستوں کے مطابق ہونگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں جمہوررہت ہے اور یہاں انتخابات متعلقہ اداروں کی جانب سے ہی کرائے جاتے ہیں۔یہ کام چنائو کمیشن کا ہے جب سارا کام مکمل ہو توچنائو کمیشن مناسب وقت پر انتخابات کرائے گا۔
پتھرائو اور ہڑتال
ایک اور سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ گورنر نے کہایہاں کے نوجوان سمجھ گئے ہیں وہ اڑان بھرنا چاہتے ہیں، ہاں ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو پاکستان کے اشارے پر چلتا ہے،اس طرح کی حرکتیں بھی کرتے ہیں اور میڈیا کو گمراہ بھی کرتے ہیں کہ پتھرائو اور ہڑتال یا خوف کی وجہ سے نہیں ہورہا ہے۔انہوں نے کہا’’میں ذمہ داری کیساتھ کہتا ہوں کہ کوئی بھی سیاسی کارکن جیل میں ہے اور نہ حراست میں‘‘۔انہوں نے کہا’’اگر کوئی ملی ٹینسی سے وابستہ ہے، ملک کیلئے خطرہ ہو تو وہ مجرم ہے اور جیل مجرموں کیلئے ہی بنی ہے،لیکن کوئی بھی سیاسی ، مذہبی یا سماجی لیڈر جیل میں بند نہیں رکھا گیا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ یہ پتھرائو، یہ ہڑٹال کالیں، پاکستان سے آتی تھیں، لیکن صورتحال تبدیل ہوئی ہے، وہ زمانہ اب ختم ہوچکا ہے۔ خرم پرویز کے حوالے سے انسانی حقوق کارکنوں پرلگام کسنے کیلئے انکی گرفتاریاں عمل میں لانے کے بارے میں انہوں نے کہا کہسیاست کے نام جو ملک دشمنی کا کام کرتے ہوں، انسانی حقوق کے نام پرآئی ایس آئی کے لئے کام کرتے ہوں، انکے لئے قانون کیسے چپ رہے۔انہوں نے کہا کہ خرم پرویز کیخلاف این آئی اے نے چارج شیٹ پیش کی ہے۔عدالت موجود ہے اگر کچھ غلط ہوا ہے تو عدالت دیکھے گی۔
زمینوں کے مالکانہ حقوق
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آزاد ہندوستان میں جموں کشمیر سمیت پہاڑی ریاستوں کیلئے کچھ قوانین بنائے گئے ہیں۔زمیں کسان کے پاس رہے اسکی ضمانت رکھی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی کارخانے لگانے کی گنجائش رکھی گئی ہے، کہ بڑے سرمایہ دار اگر کوئی انڈسٹری لگانہ چاہتے ہوں تو حکومت اہیں اراضی مہیا کی جاسکے۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر سرکار کو ابھی تک56000کروڑ سرمایہ کاری کی تجاویز آئی ہیں۔ CMIکی تازہ رپورٹ، جس میں جموں کشمیر کو 22فیصدبیروزگاری کی شرح کے ساتھ پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے، کے بارے میں انہوں نے کہا’’ میں سی ایم آئی کی رپورٹ پر کوئی رد عمل نہیں دوں گا، لیکن ابھی تک ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہار جیسی ریاست کے مقابلے میں جموں کشمیر میں سرکاری ملازمتیں سب سے زیادہ ہیں۔
پنڈتوں کی ہلاکتیں
انہوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ کچھ پنڈتوں کی ہلاکتیں ہوئیںلیکن انکے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں۔ملی ٹینٹوں کے حملوں کو کسی مذہب کے آئینے میں نہیں دیکھنا چاہیے،10پندرہ سال میں ٹارگیٹیڈ کلنگ کتنی ہوئی وہ بھی دیکھیں،کشمیری مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہاں ملی ٹینٹوں کیخلاف کارروائیوں میںپچھلے تین برسوں میں کوئی بے گناہ نہیں مارا گیا، یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کی باز آبادی کاری کیلئے بھارت سرکار وعدہ بند ہے۔پہلے ایک پالیسی بنائی گئی تھی،اور اسی پالیسی کے تحت 6ہزار کو نوکری دی گئی۔ایک ہزار مکان دے رہے ہیں، 5ہزار مزید بنائے جائیں گے،لیکن نوکری اور مکان دینے سے انکی آبادکاری مکمل نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ 1997میں یہاں کی چنی ہوئی سرکار نے ایک قانون بنایا تھا کہ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کی اراضی پر زبردستی قبضہ کیا ہویا انہیں زمین فروخت کرنے پر مجبور کیا ہو اس پر کارروائی کی جائے، لیکن ایک بھی کارروائی نہیں ہوئی۔ہم نے پچھلے سال ایک پورٹل متعارف کرایا،8ہزار شکایتیں آئیں، 6ہزار کو حل کیا گیااور2400کنال اراضی واگذار کی گئی۔
نوکری سے برخاستگی
ایل جی نے اس معاملہ پر کہا کہ صدر جمہوریہ کے پاس آئین کی311 کے تحت اختیار ہے، جو مجھے بھی ہے، کیونکہ یہاں صدر راج ہے، جس میںبنا کسی نوٹس کے کسی بھی شخص کو، جو ملک کے خلاف کام کررہا ہو، نوکری سے برخاست کیا جائے، اسی اختیار کا استعمال ہم نے کیا۔ انہوں نے تاہم کہا کہ جو لوگ نکالے گئے، وہ ملک کے خلاف کام کررہے تھے، انکے خلاف باضابطہ ثبوت موجود ہیں، کسی بے گناہ کو نہیں نکالا گیا اور آئندہ بھی نکالے جائیں گے۔