پرویز احمد
سرینگر //بورڈ آف ریڈیشن اینڈ آئسو ٹاپ ٹیکنالوجی ممبئی کے نیوکلیئر ریکٹر میں خرابی کے سبب سکمز صورہ میں سرطان مریضوں کی تھرپی اور تھائرائیڈسیکن کیلئے درکارتابکاری موادکی سپلائی4ہفتوں سے بند ہے ۔ تابکاری مواد کی سپلائی بند ہونے کے نتیجے میں کینسر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا سینکڑوں مریضوں کیلئے جان لیوا صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ سکمز انتظامیہ نے مریضوں کو راحت پہنچانے کیلئے متبادل کی تلاش شروع کردی ہے۔سرطان کی جراحیوں کے بعد تھرپی اور تھائرائیڈ سکین کیلئے آنے والے مریض پچھلے ایک ماہ سے سکمز انسٹی ٹیوٹ کے چکر لگانے پر مجبور ہورہے ہیں۔سرطان کے شکار مریضوں کو تھرپی اور تھائرائیڈ سکین کیلئے آنے والے مریضوں کو 6ہفتے قبل تمام ادویات بند کرنی ہوتی ہے اور بعد میںتھرپی اور تھائرائیڈ سکین کیا جاتا ہے ۔لیکن پچھلے 2ماہ سے معمول کی ادویات بند کرنے والے کینسر مریضوں کی تھرپی اور نہ تھائرائیڈ سکین نہیںہورہا ہے کیونکہ شعبہ نیوکلیئر میڈیسن کے پاس تابکاری مواد نہیں ہے۔ سکمز میں تھرپی کیلئے آنے والے سینکڑوں کینسر مریضوں کا کہنا ہے کہ وہ 2ماہ قبل دوائی بند کرچکے ہیں لیکن ابھی بھی تھائرائیڈ سکین یا تھرپی نہیں ہورہی ہے اور اس کی وجہ سے انکے وزن میں اضافہ،سردرد اور خارش جیسی علامتیں پھر سے نمودار ہو رہی ہیں۔ نیوکلیئر میڈیسن کے شعبہ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ صرف تھائرائیڈ سکین کے ہی 60مریض پچھلے 2ماہ سے منتظر ہیں جبکہ دیگر ہسپتالوں میں جراحی والے سینکڑوں کینسر مریضوں کیلئے تھرپی کی ضرورت ہے۔
میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر فاروق احمد جان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ملک میں اس قسم کا تابکاری مواد بنانے والے دو ہی ادارے ہیں ۔ ان میں ایک شمالی بھارت اوردوسرا جنوبی بھارت کے ہسپتالوں کو تابکاری مواد فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی بھارت کے ہسپتالوں کو تابکاری مواد فراہم کرنے والے ادارے سے ہم تابکاری مواد نہیں خرید سکتے کیونکہ وہ کافی مشکل ہوگا ، اسلئے ہم ممبئی سے تابکاری مواد خریدتے ہیں جو ہر ہفتے آتا تھا لیکن پچھلے ایک ماہ سے نہیں آیا ہے کیونکہ ممبئی میں قائم اٹامک ریسرچ سینٹرکا ریکٹر خراب ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بھی متبادل نہیں ہے۔انہوں نے مزیدبتایا ’’اس ہفتے انہوں نے ایک تہائی مواد فراہم کیا ہے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا ، وہ صرف 2یا تین مریضوں کے کام آئے گا۔ ڈاکٹر جان نے کہا ’’ اگر ہمیں ہفتے کیلئے 600ملی لیٹر کی ضرورت ہے تو صرف 200ملی لیٹر بھیجاگیا ہے جو ہماری ضرورت سے کافی کم ہے۔میڈیکل سپر انٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے ہسپتال کیلئے خریداری کرنے والے شعبہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ متبادل کی تلاش شروع کریں کیونکہ مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ متبادل تلاش کرنا بھی آسان کام نہیں ہے اور اس میں بھی وقت درکار ہوگا‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ ملک کے ہر ایک ہسپتال کے شعبہ نیوکلیئر میڈیسن،اٹامک اینرجی ریگولیٹری بورڈ(Atomic energy regulatory Board) کی نگرانی میں کام کرتا ہے اور نیوکلیئر میڈیسن میں کسی بھی تبدیلی حتیٰ کہ اگر ٹوٹی ہوئی کھڑکی یا دروازے کو ٹھیک کرنا ہوگا ، ان سے اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تابکاری مواد سے ہونے والا ہر علاج اٹامک اینرجی ریگولیٹر بورڈ کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس لئے یہ ہمارے حد اختیار سے باہر ہے لیکن پھر بھی ہماری کوشش جاری ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تابکاری مواد کو کسی بھی ہسپتال میں ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ہاف لائف کے اصول پر بنا ہوتا ہے ، یعنی اس مواد میں موجود تابکاری ذرات کی تعداد ہر 3گھنٹے میں 50فیصد کم ہوجاتی ہے۔ اگر تابکاری مواد کے ایک لیٹر میں ہزار تابکاری زرات موجود ہوتے ہیں تو 3گھنٹے کے بعد اس میں صرف 500زرات ہی رہ جاتے ہیں اور ایک مریض کی دوائی کیلئے سکمز صورہ کو 11ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