رحیم رہبر
وہ کون تھا۔۔۔!
جس کو میں تقریباً چھ دہائیوں سے اُس گاٹھ نمبر 7پہ دیکھتے آیا ہوں!
یہ سوال بار بار گراف کی لکیروں میں اُبھر کر آتا ہے۔ میرے لئے یہ انوکھا اور ادراک کو محوِ حیرت میں ڈالنے والا سوال تھا۔
یہ سوال میں نے ابوبکر سے پوچھا۔ ابوبکر یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات میں پروفیسر تھے۔ اب سرکاری نوکری سے فارغ ہونے کے بعد ماحولیات پہ کام کررہے ہیں۔ وہ سخن فہم بھی ہیں اور سخن دان بھی۔
انہوں نے ۔۔۔ کے گرد ساٹھ چکر مکمل کئے۔ اس گاٹھ نمبر7پر انہوں نے اپنا بچن Childhoodتراشا۔۔۔ اس گاٹھ پر اُنکی جوانی نکھرآئی۔۔۔ اب اُن کا بڑھاپا ہے۔ وہ اس جھیل کو دل دے بیٹھے ہیں۔ جھیل نے اُن کی آنکھوں میں جگہ بنائی ہے۔ وہ جھیل سے خاموشیوں میں باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔‘‘ ابوبکر بولے۔
’’Dilusion۔۔۔ وہم‘‘میں نے ابوبکر سے کہا۔
جھیل کے ساتھ باتیں کرنا پانی کی سطح پر لکھنے کے برابر ہے۔ ناممکنImpossible۔۔۔!‘‘
’’دراصل تمہاری سوچ زنگ آلودہ ہے‘‘۔ ابوبکر آگ بگولہ ہوگئے۔
’’Confusion‘‘! میں نے نرم لہجے میں بولا۔
ابوبکر خاموش ہوگئے۔
’’مجھے خود اس شخص سے ملنا چاہئے۔۔۔ وہ میرے سوال کا جواب دے گا۔۔۔ میں اُس سے پوچھوں گا۔۔۔ جھیل کے ساتھ اُس کا کیا رشتہ ہے؟‘‘ میں نے من ہی من میں فیصلہ کیا کہ میں اُس شخص سے ملوں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔
میں نے ابوبکر سے اجازت لی جو گاٹھ نمبر7کے قریب ہی بیٹھے تھے اور میں اس شخص کے پاس گیا، جو گاٹھ نمبر7پہ ایک خوبصورت شکارے میں بیٹھا تھا۔
’’جناب! ایک لمبی مدت سے میں آپ کو اس گاٹھ پر دیکھ رہا ہوں۔۔۔ اس جھیل سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟‘‘
میرا سوال سن کر وہ شخص مسکرایا اور بولا۔
’’تب میں بچہ تھا جب میں والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگیا۔ میں اناتھ تھا۔ کسی نے میری پرواہ نہیں کی۔ میں زندگی سے ہار کر اس گاٹھ پہ آگیا اور جھیل کو اپنا کرب سنا دیا۔ جھیل کو میرے حالِ زار پہ ترس آیا۔ جھیل نے نہ صرف مجھے کھلاپلا کر بڑا کیا بلکہ مجھے جینا بھی سکھایا۔ مجھے یاد ہے اُس دن جب میں نے اس کو اپنے اکیلے پن کے بارے میں کہا ، تب جھیل نے مجھے پیار سے کہا تھا۔ اکیلا پن عظیم ذہنیت کا مقدر ہے۔(To be alone is the fate of all great minds)پھر وہ خاموش ہوا۔
’’پھر۔۔۔ پھر کیا ہوا۔۔۔ آپ خاموش کیوں ہوگئے۔‘‘ میں نے انہماک سے پوچھا۔
’’جھیل نے مجھے ماں کی ممتا اور باپ کا پیار دیا۔ جھیل نے مجھے ایک عالیشان ہائوس بوٹ کا مالک بنادیا۔ ’’صمددی بسٹ‘‘ Samad The Bestکے نام سے۔ اب مجھے ساری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ دُنیا بھر کے لوگ میرے ہائوس بوٹ میں ٹھہرنے کے لئے آتے ہیں۔ اس جھیل نے مجھے میری کھوئی ہوئی شناخت واپس دی۔‘‘
’’مطلب!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’میرے والدین پہلے اسی جھیل میں رہتے تھے۔ اُن کے پاس بھی ایک ہائوس بوٹ ہوا کرتا تھا۔ جو جل کر راکھ ہوا تھا۔ پھر وہ کنارے پر آئے تھے۔‘‘
’’ان کے ہائوس بوٹ کا کیا نام تھا؟‘‘
’’ایس بی Sultana The Best‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
’’مجھے تب پتا چلا جب میں نے ’’ڈل بچائو‘‘ تحریک کو متحرک کیا۔یہ جھیل میرا غرور ہے۔ اس نے میرا کلچر، میرا تمدن،میرا ثقافت اور میری زبان کو آج تک زندہ رکھا۔ یہ جھیل میرے صدیوں پُرانے اتہاس کا گواہ ہے۔ میں اس کا نگہبان ہوں۔‘‘ اُس شخص نے نم دید آنکھوں سے کہا۔ وہ آنکھیں بھی جھیل جیسی تھیں۔
’’تمہارے پاس ایسی کونسی طاقت ہے کہ تم اس جھیل کو ظالم لوگوں کے شر سے بچائوگے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ جھیل میری ماں ہے۔۔۔ اسکی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘ اُس نے فخر سے کہا۔
’’تمہارے پاس ایسی کون سی طاقت ہے کہ تم اس جھیل کی شانِ رفت کو بچائوگے؟‘‘ میں نے بڑے ہی انہماک سے پوچھا۔
وہ دفعتاً بولے۔۔۔۔ اور خوشی سے اسکی آنکھیں نم ہوئیں ’’وفا کا جنون‘‘۔
���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ، بڈگام، کشمیر،موبائل نمبر؛9906534724