نوٹ :حاجی محمد احمد اندرابی مرحوم کلچرل اکادمی کے اردو جریدہ ’’شیرازہ ‘‘کے مدیر تھے ۔ دل نواز شخصیت اور طبعاً کم گفتاری کے مجسمہ محمداحمد صاحب علم وادب کے شہسوار تھے۔ دوسال قبل فریضۂ حج ادا کر کے گھر لوٹے تو کچھ دیر صاحب ِ فراش رہ کر اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔( آمین) مدیر
انسان کے تہذیبی سفر میں شادی بیاہ کے ادارے کا وجود میں آنا ایک انقلاب سے کم نہیں جس نے مرد کی آزادانہ بے راہ روی کو محدود کر دیا۔ اس کے کاندھوں پر گھریلو اور سماجی ، دونوں طرح کی ذمہ داریاں ڈال کر اْسے ایک طرح سے گھر کی چار دیواری کا اسیر بنا دیا۔ ہماری اس تہذیب یافتہ دنیا میں آج بھی کچھ خطوں کے دور افتادہ علاقوں میں ایسے قبائل موجود ہیں جن کے ہاں شادی بیاہ کا بالکل جداگانہ تصور ہے اور جو آج بھی دور وحشت کی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ ہندوستان میں شادی بیاہ کا رواج بہت قدیم ہے۔ آریائوں میں شادی بیاہ کو نہایت تقدس حاصل تھا۔ چنانچہ رگ وید میں بھی شادی بیاہ کے گیت درج ہیں جنہیں شادی بیاہ کے موقعوں پر گایا جانا دولہا دولہن کیلئے نیک شگون ماناجاتا تھا۔ ایک ایسے ہی گیت کا متن پیش خدمت ہے ؎
تیرادایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
تیری خوشی کیلئے میں تجھے سوئیکار کرتا ہوں
تاکہ ہم دونوں
پتی پتنی کے روپ میں ہی بوڑھے ہوجائیں
دیوتائوں ، سادتراور بھاگے نے
تجھے اس لئے میرا جیون ساتھی بنایا ہے
تاکہ ہم دونوں کی ہی گھر پر حکمرانی ہو
آریائوں نے جہاں پر بھی اپنے قدم جمائے شادی بیاہ کے سلسلے میں ان کا نظریہ بڑھتا پھیلتا گیا اور اس طرح علاقائی زبانوں میں بھی شادی بیاہ کے موقعوں پر اسی نوعیت کے گیت گائے جانے لگے۔ ان گیتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا اور سماجی رسم و رواج کے مطابق نئے نئے گیت تراشے جانے لگے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شادی بیاہ کے یہ گیت ایسے ادب کا حصہ بن گئے جسے عرفِ عام میں لوک ادب کہا جاتا ہے۔ لوک ادب ہر زبان میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب تخلیقی ادب کے راستے واضح یا متعین نہیں ہوتے اس کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور یہی اس کے خالق بھی ہوتے ہیں اور رکھوالے بھی۔یہی انہیں اپنے حافظے محفوظ کر لیتے ہیں کیونکہ یہ گیت عین عوامی مزاج کے مطابق ہوتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مختلف زبانوں میں رائج شادی بیاہ کے گیت کافی حد تک آپس میں مماثلت رکھتے ہیں۔
کشمیر کے لوک ادب میں شادی بیاہ کے گیت یعنی ’’ونہ وْن‘‘ کافی تعداد میں موجود ہیں۔ ہمارے یہاں شادی بیاہ کی تقریب ایک اہم تقریب ہوتی ہے ،اس لئے ان برجستہ گیتوں میں شادی بیاہ کا ہر ہر پہلو اُبھر کر ہمارے سامنے آجاتا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ ان میں ہمارے زمانے میں رائج سبھی چیزوں ، توہمات ، عقائد وغیرہ کا ذکر بھی ہوتا ہے چونکہ یہ گیت عورتیں گاتی ہیں، اس لئے ان میں لطیف ترین جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ لڑکپن اور جوانی کی حسین یادیں، دلہن کی سسرالی زندگی کے بارے میں اُمنگیں سسرال کے بارے میں ان کے خدشات ، غرض سبھی باتوں کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ کی تقریب پر جن رِیتی رواجوں کا پالن کیا جاتا ہے ’’ ونہ وْن ‘‘ میں ان سبھی کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ موقع و محل کے مطابق شادی بیاہ میں شریک عورتیں ونہ وْن میںنہایت فن کارانہ نفاست سے کام لیتے ہوئے ان گیتوں کے بولوں میں مناسب ردو بدل کر لیتی ہیں یا ضرورت پڑنے پر بالکل نئے شعر گڑھ لیتی ہیں اور اس طرح تقریب کی شان دوبالا ہوجاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں جہاں ضرورت محسوس ہو طنز و مزاح سے بھی کام لیتی ہیں۔ شادی بیاہ کے علاوہ ’’ونہ وْن‘‘ دوسری تقاریب مثلاً ختنہ اور عقیقہ وغیرہ جیسی تقریبات پر بھی گایا جاتا ہے۔ ایک زمانہ میں تو مشہور ہے کہ بچے کی پیدائش پر بھی ’’ونہ وْن‘‘ گایا جاتا تھا لیکن آج کل ایسا نہیں ہوتا۔
یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کشمیری مسلمانوں اورپنڈتوں ( ہندوئوں) کے ونہ وْن میں کچھ زیادہ فرق نہیں، سوائے زبان کے اور ان رواجوں کے جو ان میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، جہاں مسلمانوں کے ہاں فارسی اور عربی الفاظ کی بہتات ہوتی ہے، وہاں ہندوئوں کے یہاں ہندی اور سنسکرت الفاظ کی بھر مار ہوتی ہے۔ دوسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں مختلف علاقوں میں ایک ہی تقریب کیلئے مختلف قسم کا ونہ وُن بھی زندگی کی برق رفتاری بدلتا رہتا ہے اور ہندوئوں نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ہے۔
ہیت:
اب آیئے ’’ ونہ وْن‘‘ کی ہیت کے بارے میں بھی بات کریں ہر گیت زیادہ سے زیادہ دس اشعار پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے ہر بند یا شعر کو ’’ہُر‘‘ کہتے ہیں۔ بند کی تعداد دو یا چار شعر اور کبھی کبھی اس سے زیادہ بھی ہوتی ہے۔ اُسے گانے یا ادا کرنے کا ایک اپنا منفرد اور مخصوص انداز اور لَے ہوتی ہے اور گانے والی خواتین دو ٹولیوں یا ٹکڑیوں میں بٹ جاتی ہیں اور بار ی باری ایک لمبی تان کے ساتھ گیت کے بول دہرائی جاتی ہیں۔ تقریب کی مناسبت اور اہمیت کے مطابق خواتین بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر یہ گیت گاتی ہیں۔ ’’ونہ وُن‘‘ میں کسی قسم کا کوئی ساز استعمال نہیں کیا جاتا پھر بھی دل کو چھولینے والی اس کی دھیمی دھیمی اور سریلی لَے آدمی کا دل موہ لیتی ہے اور چلتے راہ گیروں تک کے قدم روک لیتی ہے۔ ’’ونہ وُن‘‘ کا فارم ’’وڑن‘‘ سے ملتا جلتا ہے جو کشمیر ی میں غزل کی ایک صنف ہے۔ شادی بیاہ کی تقریب میں ہر ہر مرحلے پر جداگانہ گیت مقرر ہیں جنہیں لازماً ان موقعوں پر گایاجاتا ہے۔ گرناون (گھر کی صفائی )تومُل ڑھٹُن (چاول صاف کرنے ) مصالحہ دگن(مصالحہ کوٹنا) دپُن(بلاوا) گل میوٹُھ (دست بوسہ )، مانز راتھ (مہندی رات)مَس شیرُ پارُن (بال گوندھنا ) مس کاسُن (دولہا کے بال بنانا) وردن (شادی کے کپڑے) کور سکھراون (وداع کرنا )نوشہِ استقبال کرُن (بہو کا استقبال کرنا )غسل کرُن (دولہے کو نہانا ) مہرازس ونہ وُن (استقبال برات) نکال خوانی (نکاح خوانی )وغیرہ۔
شادی بیاہ کے گیتوں کا آغاز ہندو اور مسلمان دونوں ہی خدا کے نام سے کرتے ہیں۔ مثلاً پنڈت اس طرح سے آغا ز کرتے ہیں:
مشکلم کرتھ ونہ وُن ہیو ، تمے
شوپ پھل دیونے ماجہ تھوانے
اور مسلمان
بسم اللہ کرتھ ہیمے ونہ وونے
صاحبن انجام اونے یے
اور اس کے بعد ہر ہر مرحلے پر اس سلسلے میں بند ھے ٹکے گیت گائے جاتے ہیں۔ چندایک مراحل کے گیت ملاحظہ ہوں ؎
ہر طرف اپسرائیں نغمہ سراہیں
وہ تو گنگا ماتا کی بڑائی کے فن گارہی ہیں
سندھ کے پوتر جل سے مٹی گوندھ
آج تو گھر کی صفائی کا مہورت ہے
(گھر کی صفائی کے ایک گیت سے اقتباس)
تیرے بال گوندھتے سمے سبھی تو موجود ہیں
تیرے بابا بھی ہیں جو کہ راجہ کے درباری ہیں
(بال گوندھنے کے ایک گیت سے اقتباس)
ہم تو تجھے شیشے کے سنگھاسن پر نہلائیں گے
آج تیری تقدیر جاگ اٹھی ہے
تیرے بابا لاہورسے صابن لائے ہیں
ہماری پیاری!
