میں جنگلات کے بارے میں عرض کررہا تھا کہ اس استحصال کو روکنے اور اس گھمبیر صورت حال کے لئے مجموعی طور پر عوام الناس کو آواز بلند کرنا اور احتجاج درج کرنا نہ اس قومی سرمائے بلکہ حیات ِ انسانی کے ضامن ماحولیاتی نظام کے بگاڑنے والوں کے خلاف بھرپور مخالفت اور ناراضگی ہوتی بلکہ حکومت کو اس سرقے کا سدباب کرنے کے لئے مجبور کرنا تھا مگر ہماری حالت برابر وہی ہے جیساکہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب گلستانؔ میں ایک جگہ کہا ہے :(ترجمہ:جس کا پیٹ بھرا پڑا ہو ،اُس کے سامنے جَو کی روٹی کیا وقعت رکھتی ہے؟)
ہمارے لئے سرکاری راشن گھاٹوں کے علاوہ جب ہر طرح کا اناج دساور سے آتا ہے ۔سبزی ترکاری کم پڑنے کی صورت میں پنجاب ؔ سے آتی ہے ،برف باری کے دوران بھی تازہ ٹماٹر اور مرچ دستیاب ہوتی ہے،شہر تو شہر دور دراز گائوں میں بھی کوئی کال نہیں پڑتا ،اس کے علاوہ آر پار تجارت میں بھی ہر طرح کی چیزیں یہاں آجاتی ہیں ۔ماشاء اللہ لوگوں کے پاس کماحقہ قوت خرید (Purchasing Power)بھی ہے ۔ہندوستان کے کسان احتجاج کرتے ہیں ،ریلیاں نکالتے ہیں اور خودکشی کرتے ہیں جب کہ یہاں کا کسان ہر سال آل انڈیا ٹور کے علاوہ عمرہ و حج بھی کرآتا ہے ۔اننت ناگ اسلام آباد میں بیس رروپیہ فٹ بکنے والی شیٹنگ وہ جموں اور دہلی سے پنتیس روپیہ فٹ کے حساب سے لانے میں فخر محسوس کرتا ہے تو ایسے آنکھیں موندے بے حس انسان کو یتیم اور یتیم خانہ ،لاچاری اور درماندگی میں آنسو بہانے والی ایک بیوہ کہاں یاد رہے گی ۔اُسے ہندوستان کی بغیر چولی بلاوز صرف ایک ساڑھی میں زندگی بسر کرنے والی وہ ماں جو ریلوے پٹریوں سے مستعمل کوئلہ چن کر اپنے ننگ دھڑنگ بچوں کے لئے پتھروں سے چنے چولہے پر بربج آب بناکر اُن کی زندگی کو مزید لمحوں کے لئے جان ڈال دیتی ہے ۔۔۔۔کیسے یاد آئے گی ؟اُس کو وہ انسانوں کی آبادی کیسے یاد آئے گی جو کوڑے کے ڈھیروں سے ہماری پھینکی ہوئی مختلف از کار ہوئی چیزیں چن کر اپنی زندگی کو رواں دواں رکھتی ہیں اور رات واٹر سپلائی کے لئے استعمال میں لانے والے بڑے پائیپوں میں بِتاتے ہیں۔یا وہ لو گ کیسے نظر آئیں گے ،یاد آئیں گے جو مختلف ہوٹلوں کے پچھواڑے رکھے کوڈے دانوں (Dust bins)سے کھانے کے جوٹھے پھینکے تنکے چن چن کر اپنی زندگی کی بھاری بھرکم گاڑی آگے کو ہانکتے ہیں اور اُس نظارے سے وہ کیسے آنکھیں چرائیں گے جب کتے اور انسان کھانے کے بچے کھچے پھینکے ہوئے ٹکڑوں کے لئے باہم متصادم ہوجاتے ہیں ۔وہ نظارہ اُسی حساس انسان ،اُسی ابن ِآدم کو جھنجوڑ کے رکھ دے گا بلکہ کسی کسی کو رُلائے گا بھی جو اندر ہی اندر دبے لفظوں میں مالک ِ کائنات ،خالق ِارض و سماوات سے گلہ کرے گا کہ اے مالک! اس اشرف المخلوقات کی یہ دُر دِشا ،یہ کس مپرسی اور یہ لاچاری کی حالت آپ سے کیسے دیکھی جاتی ہے ؟اے خدائے برتر و عزوجل اور رزاقِ کائنات کیا یہ انسان اس قدر گھٹیا بن گیا ہے کہ کتے کے منہ سے نوالہ چھیننے پر آگیا ہے ؟آپ نے اپنے نائب یعنی انسان پر یہ دنیا اتنی تنگ کیوں کردی ہے ؟کیوں؟شاید آپ کے نافذ کردہ قانون سے سرتابی کرنے کی بنا پر اُس اشرف کی ایک گھٹیا تصویر دکھانے کے لئے۔جی ہاں !کچھ ایسا ہی لگتا ہے، ورنہ ستاروں سے آگے نکل کر کمندیں ڈالنے والے اور عشق کے مزید امتحان کامیاب کرنے والے کی ایسی ہیٔت کذائی تو نہیں نا ہوتی؟
