غالب ؔؔ نے کیا خوب کہا ہے ؎
نہ تھاکچھ تو خداتھاکچھ نہ ہوتا تو خداہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہو تا میںتو کیا ہوتا
کائنات کو وجودبخشنے سے پہلے خالقِ کائنات کی عبادت کرنے والے فرشتے تھے جو اس کے ہر حکم کی پابندی کرتے تھے مگر مالک ِکائنات نے عالم ِدنیا میں ایک اور رنگ بھرناچاہا اوراس کی بو قلمونی کو نئی وسعت د یناچاہی۔اس کے ہاتھوں اُ سی کا ایک اور شا ہکار مٹی سے تخلیق ہوا جسے روح اور جان عطا کر لی اورنام رکھا آدم ۔ پھرعالم ملکوت سے مخاطب ہو کر کہا میںاپناخلیفہ بنانے کا خواہش مند ہوں۔ملائکہ نے کہا یارب ہم تمہاری اطاعت و فرمان برداری میں کوئی دقیقہ فروگذاشت کرتے ہیں کہ ایک نئی مخلوق کو وجود بخشے کی ضرورت پیش آئی ۔ملائکہ نے یہ بھی کہا کہ یہ مخلوق زمین پر فساد بر پا کرے گا۔ اللہ نے کہا جو میں جانتا ہوں وہ تمہیں معلوم نہیں ۔بہر صورت آدم ؑ کا وجودعمل میں آیا۔باری تعالیٰ نے آدم ؑ کی سرشت کو کچھ اس طرح کی بنائی کہ یہ اکیلا رہ نہیں سکتاکیونکہ تنہائی اور اکیلے پن صرف اُسی رب کی صفت کے شیان ِ شان ہے۔اسی مناسبت سے آدم ؑکی بائیںپسلی سے اس کا جوڑا حّوا پیدا کیا، وہ بھی مخالف جنس سے یعنی عورت۔اس طرح کائنات میں ایک خدائی رنگ بھر نے کے لئے عورت کا وجود عمل میںآیا۔اُسے آدمؑ کے لئے شریک ِحیات گردانا گیا۔ اب یہ میاں بیوی جنت کے باغات میں تھے۔دراصل اﷲکو یہی مقصود تھاکہ آدم وحّوا کو زمین پر بسایاجائے۔اس کو ممکن بنانے کے لئے کن فیکون والے اللہ نے شجر ممنوعہ کا پھل انہیں شیطان کے ذریعے کھلوا کر اور انہیں جنت سے رخصت کر کے زمین پر اپنے خلیفہ کی شکل میں جا بسایا۔جنت سے جدائی کے بعدآدم ؑ کوحضرت حواؑ دوبارہ جبل نور کے مقام پر ملیں، اپنی زوجہ کو پاکر آدم ؑ کی گھر گرہستی شروع ہوئی اور دُنیا میں انسانی مخلوق کا آغاز ہوا، انسانی تمدن کی بنیاد پڑی اور ایک نظام ِ حیات کی شروعات ہوئی۔ اللہ کے ا س منصوبے میںحواؑکو بڑا اہم درجہ ملا کیونکہ اسی کے توسط سے نسلِ انسانی وجود پذیر ہوتی چلی گئی۔ یہ سلسلہ تاحال آگے بڑھا اور تاقیام قیامت چلتا رہے گا ۔
عورت ذات کو نسل انسانی کے تواتر میں اپنا ایک اعلیٰ مقام عطاہوا۔تمام پیغمبروں ؑنے اسی عورت کی کوکھ سے جنم لیا، صالحین ، مفکرین ، ماہرین اور مدبرین کے جنم کا سہرا اسی کے سر ہے ۔صالحہ اور نیک عورت کسی کے حصے میں ماں بن کر ،کسی کے حصے میںبیوی،کسی کے حصے میں بہن اور کسی کے حصے میں بیٹی بن کر آئی۔کائنات میں جو رنگا رنگی اﷲ کو پیدا کرنا مطلوب تھی ،وہ اسی عورت کے وجود سے کر لی۔ ڈاکٹر اقبالؔ کا یہ شعر اسی آفاقی حقیقت کا غماز ہے ؎
وجود زن سے ہے تصویرکائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
سچ تو یہ ہے کہ اگر عورت وجود میں نہ آئی ہوتی تو کائنات کا کیا رنگ ہوتا؟ زندھی کتنی بے حقیقت ہوتی ،کہاں انسان ہوتے؟کہاں انسانی نسلیں ہوتیں؟کہاں پیغمبر،مُصلح،فلاسفر،سائنسدان،ڈاکٹراور انجینٔیرہوتے؟بہ ظاہر عورت کا وجود بالکل نازک ہے لیکن قدرت نے اس کے پیکر میں ایک ایسا جادو یا کشش بھر دی ہے کہ مخالف جنس خود بہ خود اس طرف کھینچ آتی ہے۔