اب تو چاند سورج تک نے بھی تیرے درشن نہیں کئے۔
(غسل کے ایک گیت سے اقتباس)
ہاتھ تیرے اور پیر مہندی سے رنگ دیں گے
مہندی لگانا تو شاہزادوں کا شیوہ رہا ہے
انگور کی بیل دروازوں اور کھڑکیوں کو پھاند کر
اندر آگئی ہے
کیونکہ آج میرے مینا اور طوطے کی مہندی رات ہے۔
(مہندی رات کے ایک گیت سے اقتباس)
چندن کے کوئلوں کو سماوار کا ایندھن بنا
کیونکہ لندن کا راجہ آج شکار کھیلنے آیا ہے
ہے میاں اپنی سْرمی آنکھوں سے دیکھو
کہ کس طرح سبھی تمہارے استقبال کیلئے
یہاں جمع ہیں۔
(استقبال بارات کے ایک گیت سے اقتباس)
رُخصتی:
دلہن کو وداع کرتے وقت جو گیت گائے جاتے ہیں وہ اتنے پُر اثر ہوتے ہیں کہ سنگ دل انسان کا دل بھی پسیج جاتا ہے۔ ونہ وُن کا یہ حصہ کشمیری لوک شاعری میں ایک بیش بہا اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں اور باتوں کے علاوہ دْلہا سے دلہن کی مناسبت دیکھ ریکھ کرنے کو کہا جاتا ہے اور دلہن سے دُلہا کی اطاعت اور فرمان برداری کرنے کو کہاجاتا ہے۔ ایک گیت کا متن ملاحظہ ہو ؎
سالہا سال تک میں نے تجھے
لاڈ پیار سے پالا پوسا ، جوان کیا
مگر آخر کار پتہ چلا کہ تو تو میرے گھر مہمان تھی
اپنے ماں باپ کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ کر
تو کیونکر سسرا ل جانے کی تیار کر رہی ہے؟
تیری ماہ کا چہرہ تو فق پڑ گیا ہے
تیرے بابا نے تیری حفاظت کیلئے
دروازوں پر کنڈیا چڑھا رکھی تھیں
پر کیا تقدیر کے آگے کسی کی کچھ چلتی ہے
رسیلے نغمے بکھیرنے والے پوشنول (ایک پرندے کا نام )
اتنا تو بتادے کہ تو چاہتا کیا ہے
ہماری نور نظر چودھویں کے چاند کا ٹکڑا ہے
خدارا اس کی خاطر داری کرنا
تاکہ یہ ماں باپ سے بچھڑنے کا دْکھ برداشت کر سکے
صاحب دختر یہ تو بتا کہ آخر تیرے حصہ کیا آیا
بازی تو دولہے کا باپ ہی جیتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چندن کی تیلیوں سے دانتوں کا میل صاف کر
تیری سسرال نزدیک آرہی ہے
ماں کی محبت کو بھول کر
آپ اپنے دل میں ساسوجی کی محبت جگا
ذرا سنبھل ، تیری سسرا ل نزدیک آرہی ہے
لڑکی کو وداع کر کے جب خواتین ٹوٹتی ہیں تو اس وقت وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ’’روو‘‘ ’’روف ‘‘ کرتی ہیں جس میں رقص کا عنصر بھی شامل ہے۔ ’’ونہ وُن‘‘ سے ذرا مختلف اس کی بالکل اپنی جداگانہ لے ہوتی ہے اور آدمی اس بے ساز گانے کو سن کر ایک عجیب اور سرور کن کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ بھی ’’ونہ وُن‘‘ ہی کی طرح جواں لڑکیاں اور عورتیں ایک دوسرے کے کاندھے یا کمر پر ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کے بالکل مقابل صف بنا کر اپنے پائوں آگے پیچھے کرتے ہوئے جھوم جھوم کر بڑے والہانہ طور سے گاتی ہیں۔ ایک روایت ہے کہ ایک زمانہ میں روف مرد اور عورتیں صف باندھ کر ایک دوسرے کے بالمقابل جھوم جھوم کر گایا کرتے تھے لیکن اب اس میں صرف عورتیں ہی حصہ لیتی ہیں۔
روف کی ایک خاص بات یہ ہے کہ گیت کا ایک ٹکڑا ایک قطار میں کھڑی عورتیں گاتی ہیں اور دوسری قطار میں کھڑی عورتیں اُسے دہراتی ہیں اور اگر پہلے بند یا شعر میں کسی بزرگ یا ولی اللہ کا نام آجاتا ہے تو اُسے دوسرے بند یا شعر میں کسی دوسرے بزرگ دین یا ولی کا نام لے کر بدل دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بہت دیر تک ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔
’’روو‘‘ شادی بیاہ کے موقعوں کے علاوہ عیدین، رمضان المبارک کی آمد ، میلادالنبیؐ ، معراج شریف ، شب ِقدر یا کسی ولی کے عرس پر بھی کیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر موسیقی کی محفلیں بھی منعقد کی جاتی ہیں جس میں پیشہ ور گانے والی عورتیں یا مرد ، مدعو کئے جاتے ہیں جو لوک گیت یا شعراء کا کلام چھکری وغیرہ اسٹائل میں گاکر حاضرین کا دل بہلاتے ہیں۔ ���