یہ بات ایک کشمیری خاتون کیسے سمجھے گی ۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ اُس کو سمجھانے والا مرد من موجی ہوگیا ہے کیونکہ ؎
جب جیب میں پیسے ہوتے ہیں
جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اُس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے
اُس وقت یہ شبنم موتی ہے
وہ پینے کے پانی والے نل کے ساتھ پائپ جوڑ کر اپنا پاتھ ،صحن ،غسل خانہ ، گیٹ اور گیٹ کے باہر سڑک کا کچھ حصہ بھی اسی پینے کے پانی سے دھوتی ہے ۔ خوب پانی استعمال کرتی ہے تاکہ اُس کا مکان اندر اور باہر اور ارد گرد صحن برآمدہ صاف و شفاف لگے اور دیکھنے والے اُس کی نفاست کی من ہی من میں داد دیں اور وہ ایک سگھڑ گرہنی مان لی جائے ۔صفائی ستھرائی کرنا ،اپنا گردوپیش صاف رکھنابرا نہیں مگر برائی پانی کے بے جا استعمال میں ہے ،پانی کے ضائع کرنے میں ہے اور برائی گھنٹوں ٹینکیوں سے گرنے والے اُس اوور فلو (Over-flow)میں ہے جس کا کوئی پُرسان ِحال نہیں ہوتا ۔کبھی کبھی رات کو بھی نلکا کھلا رکھنے کی وجہ سے ٹینک بھر جاتا ہے اور فاضل پانی نیچے گرتا رہتا ہے ۔باضمیر لوگ نیند سے جاگ جاتے ہیں کڑھتے ہیں ،کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر بے بس ہوتے ہیں کیونکہ ہمسایے کو جگائیں ایک تو ڈانٹ پڑنے کا خدشہ رہتا ہے یعنی مفت کی بن بلائے بے عزتی ،دوسرے نیند میں خلل پڑنے والوں کی گالیاں سو الگ ۔اگر پینے کے پانی کو بے دریغ ضائع کرنے والے مرد اور خاص طور پر مستورات یہ جان جاتیں کہ اس پانی کا ایک لیٹر (بوتل)آپ تک پہنچانے میں خزانہ عامرہ پر کتنا بوجھ پڑتا ہے ،کتنا خرچہ بیٹھ جاتا ہے تو شاید وہ گن کر پانی کے گھونٹ لینا شروع کردیں گی یا اُنہیں یہ احساس ہوجاتا کہ اس پانی کی اہمیت سمندر میں بھٹکی ہوئی کشتی کے مسافروں کے لئے ،صحرا میں راہ گم گشتہ کے لئے کیا معنی رکھتی ہے تو شاید وہ اس کی قیمت سمجھنے لگیں گی ۔ اگر ہمارے لوگوں کو اس بات کی جان کاری ہوتی کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں خاص کر راجستھان میں ایک گائوں کی عورت کو پانی کی ایک گھڑولی لانے میں کتنی مسافت طے کرنا پڑتی ہے یا مسافت طے کرکے جب اُسے ناصاف گدلا پانی بڑی مشکل سے دستیاب ہوجاتا ہے جو ہم اپنی کیاریوں میں ڈالنا بھی پسند نہ کریں ،تو شاید اُس کا ضمیر جاگ جائے ،جس کی ویسے اُمید بہت کم ہے ۔کیونکہ ہم حد سے زیادہ خود غرض ہوگئے ہیں ۔صرف اپنے بارے میں اور اپنے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں،جو دم نکلے سو واہ واہ!پھر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ہم نے کبھی اجتماعی مفاد میں اور ملک و قوم کے لئے سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی ؎
اپنے وطن کے پیاروں پر سایہ خدا کا ہو
شب و روز غم کے ماروں پر سایہ خدا کا ہو
پانی کی اک اک بوند کو اب بھی ہیں ترستے
’’گھروں‘‘ کے آبشاروں پر سایہ خدا کا ہو
اے مجید وانی
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995