عورت کے اس اعلیٰ مقام اور عظیم مر تبے کو وقت کے چکر نے اتنی پستی پر لایا کہ یہ انسان کے ہاتھوں میں معمولی کھلونا بن گئی۔ بعض ناہنجار لوگوںاور حق ناآشنا تہذیبوں، تمدنوں، افکار نے عورت کو دھتکارتے ہوئے اسے ہوس اور شہوت کا تماشہ جانا لیکن اسلام نے اسے وہ قدر ومنزلت واپس کردی جو اسے چھین لی گئی تھی ۔
عرب جو نور اسلام کی اولین سر زمین قرار پائی، میں دور ِ جاہلیت میں عورت ذات کے ساتھ کیا کیاکھلواڑ کیا جاتا تھا، وہ بیان سے باہر ہے۔وہ جبروظلم اور مردوں کی ہوس کا شکار ہوتیں، اس کے ساتھ زیادتیاں کی جاتیں ، اسے زندہ قبر مین دفنایا جاتا، بے رحم آدمی اسے طرح طرح کے مظالم کا شکار بناتے کہ یہ اتنی مجبور و لاچار ہوتی کہ اگر کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو اُس کی چھوڑی ہوئی وراثت جس طرح بیٹوں کے حق میں منتقل ہو جاتی ،اسی طرح اس شخص کی بیویاں بھی اس کے بڑے بیٹے کی وراثت بن جاتی تھیں اوربڑا بیٹا اپنے مرے ہوئے باپ کی بیویوں کے ساتھ شادی کرلیتا تھا۔ ا ُس جاہلی معاشرے میںبیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھااور عورت کی جا ئز بات کو ماننا بھی خلافِ مردانگی سمجھا جاتا۔ اللہ کوعورت کی اس حالت ِزار پر ترس آیا تو اُس نے عالم ِانسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمدؐ کو دنیا میں مبعوث فرمایا، اﷲ کا یہ محبوب بھی ایک نیک و صالحہ عورت کے بطن ہی سے پیدا ہوا۔ اس محبوبِ خدا ؐ پورے عالم میں اسلام کا نیا اور تازہ دم نور پھلادیا۔جس مریم ؑ نے حضرت عیسیٰ ؑکو جنم دیا وہ بھی تو دنیا کی بڑی ہستی ہیں ۔ حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ؑاولوالعزم عورتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے فلسفہ دانوں اوردانش واروں کو تو اسی عورت نے ہی جنم دیا۔ڈاکٹرعلامہ اقبال ؔ فرماتے ہیں ؎
مکالمات ِفلاطون لکھ نہ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹاشرار افلاطون
رنگ و نسل،ذات پات اور قوم وملت کو ایک طرف چھوڑ کر دیکھا جائے تو عورت ایک بڑی نعمت ہے۔وہ نعمت جس کا کوئی متبادل ہ ہی نہیں سکتا۔عورت ایک ماں کی حیثیت اختیار کر تی ہے تو کس طرح بچے کی پرورش تن من اور دھن سے کرتی ہے ،کیا کیا سختیاں اور مصائب اس بچے کی پرورش کرنے کے لئے اُٹھاتی ہے۔ اسی پرورش کا نتیجہ بعد میںظاہرہو جاتا ہے۔اگر ماں خود صحیح تربیت یافتہ ہو تو اولاد بھی تربیت یافتہ بن جاتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ نیک سیرت،پاک دامن،شریف اور سادہ لوح عورتوں نے قابل ترین ، نیک شعار اور مہذب لوگوں کو جنم دیا ۔پوری کائنات میں جو مشہور اور معروف ہستیاں ہیں ان سب کو تو عورت ہی نے تو جنم دیا ہے اور جنہوں نے دنیا میں برا نام کمایا وہ بھی تو کسی عورت کے بطن سے ہی پیدا ہوئے۔قلم اُن عظیم المرتبت عورتوں کی صفات کا شمار کرنے اور ان کی شخصی اوصاف کی تعریفیں کرنے سے قاصر ہے لیکن تاریخ عالم میںان کے کارنامے سنہرے حرو ف میں قلمبند ہیں ۔ یہ کہنے کی چنداں ضر ورت نہیں کہ یہ سب کچھ عورت ذات کے احسانات کے کھاتے میں جمع ہو جاتاہے۔ افسوس اور صد افسوس کہ عورت موجودہ گندی تہذیب کی رو میں بہک کر مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے کے بہا نے اب مردوں سے آگے دوڑنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔اوپریہ کہا گیا کہ عورتوں نے عظیم الشان شخصیات کو جنم دیا ہے مگر یہ عورتیں خود بھی عظیم تر تھیں ،خصوصاََ جب اسلام کی بات کی جائے تو سر تسلیم خم کر نا پڑے گا کہ اس نے عورت کو ایک اعلیٰ و ارفع مقام دیا اور اُسے عزت وتکریم کی بلندیوں تک پہنچایا۔جب تک عورت نے اپنی عظمت اور پاک دامنی کو برقرار رکھا ، شرم و حیا کی لاج رکھی اور پردہ نشینی اختیار کر لی تو وہ عظمتوں کی نقیب بن کر رہی مگر جونہی وہ اخلاق ناآشنا مغرب کی تقلید میں بھٹک کر پہلے
پرد ہ چھوڑگئی،پھر چادر اور چار دیواری کی دفاعی حصار چھوڑدی،پھر مرد کو اپنے پیچھے چھوڑنے کی کوششیں کر نے لگیں تو اس کے ہاتھ میں سوائے ناکامیوں اور تلخیوں کے کچھ نہ آیا۔مرد بھی تہذیب ِمغرب کی چکا چوندی سے اتنا مغلوب ہو گیا کہ اس کی عقل پر پردہ پڑ گیا اور وہ ماں بہن بیٹی کا مقام بھول کر بہت ہی گھناؤنی حرکات پر اُترآیا۔ گویا عورت کا اصل مقام ومرتبہ چھین لینے کا ذمہ دار جہاں ہمارا سماج ہے ، وہاں عورت بھی اپنے اعلیٰ مقام عورت خراب ہو گئی ۔ اُ س نے مذہبی،دینی،اخلاقی، سماجی ذمہ داریوں کو نبھانا چھوڑ دیا بلکہ دیکھا دیکھی کے عالم میں وہ حواس باختہ ہو کر رہ گئی۔اسے وہ تعلیم ملی جس نے اس پر دنیوی مفاد اس پر کچھ اس طرح حاوی کئے کہ ُاس کی عقل اور اخلاقی حس نے کام کرنا چھوڑ دیا۔اس غلط تعلیم سے معاشرے بگڑ جاتے ہیں،معاشر ے بگڑ گئے ، قومیں بگڑ گئیں تو دنیا بگڑ گئی۔دنیا بگڑ گئی تو امن و سکون اور اطمینان،راحت اورسرور جاتا رہا۔اس غلط تعلیم کے بارے میں علامہ اقبال کی حق بیانی یہ ہے ؎
جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر مو ت
بہرحال جب عورت نے اپنا متعین کردہ مقام اپنے ہاتھوں سے مسمار کیاتو وہ بکھر کر رہ گئی۔اس وقت چاروں اطراف سے عورت کو ہوس و حرص کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،اس کی عزت و عظمت محفوظ نہیں،اس کا تقدس سر بازار نیلام ہو رہا ہے،اُسے کھلونا سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ فروخت کیا جا رہا ہے۔اس میں کس کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتاہے؟مرد کو یا عورت کو؟دونوں اس بگاڑ میں مجرم ہیں اور ملوثِ گناہ ہیں۔اگر عورت صحیح معنوں میں مرد کا ساتھ دیتی ،اس کے کہنے پر عمل کرتی ،دیکھا دیکھی سے کام نہ لیتی تو اس کی عزت و آبروبرقرار رہتی۔اب بھی موقع ہے کہ حّوا کی بیٹی سنبھل جائے اور اپنا وہ اونچا مقام حاصل کرنے کی سنجیدہ جستجو اور سعی کر ے جس کی یہ مستحق ہے۔
ریسرچ اسکالر،سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
ای میل :[email protected]
فون نمبر:۔9469447331