اِکز اِقبال
یہ کوئی اچانک بھڑکنے والی آگ نہیں تھی۔ لداخ کی خاموش وادیوں میں یہ چنگاری برسوں سے سلگ رہی تھی۔ 2019میں جب جموں و کشمیر کی ریاست کو تقسیم کر کے لداخ کو براہِ راست دہلی کے زیرِ انتظام ایک یونین ٹیریٹری میں بدلا گیا تو نئی امیدیں بھی جاگیں اور نئے اندیشے بھی۔ امید یہ کہ اب دہلی براہِ راست ترقی کا دروازہ کھولے گی۔ اندیشہ یہ کہ مقامی شناخت، زمین اور وسائل کہیں بڑے شہروں کی سیاسی بھوک کی نذر نہ ہو جائیں۔ وقت نے یہ ثابت کیا کہ اندیشے مضبوط اور امیدیں کمزور نکلیں۔ آج لداخ کے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ہاتھوں میں کاغذی مطالبے نہیں بلکہ جلتے ہوئے دل ہیں۔ وہ ریاستی درجہ چاہتے ہیں، اپنی زمین اور شناخت کے لیے آئینی ضمانت چاہتے ہیں، Sixth Schedule کا تحفظ چاہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے لیہہ کی سڑکوں پر ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ یہ مظاہرہ پُرامن ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کی راکھ میں غصے کی وہ چنگاری چھپی تھی جو دہائیوں سے دہلی کی بے حسی پر سلگ رہی ہے۔ لمحوں میں نعرے پتھروں میں بدلے، پتھر آنسو گیس اور گولیوں سے ٹکرائے اور لیہہ کی فضا بارود اور لاشوں کی بُو سے بھر گئی۔ 24 ستمبر کے احتجاجی مظاہروں میں چار نوجوانوں کی جانیں جانا اس کہانی کا وہ موڑ ہے جہاں سے معاملہ محض ایک احتجاجی نعرے سے نکل کر ایک اجتماعی زخم میں بدل گیا ہے۔چار شہری اپنی جان سے گئے۔ درجنوں زخمی ہو گئے۔ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ گولیاں ’’ دفاع‘‘ میں چلائی گئیں، مگر دفاع اور طاقت کے بے جا استعمال میں وہ باریک لکیر کون ناپے گا، جس پر کبھی انصاف اور کبھی طاقت کا جھنڈا لہراتا ہے؟
مظاہرین نے بی جے پی کے دفتر کو آگ لگا دی۔ یہ محض ایک عمارت نہیں جلی بلکہ برسوں کے وعدوں، یقین دہانیوں اور سیاسی خوابوں کا وہ ڈھیر جلا جو لداخ کے عوام کو دکھایا گیا تھا۔ جب کوئی دفتر جلتا ہے تو دیواریں نہیں، بیانیے جلتے ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوتا ہے تو وہ پہلے کاغذ جلاتے ہیں، پھر نعرے اور آخر میں ادارے۔
حالات قابو میں رکھنے کے لیے لیہہ ضلع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہوئی۔ موبائل انٹرنیٹ معطل ہوا۔ درجنوں افراد کو گرفتار کر کے جیلوں میں بھیج دیا گیا۔لیکن سب سے بڑا فیصلہ یہ تھا کہ ماحولیاتی کارکن اور عوامی رہنما سونم وانگچک کو اس پورے بحران کا ’’اصل مجرم‘‘ قرار دے کر حراست میں لے لیا گیا۔ وزارتِ داخلہ نے براہِ راست ان پر الزام لگایا کہ وہ لداخ کے احتجاج کو بھڑکا رہے ہیں۔
سونم وانگچک، وہی شخصیت ہےجس نے دنیا بھر میں ماحولیات، تعلیم اور لداخ کی پائیدار ترقی کا نعرہ بلند کیا۔ وہی شخص جسے کبھی حکومتیں ایوارڈز دیتی تھیں، آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ان کی این جی او کا فارن فنڈنگ لائسنس (FCRA) منسوخ کر دیا گیا۔بینک کھاتوں کی چھان بین جاری ہے۔غیر ملکی ہاتھ کے الزام کو جانچنے کے لیے سی بی آئی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
یہ وہی روایت ہے، جس میں جب کوئی آواز اندر سے طاقتور ہو جائے تو باہر کے دشمن کا بہانہ تراش لیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایک شخص اتنی بڑی بغاوت کھڑی کر سکتا ہے یا یہ عوامی اضطراب ہے جسے ایک فرد کے کندھوں پر ڈال کر آسانی سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟لداخ کے عوام کے مطالبے بڑے واضح ہیں:
۱۔ ریاستی درجہ (Statehood) تاکہ فیصلہ سازی دہلی کے بجائے مقامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہو۔
۲۔ Sixth Schedule کے تحت تحفظ تاکہ زمین، روزگار اور ثقافت غیر مقامی دباؤ سے محفوظ رہے۔
۳۔ روزگار اور وسائل پر مقامی عوام کا حق۔
۴۔ ماحولیاتی تحفظ، جس پر لداخ کی بقا براہِ راست منحصر ہے۔
یہ وہی مطالبات ہیں جن پر حکومت نے کئی بار ’’غور کرنے‘‘ کا وعدہ کیا، مذاکرات کی میز سجائی، مگر نتیجہ ہر بار فائلوں کی گرد میں دفن ہو گیا۔ وانگچک کا جملہ ’’وعدہ کر کے بھول جانا جرم نہیں‘‘ دراصل حکومت کے اسی رویے پر ایک تلخ طنز ہے۔کرفیو اور بندشیں وقتی سکون تو دیتی ہیں لیکن مسئلے کو حل نہیں کرتیں۔ یہ اس مریض کو نشہ آور دوا دینے جیسا ہے جس کا زخم اندر ہی اندر ناسور بن رہا ہو۔ لداخ کی گلیوں میں آج خاموشی ہے، لیکن یہ خاموشی کسی امن کا پیغام نہیں بلکہ ایک بڑے طوفان کی آہٹ ہے۔
جب بھی عوامی تحریک ابھرتی ہے، حکومت کے پاس سب سے آسان دلیل ’’غیر ملکی ہاتھ‘‘ ہوتی ہے۔ یہ دلیل عوام کو تقسیم کرنے، تحریک کو بدنام کرنے اور بیرونی دنیا کو مطمئن کرنے کا سب سے آزمودہ نسخہ ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہزاروں افراد کے زخموں اور جنازوں کو محض کسی بیرونی طاقت کی سازش قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ تحریک صرف باہر سے بھڑکائی گئی ہے تو پھر عوامی دلوں میں دہلی کے خلاف یہ آگ کیوں دہائیوں سے سلگ رہی ہے؟
حکومت نے مذاکرات کے لیے نئی تاریخ چھ اکتوبر مقرر کی تھی۔ لیکن لیہہ ایپکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس،جو مقامی عوام کی سیاسی اور سماجی آواز سمجھی جاتی ہیں،نے اعلان کیا کہ وہ حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہونگی جب تک کہ’’معمول کی حالت‘‘ بحال نہ ہو۔ یہ اعلان دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ عوامی اعتماد بُری طرح مجروح ہو چکا ہے۔ مذاکرات تو تب ممکن ہیں جب خوف، غصہ اور بے یقینی کے بادل چھٹے، ورنہ بات چیت صرف رسمی کارروائی رہ جاتی ہے۔اگر عوامی مطالبات کو مسلسل نظر انداز کیا گیا تو لداخ کی تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور اگر طاقت کے ذریعے دبانے کی پالیسی جاری رہی تو یہ مسئلہ صرف مقامی نہیں رہے گا بلکہ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظر میںآ جائے گا۔لداخ آج محض ایک خطہ نہیں رہا، بلکہ پورے ہندوستان کے لیے ایک استعارہ بن گیا ہے۔ وہ استعارہ جو یہ سوال پوچھتا ہے:وعدے کس لیے کیے جاتے ہیں؟ترقی کس کے لیے ہوتی ہے؟جمہوریت کس کے لیے بولتی ہے؟جب عوام سڑکوں پر لاشیں اٹھائیں اور حکمران بیرونی ہاتھ تلاش کریں تو یہ محض لداخ کا المیہ نہیں، یہ پورے نظام کی کمزوری ہے۔
لداخ کی وادیوں میں برف ابھی باقی ہے، مگر اس برف کے نیچے غصے کی آگ دہک رہی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو صرف کرفیو اور گولیوں سے نہیں بجھ سکتی۔ اسے بجھانے کے لیے انصاف کی بارش چاہیے، وعدوں کی پاسداری چاہیے، اور سب سے بڑھ کر وہ احساس چاہیے کہ عوام محض رعایا نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد ہیں۔اگر دہلی نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا تو تاریخ کے اوراق پر ایک نیا باب لکھا جائے گا، جس میں درج ہوگا کہ برف کی سرزمین پر آگ نے اقتدار کے وعدوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔
(مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]