چائنا پاکستان اقتصا دی راہداری جہاں ایک ترقیاتی منصوبہ ہے، وہیں یہ تزویراتی اہداف کے حصول کے لیے شطرنج کی ایک کامیاب چال کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں لیکن یہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ چین کی جغرافیائی سیاست اور پاکستان کی سلامتی و ترقی کے بارے میں چین کے غیر متزلزل یقین اور بڑھتی ہوئی دوستی کی عکاسی کرتا ہے۔سی پیک کے تحت پاکستا ن میں مواصلات کے نظام میں تیزی سے بہتری یعنی سڑکوں کا جال بچھایا جارہاہے اور ریلوے لائن اور پائپ لائینیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتوں اور بنیادی ڈھانچے کی طرف توجہ دی جارہی ہے تاکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز ہو اور توانائی کی کمی کے مسائل حل ہو سکیں۔ سی پیک چین کو بحرہند تک ایک تجارتی راستہ فراہم کرے گا اور یہ راستہ چین کے شہر کاشغر اور پاکستانی گوادر بندرگاہ کو آپس میں ملائے گاجس کے نتیجے میں اس زمینی راستہ پر تجارت کو فروغ ملے گا۔چین اور پاکستان نے سی پیک منصوبہ کا آغاز اپریل۲۰۱۵ء میں۴۶/ ارب ڈالر کے۵۱ تجارتی معاہدوں اور مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کے ساتھ کیا۔ ان میں سے کچھ ترقیاتی منصوبے جیسے ریلوے اور توانائی کے منصوبوں پر کام جاری ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ۲۰۱۷ء کے اختتام تک ان منصوبوں کو مکمل کرلیا جائے گا۔چین کی قومی ترقیاتی اور اصلاحی کمیٹی نے ایک بڑے علاقائی اور اقتصادی رابطے کے منصوبے(ون بیلٹ ون روڈ)کی بنیاد رکھی اور یہ اقتصادی راہ داری بھی اس بڑے منصوبے کا ایک حصہ ہے۔
یہ ایک بہترین تجارتی منصوبہ ہے، جس کے تحت زمینی راستوں، ریلوے لائن اور بندرگاہوں کے ذریعے سرمایہ کاری کی سہولت میسر ہوگی۔ یہ بڑا تجارتی منصوبہ ایشیا، افریقا اور یورپ کے درمیان معلومات کے بہاو اور اقتصادی رابطے کا تیز ترین ذریعہ ہوگا چونکہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ’’ شاہراہ ریشم اقتصادی بیلٹ‘‘ اور جنوب مشرقی ایشیائی میری ٹائم سلک روڈ پر مشتمل ہوگا، اس لیے پاکستان ان دونوں راستوں کو ملانے کا ذریعہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے چین پاک اقتصادی راہداری کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ سی پیک کے پیچھے چین کی جغرافیائی حکمت عملی بہت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے زمینی راستے سے بحیرہ عرب تک رسائی ملاکا مسئلے سے جان چھڑانے میں معاون ثابت ہوگی، چین اپنے لیے جو تیل درآمد کرتا ہے اس کا۸۵ فیصد آبنائے ملاکا کی واحد چیک پوسٹ سے گزر کر آتا ہے جو کہ چین کیلئے ایک مستقل خطرہ ہے۔منصوبے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ چین کی امن وسلامتی کے خدشات کو ذہن میں رکھا جائے، خاص طور پر چین کے شورش زدہ مغربی علاقے سنکیانگ کے حالات اور معاملات کو سمجھا جائے۔چین نے سنکیانگ کے نسلی اوغر قبیلے پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، اس وجہ سے وہ علاقہ سیاسی ابتری کا شکار ہے اور چین اس علاقے میں فوج میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی کی مختلف اسکیموں پر بھی کام کر رہا ہے، اور وہ ان کوششوں میں پاکستان کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے کیونکہ اوغر کی مسلح تحریک(مشرقی ترکستان اسلامی تحریک ) کے ارکان پاک افغان سرحد پر پناہ لیے ہوئے ہیں، جہاں انہوں نے القاعدہ اورپاکستانی طالبان سے روابط قائم کر لیے ہیں۔ چین ETIMکو نہ صرف چین میں بلکہ پاکستان میں بھی اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو سی پیک منصوبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چین اقتصادی ترقی کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر امن و امان کی بہتری کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کا مقصد یہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنا، ریاست مخالف جذبات میں کمی لانا، امن وامان کی بہتری اور زیادہ وسائل پیدا کرنا ہے۔ اس طرح چین اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں عسکری تنظیموں کے خطرات کو کم کر کے اپنے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پر امید ہے۔چناچہ اس بات کا قوی امکان ہے کے اس راہداری سے تجارتی آمدورفت اور نقل و حمل کو سیکورٹی خدشات کی عوض کچھ عرصے تک محدود رکھا جائے گا۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت بھی سی پیک سے حاصل ہونے والے سلامتی، سیاسی اور معاشی مواقع سے خاصی مطمئن نظر آتی ہے۔پاکستان کو اقتصادی ترقی کے فروغ کے لیے براہ راست سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، کئی دہائیوں سے امن امان کی صورتحال کے پیش نظر سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے،لیکن اگر چین اپنے منصوبوں کو مکمل کرتا ہے تو پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ۲۰۰۸ء کے مقابلے میں دوگنی ہو جائے گی۔
توانائی کے شعبے میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری کی خصوصی طور پر حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔پاکستان میں توانائی کی طلب ورسد میں اوسطا ً۴۵۰۰ میگاواٹ کا فرق ہے۔جس کی وجہ سے اکثر بجلی کی فراہمی منقطع رہتی اور اس شعبے پر مجموعی ملکی پیداوار کا ۲ فیصد سالانہ خرچ کیا جاتا ہے۔یہ صورتحال مستقبل میں ابتر ہوتی چلی جائے گی ،کیونکہ پاکستا ن کی آبادی بیس کروڑ کے قریب ہے اور سالانہ ۲فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کی آدھی آبادی نوجوانوں (۲۴سال سے کم )پر مشتمل ہے اور ان کے پاس اپنی توانائیوں کو صحیح جگہ استعمال کرنے کے مواقع کم ہیں اس وجہ سے یہ نسلی تعصب، فرقہ واریت اور سیاسی ابتری کا شکار ہوکر انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ایک بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے ضروری ہے کہ ان امور پر بھی توجہ دی جائے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت سمجھتی ہے کہ اگر اقتصادی راہداری کے کچھ منصوبے جلد از جلد مکمل کر لیے جائیں تو۲۰۱۸ء کے انتخابات جیتے جا سکتے ہیں(یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ لوڈشیڈنگ پرکافی حدتک قابوپالیاگیاہے) اورعسکری قیادت بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ چینی سرمایہ کاری جب کمزور معیشت کو مستحکم کر ے گی تو ریاست کے داخلی (عسکریت پسندی)اور خارجی (بھارت)چیلنجوں سے نمٹنے کی اہلیت میں بھی اضافہ ہو گا۔پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی نگرانی چین کا قومی ترقی و اصلاحات کمیشن (NDRC) اورپاکستان کی وزارت برائے ترقی و اصلاحات مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مشترکہ کمیشن اقتصادی راہ داری کے چار اہم حصوں گوادر بندرگاہ، نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچہ (یعنی سڑکیں)، توانائی اور صنعتی تعاون کے شعبوں پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔
آبنائے ہرمز کے قریب بلوچستان میں واقع گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر کو انتظامی طور پر نومبر ۲۰۱۵ء کو چین کی سرکاری کمپنی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ ۲۰۱۶ء میں اس بندرگاہ پر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے صرف پانچ لاکھ ٹن سامان کی نقل و حمل ہوئی لیکن۲۰۱۷ء میں یہ دگنی ہو جائے گی۔ منصوبہ سازوں کے اندازے کے مطابق ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد اس بندرگاہ پر سالانہ دو سو سے چار سو ملین ٹن سالانہ سامان کی نقل و حرکت ہوا کرے گی اور گوادر شہر کی آبادی ۸۰ ہزار سے بڑھ کر۲۰ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری شاہراوں، ریل کی پٹری اور پائپ لائنوں پر مشتمل ہے۔ مئی ۲۰۱۵ء میں پاکستانی حکومت نے تین مختلف راستوں پر کام کا منصوبہ پیش کیا۔ مغربی راستہ، جو بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کو آپس میں جوڑتا ہے۔ دوسرا مشرقی راستہ جو سندھ اور پنجاب سے گزرے گا، جبکہ مرکزی راستہ جو کہ تقریبا پورے ملک سے ہی گزرتا ہوا جائے گا۔ اس کے علاوہ شمالی راستہ ہے جو شاہراہ قراقرم کے ذریعے کاشغر سے ملتا ہے یہ واحد زمینی راستہ پاک چین تعاون کی بہترین مثال ہے۔ اسی طرح نقل و حمل کے منصوبوں میں پہلے سے موجود ریلوے لائنوں کی بہتری بھی شامل ہے، جس میں۱۲۰۰ کلومیٹر نئی ریلوے لائنیں بچھائی جائیں گی اور۳۱۰۰ کلو میٹر پرانی ریلوے لائنوں کی مرمت کی جائے گی۔
چین کی سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ تقریبا ً۳۵/ ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لیے مختص ہے جس میں کوئلہ،شمسی توانائی، مائع قدرتی گیس، پانی سے حاصل ہونے والی بجلی اور اس کی ترسیل کے منصوبے شامل ہیں۔ اگر تمام کام منصوبے کے مطابق تکمیل پائیں تو ۲۱ نئے منصوبوں سے تقریباً۱۷۰۰۰ میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی جو کہ پاکستان کی موجودہ پیداواری صلاحیت سے دگنی ہو جائے گی۔ پاکستان پرامید ہے کہ۲۰۱۸ء تک ان منصوبوں سے۱۰۴۰۰ میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کر لے گا۔ بنیادی ڈھانچے اور بجلی کے منصوبوں کے ذریعے پیدا ہونے والے بہترین موقعوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی اور مقامی روزگار کو فروغ دینے کے لیے حکومت نے ۴۰ سے زائد جگہوں کو انڈسٹریل پارک کے لیے مختص کیا ہے۔سی پیک کے منصوبوں پر دونوں ممالک حکومتی سطح پر معاملات طے کرتے ہیں، زیادہ تر ٹھیکے بیجنگ کی منتخب کردہ کمپنیوں کو دیے جاتے ہیں۔ اس منصوبے کے لیے رقوم رعایتی قرضوں پر فراہم کی جاتی ہے جن پر سود یا توکم لیا جاتا ہے یا بلاسود قرض دیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں چین کا Export & Import Bankاور شاہراہ ریشم فنڈسے بلا سود، رعایتی قرضوں پر رقم حاصل کی جا رہی ہے۔ اب تک اقتصادی راہداری منصوبے کی تفصیلات اور انتظامات تک پاکستان کی عوام کی رسائی بہت کم ہے۔ پاکستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے منصوبے پر لگائی جانے والی بولی کی تفصیلات اور مارکیٹ کے لحاظ سے شفافیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
پاکستان کے بر عکس چین کے بجلی گھروں کو’’سرکلر ڈیٹ‘‘ جیسے مسائل سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ بجلی کے پاکستانی خریداروں کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ وہ ادائیگی کے لیے ریوالونگ اکاؤنٹ قائم کریں، جس میں ماہانہ اخراجات کا تقریباً۲۲ فیصد موجود رہے۔ وزارت خزانہ یہ فنڈ حکومت کی ضمانت کے ساتھ بلا تعطل اداکرنے کی پابند ہوگی۔ پہلے یہ شرائط صرف کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کیلئے تھیں، لیکن ۲۰۱۶ء کے آغاز میں سی پیک میں شامل توانائی کے تمام منصوبے اس میں شامل کر لیے گئے۔بنیادی طور پر اقتصادی راہ داری کے لیے سب سے بڑی مشکل امن و امان کے حوالے سے ہے۔ چین کے خدشات دور کرنے کیلئے۲۰۱۶ء میں پاکستان نے خصوصی طور پر سی پیک کی حفاظت کے لیے دس ہزار فوجیوں پر مشتمل الگ فورس بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن فوج کی یہ تعدادبھی سی پیک کے لحاظ سے ناکافی ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں بھی پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں اور اس علاقے میں سی پیک کے کئی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ بلوچ عسکریت پسندوں نے کئی دفعہ چینی انجینئروں پر حملے کیے ہیں۔ گوادر شہر کی حفاظت کے لیے شہر کے گرد حفاظتی باڑ لگانے کی تجویز بھی زیر غور ہے جس سے مقامی لوگوں میں احساس کمتری بڑھے گا۔سی پیک کے معاملے پر، مرکزی حکومت اور صوبوں کے درمیان سرمایہ مختص کرنے پر اعتراضات ہیں۔ حزب اختلاف کا یہ کہنا ہے کہ حکومت مشرقی راستوں کی طرف ترجیحی بنیادوں پر کام کروا رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مغربی راستوں کی طرت زیادہ توجہ نہیں دے رہی۔ اسی طرح نوکریوں کے مواقع، صنعتی پارک اور خصوصی اقتصادی زون تک دوسرے صوبوں کی رسائی نہیں ہے، حزب اختلاف کے مطابق حکومت کی زیادہ توجہ پنجاب کی طرف ہے۔ سودے اور مذاکرات کے دوران شفافیت کا فقدان خدشات کو بڑھا دیتا ہے اور شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے کہ آیا پاکستان کو اس سے فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ اگر پاکستان میں اس طرح کی صورتحال رہی تو کیا سرمایہ کاری حسب توقع فائدہ پہنچا سکے گی۔ان خدشات کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اقتصادی راہ داری کے لیے مخصوص فوج کی تعداد بڑھا دی جائے، جب تک پاکستان کی مرکزی حکومت صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہوتی کہ اس منصوبے سے ہونے والی ترقی سے ان ہی کو فائدہ پہنچے گا، تب تک سی پیک کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ اقتصادی راہ داری پر ہونے والے حملے چین کس حد تک برداشت کر پائے گا یہ اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے، لیکن چونکہ سی پیک، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے منسلک ایک حصہ ہے اسی لیے یہ توقع ہے کہ چین ہونے والے حملوں کے لیے کسی حد تک تیار ہے۔ اگر پاکستان اس منصوبے کو مکمل تحفظ دینے اور سیاسی مخالفین کے تحفظات کو ختم کرنے میں ناکام رہا تو یہ اقتصادی راہ داری منصوبہ ناکامی کی طرف جائے گا اور سرمایہ کاری اوربڑھتی ہوئی تجارتی کامیابی رک جائے گی۔
سی پیک کے حوالے سے خطے میں چین کی برتر ی اور براعظم ایشیا اور یورپ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر امریکا کے اپنے خدشات بھی ہیں۔پاکستان جس طرح چین کے قریب ہوتا جا رہا ہے اس سے واشنگٹن کے اسلام آباد پر اثرورسوخ کے حوالے سے ایک مقابلے کی فضا بن رہی ہے۔ امریکا کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ مقابلے کی فضا بنانے سے گریز کرے کیونکہ مقابلہ کی اس فضا سے کسی کو فائدہوگا نہ کسی کی جیت ہوگی اور اس بات کا قوی امکان ہے بلکہ یہ فضا خطے اور پاکستان میں دیگر امریکی مفادات کے لیے نقصان کا باعث بنے گی۔ امریکا اور چین سے بہتر تعلقات کے معاملے میں پاکستان کسی اچھے نتیجے پر پہنچ جائے گا اور پاکستان دونوں ممالک سے اپنے مفادات کے تناظر میں الگ الگ معاملات طے کرے گا۔ پاکستان جس طرح اپنی توجہ اقتصادی راہداری کے اس منصوبے پر مرکوز کیے ہوئے ہے، امریکی حکام کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں سیاسی استحکام اور اپنے دیگر مفادات جن میں دہشت گردی، ایٹمی پھیلا اور افغان جنگ شامل ہیں، ان پر خصوصی توجہ دے۔پاکستان اور چین دونوں ہی امریکا سے تعلقات کے معاملے میں محتاط رہے ہیں۔ اب سی پیک کو سہ ملکی تعلقات بہتر بنانے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ امریکا سویلین امداد کا کچھ حصہ سی پیک کے مقاصد کے حصول کے لیے مختص کرسکتا ہے، جیسے پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ترقی، روزگار کے مواقع، معاشی ترقی اور سرمایہ کاری میں اضافہ۔ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان کی تعمیر میں کردار ادا کرے اور اس مقصد کیلئے اسے چین کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک کے حکام کو چاہیے وہ پاکستانی حکام سے مذاکرات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنائیں کہ امریکی کمپنیوں کو بھی سی پیک طرز کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت دی جائے اور قواعد و ضوابط بھی وہی لاگو کیے جائیں، جو سی پیک میں شامل چینی کمپنیوں کیلئے ہیں۔ سی پیک پاکستان کی معاشی صورت حال بدلنے کا ایک نادر موقع ہے، اس سے امریکا سمیت دیگر ممالک سے غیرملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
����