وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںگرفتار شدہ بھارتی ہوا باز ونگ کمانڈر ابھینندن کو جمعہ یکم مارچ کو رہا کردیا گیا اور اس کاروائی کو انڈیا کے نا م پیغام ِ امن کہا ۔ پاکستان کےاس فیصلے کاعالمی سطح پر ہی خیر مقدم نہ ہو ا بلکہ بھار ت میں عوامی حلقے بھی اس پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں ۔ بے شک انڈوپاک کشیدگی اور تناؤ نقطۂ عروج پر ہونے کے باوجود اس رہائی کا فیصلہ لینے سے یہ بات ظاہر وباہر ہوئی کہ عمران خان خلوص ِ نیت سے امن اور معقولیت کا ساتھ دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ برصغیر میں جنگ اور جارحیت کے بجائے امن اور بھائی چارے کی فضا قائم ودائم رہے تاکہ ان پر اقتدارکا ہما ہمیشہ مہر بان رہے۔پاک وزیراعظم نے بروقت بڑاپن دکھاکر محض ایک قیدی کو ہی رہا نہ کیا( جس کو آج نہیں تو کل عالمی میثاقوں کی بنیاد پر وطن واپس جانا ہی جانا تھا) بلکہ اُس جنگ حامی سوچ پر بھی خطِ تنسیخ پھیردی جو انتہا پسندو ں کے ذہنوں پر ووٹ بنک سیاست کے سبب ہمیشہ سے سوار چلی آ رہی ہے ۔ ابھی نندن رہا ہوکر اب اپنےگھر پہنچا ہےاور اپنے عزیزوں کے درمیان مبارک بادیاں وصول کر رہاہے کیونکہ وہ تباہ شدہ مگ۔ ۲۱ ؍طیارے سے معجزاتی طور بچ نکلا۔ ا س سے بھی بڑا معجزہ یہ ہو اکہ پار کے مشتعل لوگوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے با وجود پاک فوج نے اسے بروقت اپنی تحویل میں لیا ، اس کی گھبراہٹ بھی دور کی اور مہمان نوازی سے متاثر بھی کیا۔ یوںاس فوجی پائلٹ کا گویا دوسرا جنم ہوا جسے سلبریٹ کر نے کا وہ پورا پورا حق رکھتا ہے ۔
قبل ازیںانڈیا کے بارہ جنگی طیاروںنے ۶۲؍ فروری کوعلی الصبح خبیر پختونخواہ پر بمباری کی اور پاکستانی فضائیہ نے انہیں چار منٹ کے اندر اپنے ملکی حدود سے بھگایا۔ ۲۷ ؍ فروری کو دن کے اُجالے میں انڈیا کے دو طیاروں کوسرحدی حدود کی خلاف ورزی کے دوران مار گرایا ۔ ان میں سے ایک طیارہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اور دوسرا بڈگام کشمیر میں گر تباہ ہوئے۔ پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان میں داخل ہونے والے دو انڈین طیاروں کو مار گرایا اور کم از کم ایک ہواباز کو حراست میں لے لیا ہے۔ یہ ہوا بازابھی نندن ہے ۔ وزیراعظم ہند مسٹر مودی کو بھی پار کے اس پیغام ِصلح وآشتی کی قدردانی کر کے اپنی وسعت قلبی دکھانی چاہیے ۔ بہرحال یہ پہلی بار نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہو۔ (محمدانور)
ذیل کے کالم میںبی بی سی اردو کے سلیم احمد نے ماضی کے ا سی موضوضوع پر چند اہم واقعات کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کی وطن واپسی کیسے ممکن ہو پائی۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگی قیدیوں کی حراست اور برسوں بعد رہائی کا سب سے بڑا واقعہ سنہ 1971 کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران پیش آیا تھا جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں نوے ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی جنگی قیدی بن گئے تھے۔ان قیدیوں کی رہائی اور مرحلہ وار پاکستان واپسی شملہ معاہدے کے تحت عمل میں آئی تھی، جس پر اس وقت کے بالترتیب بھارتی اور پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے تھے۔اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سنہ 1999 کی کرگل کی لڑائی کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ ایک ملک کے کسی فوجی کو دوسرے ملک نے حراست میں لیا ۔اگرچہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان آئے روز قیدیوں کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے لیکن یہ قیدی اکثر ایسے غیر فوجی افراد، دیہاتی اور مچھیرے ہوتے ہیں جو مویشیوں یا مچھلیوں کی تلاش میں غلطی سے دوسرے ملک کی حدود میں پہنچ جاتے ہیںلیکن فوجیوں کا معاملہ دوسرا ہوتا ہے۔سنہ 1999 میں کرگل کی جنگ میں پاکستان کی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کے قریب انڈین فضائیہ کے دو مِگ 29 طیارے مار گرائے تھے۔ جو دو ہواباز اس آپریشن میں شامل تھے، ان میں سے پاکستان کی جانب سے ایک پائلٹ کو زندہ جب کہ دوسرے کی لاش کو انڈیا کے حوالے کیا گیا تھا۔اس فضائی لڑائی میں مارے جانے والے سکواڈرن لیڈر اجے آہوجا کی لاش کی حوالگی کا معاملہ متنازعہ رہا کیونکہ انڈیا کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج نے انہیں بھی زندہ پکڑا تھا لیکن بعد میں ہلاک کر دیا۔پاکستان کا موقف تھا کہ اگر انہیں انڈین ہوابازوں کو ہلاک کرنا ہوتا تو وہ دونوں کو کر سکتے تھے، بلکہ ان کے پاس فلائیٹ لیفٹنٹ کمبامپتی ناچی کیتا کو مارنے کا جواز زیادہ تھا کیونکہ جب ان کے طیارے کو نشانہ بنایا گیا تو وہ طیارہ تباہ ہونے سے پہلے ایمرجنسی بٹن دبا کر پیرا شوٹ کے ذریعے زمین پر اُتر چکے تھے اور انہوں نے موقع پر موجود پاکستانی فوجیوں پر گولیاں بھی چلائی تھیں۔قطع نظر لاش حوالہ کرنے کے تنازعے کے، اس واقعے میں فلائیٹ لیفٹنٹ کمبامپتی ناچیکیتا کی حراست اور چند دن بعد حوالگی کی خبروں کی بازگشت برسوں بعد بھی سنائی دیتی رہی، تاہم اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ جنگی قیدیوں سے متعلق بین الاقوامی قوانین کیا کہتے ہیں۔
جنیوا کنونشن کیا ہے؟
جنگی قیدیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین میں سب سے معتبر دستاویز جینوا میں طے پانے والا ایک معاہدہ ہے جسے عرف عام میں ’’جنیوا کنونشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دستاویز پر پہلی مرتبہ سنہ 1929 میں اتفاق کیا گیا تھا، تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد سنہ 1949 میں پہلے معاہدے میں خاصی تبدیلیاں کی گئیں اور اس میں جنگی قیدیوں سے سلوک کے حوالے سے کئی شقوں کا اضافہ کیا گیا اور اس معاہدے کو تیسرا جنیوا معاہدے یا ’’تھرڈ جنیوا کنونشن‘‘ کہا جاتا ہے۔اب تک دنیا کے 149 ؍فریق اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں، جن میں انڈیا اور پاکستان بھی شامل ہیں۔جنیوا کنونشن ہر رُکن ملک کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی جنگی قیدی سے تفتیش کے دوران ہر قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد یا کسی بھی قسم کے دباؤ سے پرہیز کرے گااور جس قدر جلد ممکن ہو گا، قیدی کو جنگ کے مقام سے دُور لے جائے گا۔کنونشن کی شق نمبر49 تا 57 کا تعلق ایسے قیدیوں سے ہے جنہیں جلد اپنے ملک کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ ایسے قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ان سے کوئی ایسا کام یا مشقت بھی نہیں لی جا سکتی جو ان کے فوجی عہدے کے شایان شان نہ ہویعنی نہ صرف ان کے عہدے، عمر اور جنس کا لحاظ کرنا ضروری ہے بلکہ اُن سے کوئی ایسا کام بھی نہیں کرایا جا سکتا ہے جو مضر صحت یا خطرناک ہو سکتا ہے۔
بین الاقوامی مسلح تصادم :
اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین کے ماہر احمر بلال صوفی نے بتایا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کسی بھی قیدی کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے ،اس پر انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ (بین الاقوامی مسلح تصادم) کے قوانین کا اطلاق بھی ہوتا ہے۔یہ ایک لیگل فریم ورک یا قانونی ڈھانچے کا نام ہے جو اس وقت عمل میں آتا ہے جب کسی مقام پر جنگ کی صورتِ حال ہو یعنی، فوج کی موجودگی بہت زیادہ ہو اور وہ علاقہ زیر تحویل بھی ہو۔ یہ دو چیزیں مل کر اس کو انٹرنیشنل آرمڈ کانفلکٹ بنا دیتی ہیں۔اگر ایسے تنازعے یا مسلح تصادم میں کشیدگی بڑھتی ہے اور کوئی شخص گرفتار ہوتا ہے تو اس کی قانونی حیثیت ایک کمبیٹنٹ یا لڑنے والے سپاہی کی ہوتی ہے۔ گویا جو پائلٹ پاکستان کی حراست میں ہو،اسے کمبیٹنٹ یا جنگی قیدی کے حقوق حاصل ہوں گے اور جس بھی قانونی سلوک کے مستحق ہو گا ،وہ دیا جانا چاہیے۔
انسانی حقوق اور جنگی قیدی:اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایسے معاملات میں انسانی حقوق کے کسی قانون کا اطلاق ہوتا ہے، احمر بلال صوفی کا کہنا تھا کہ اس قسم کے معاملات میں انسانی حقوق کے عمومی قوانین کے بجائے انٹرنیشنل ہیومین یٹیرین لاء کا اطلاق ہوتا ہے۔ایسے قوانین جو آپ سے انسانیت کا تقاضا کرتے ہیں’’یعنی پائلٹ کے معاملے کو آپ انٹرنیشنل ہومین یٹیرین لاء اور کنفلکٹ لاء کے پیرائے میں دیکھیں گے۔‘‘اس قانونی ڈھانچے کا اطلاق نہ صرف کشمیر کے محاذ پر پکڑے جانے والے فوجیوں پر ہوتا ہے بلکہ کشمیری عسکریت پسندوں کی قانونی حیثیت بھی ایک کمبیٹنٹ یا سپاہی کی ہو جاتی ہے اور ان پر بھی بین الاقوامی قوانین کے عمومی اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ جو متنازعہ علاقے میں رہ رہے ہیں اور اپنے حق خود ارادیت کے لیے لڑ رہے ہوں، انہیں بھی طاقت کے استعمال کا حق ہوتا ہے۔
فلائیٹ لیفٹنٹ ناچیک یتا کی حوالگی:کرگل کی لڑائی میں پاکستانی فوج کی حراست میں لیے جانے والے فلائیٹ لیفٹنٹ کمبامپتی ناچیکیتا کی انڈیا کو حوالگی کے سلسلے میں بی بی سی ہندی کے نامہ نگار ونیت کھرے نے گوپلسوامی پارتھا سارتھی سے بھی بات کی جو اُس وقت پاکستان میں انڈیا کے سفیر تھے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کمبامپتی ناچیکیتا کی حوالگی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ان کے بقول اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں کہا تھا کہ وہ انڈین پائلٹ کو سب کے سامنے مسٹر پارتھاسارتھی کے حوالے کریں گے۔واقعے کے تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے انہیں جناح ہال میں آنے کو کہا تھا، لیکن انہوں نے وہاں آنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک انڈین پائلٹ کو ذرائع ابلاغ کے سامنے اُن کے حوالے کیا جائے۔ اس کے بعد یہ طے پایا کہ پاکستانی حکام کمبامپتی ناچیکیتا کو اسلام آباد میں انڈیا کے سفارت خانے میں مسٹر پارتھاسارتھی کے حوالے کریں گے۔یہ تنازعہ اس وقت ختم ہوا جب تین جون سنہ 1999 کو کمبامپتی ناچیکیتا کو انٹرنیشنل ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جس نے انہیں بحفاظت انڈین سفارت کاروں کے سپرد کر دیا۔انڈیا واپسی کے بعد فلائیٹ لیفٹنٹ کمبامپتی ناچیکیتا نے انڈین فضائیہ میں اپنی ملازمت جاری رکھی اور آج کل گروپ کیپٹن کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اس دوران انہیں فوجی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔
فلائیٹ لیفٹنٹ کمبامپتی ناچیکیتا کی یادیں:فلائیٹ لیفٹینٹ کمبامپتی ناچیکیتا کو 27 مئی 1999 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سکردو کے قریب سے حراست میں لیا گیا تھا۔انڈیا واپس پہنچنے پر جب سے ان سے پوچھا گیا کہ حراست کے دوران ان سے کیا سلوک کیا گیا تو انہوں نے کوئی تبصرہ کئے بغیر صرف اتنا کہا تھا کہ وہ کسی طرح واپس کشمیر پہنچ کر اپنا مشن جاری رکھنا چاہتے تھے۔
کئی برس بعد انہوں نے حراست کے دوران کے واقعات کی تفصیل انڈیا کے ایک نجی ٹی وی چینل کو بتائی۔اس گفتگو میں گروپ کیپٹن کمبامپتی ناچیکیتا نے بتایا کہ پاکستانی فوج کے جن جوانوں نے انہیں حراست میں لیا وہ ان پر تشدد کرنا چاہتے تھے کیونکہ 'ان کی نظر میں، میں وہ دشمن تھا جو کچھ دیر پہلے فضا سے ان پر گولیاں برسا رہا تھا، لیکن خوش قسمتی سے جو افسر وہاں پہنچا وہ سمجھ دار نظر آتا تھا۔اس نے صورت حال کو بھانپ لیا اور اسے سمجھ آ گئی کہ اب میں ایک قیدی ہوں اور میرے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو کسی قیدی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس افسر نے جوانوں کو کنٹرول کیا، جو کہ ایک بڑی بات تھی کیونکہ جوان بہت غصے میں تھے۔‘‘یہ پاکستانی افسر ائیر کموڈور (ریٹائرڈ) قیصر طفیل تھے جو کرگل جنگ کے دوران پاکستانی فضائیہ کے ڈائریکٹر آپریشنز تھے۔گروپ کیپٹن کمبامپتی ناچیکیتا کے بقول قیصر طفیل انہیں جوانوں کے نرغے سے چھڑا کر اپنے کمرے میں لے گئے، جہاں وہ ان سے پوچھتے رہے کہ تمہیں کیا پسند ہے کیا ناپسند ہے۔قیصر طفیل نے انھیں اپنے والد کے عارضۂ قلب کا بتایا اور اپنی بہن کی شادی کا بھی۔ دونوں کے درمیان یہ گپ شپ اُن کے لیے خصوصی طور پر منگائے گئے بغیر گوشت والے سنیکس اور چائے پر ہوئی۔اسی حوالے سے ایک معروف انڈین اخبار سے بات کرتے ہوئے ائیر کموڈور (ریٹائرڈ) قیصر طفیل نے بتایا تھا کہ ’’میرے اور ناچیکیتا کے درمیان اتنی ہی دوستانہ گفتگو ہو رہی تھی جو دو فوجی افسران کے درمیان ہوتی ہے۔ہم چائے بسکٹ کے ساتھ ساتھ ہوابازی کے متعلق ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔۔۔ میرے ذمہ صرف یہی کام تھا کہ میں ان سے پوچھوں کہ وہ کس مشن پر تھے اور انہیں کن حالات میں اپنے جہاز سے کودنا پڑا۔‘‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ائیر کموڈور (ریٹائرڈ) قیصر طفیل کا کہنا تھا کہ ’’یہ جان کر مجھے اتنی حیرت ہوئی کہ ہمارے درمیان کتنی زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔ میں نے ناچیکیتا سے پوچھا کہ وہ اس مشن پر آنے سے پہلے کیا کر رہے تھے، تو انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی بہن کی شادی کے انتظامات کے لیے چھٹی پر تھے۔ یہاں (پاکستان) میں بھی بھائیوں سے اپنی بہن کی شادی پر یہی توقع کی جاتی ہے۔‘‘
بہر حال پاکستانی فوج نے زیر حراست پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی ویڈیو بھی جاری کی ۔ یو ٹیوب پر دستیاب ایک منٹ 20 سیکنڈ دورانیے کی اس ویڈیو میں ان سے چند سوالات کیے گئے جن کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان سے پاکستان میں اچھا سلوک ہو رہا ہے اور اگر وہ اپنے ملک واپس گئے تو اپنا بیان نہیں بدلیں گے۔گروپ کیپٹن کمبامپتی ناچیکیتا کی طرح ونگ کمانڈر ابھی نندن نے بھی یہ گفتگو چائے پیتے ہوئے کی اور پاکستانی فوج کی چائے کی تعریف بھی کی ہے، تاہم یہ آنے والے دنوں میں ہی معلوم ہوگا کہ چائے کے باغات کے لیے مشہور جنوبی انڈیا سے تعلق رکھنے والے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی چائے سے رغبت انڈیا پاکستان کی حالیہ کشیدگی کی نذر تو نہیں ہو جائے گی۔