سرینگر //جموں و کشمیر کی صنعتی ترقی کے امکانات ختم ہوگئے ہیں، اور پچھلے 3برسوں سے برآمدات محض 600کروڑ تک پہنچ گئے ہیں۔ 2013-14 میں جموں کشمیر خاص کر وادی بر آمدات 2000کروڑ تک پہنچ گئے تھے جو اب سکڑ کر صرف 600کروڑ رہ گئے ہیں۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شیخ عاشق کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں صنعتی پیداوار یہاں کی کل جی ڈی پی کا ایک فیصد ہوگا جو اس بات کا غماز ہے کہ یہاں کی صنعتی پیدوار کس قدر کم ہورہی ہے اور یہاں کے صنعتی یونٹ کس حالت میں ہے۔انہوں نے کہا کہ چند سال قبل قالین یا ہنڈی کرافٹس کے ایکسپورٹر درجنوں میں تھے ، لیکن اب صرف 8تک رہ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں کی اقتصادی ترقی میں صنعتی یونٹوں کا ایک اہم رول ہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مراعات نہ دینے کی وجہ سے بیشتر صنعتی یونٹ بند ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صنعتی یونٹوں کے ذریعہ آمدن میں کمی سے 2لاکھ سے زیادہ لوگ براہ راست متاثر ہوگئے ہیں۔وہ بینکوں سے لئے گئے قرضیکے نیچے دب گئے ہیں، بیشتر نے صنعتی یونٹ بند کردیئے ہیں،قرضہ
اتارنے کیلئے اپنے مکان تک فروخت کئے ہیں حتیٰ کہ اپنی جائیداد بھی بہت لوگوں کو بیچنی پڑی ہے۔شیخ عاشق نے کہا کہ فی الوقت وادی میں مشکل سے 20یا 25فیصد یونٹ کام کرتے ہونگے اور انکی پیداوار بھی مقررہ ہدف حاصل نہیں کررہے ہونگے۔یہاں کے صنعتی یونٹ تقریباً 80فیصد خسارے پر چل رہے ہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں انکے لئے کام کرنا بیحد مشکل بن گیا ہے۔باہر کے مزدور یہاں سے چلے گئے ہیں اور اگر تربیت یافتی مزدور آتے بھی ہیں تو بہت کم وقت کیلئے کام کرکے واپس چلے جاتے ہیں اور وہ مقامی تربیت یافتہ افراد سے بہت زیادہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔مقامی تربہت یافتہ مزدوروں کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور یہ بھی صنعتی پیدوار میں کمی ہونے کا باعث ہے۔وادی می سب سے بڑے صنعتی اسٹیٹ لاسی پورہ پلوامہ میں 576یونٹ کام کرررہے ہیں۔کھنموہ کے سبھی تین سٹیج میں 550یونٹ رجسٹر ہیں۔رنگریٹ میں 272اور شالہ ٹینگ میں 42اور دوآبگاہ سوپور میں 4یونٹ کام کررہے ہیں۔لیتہ پورہ پلوامہ میں آئی ٹی اسٹیٹ اور اوم پورہ بڈگام میں ایک صنعتی اسٹیٹ زیر تعمیر ہے۔یہ سبھی صنعتی اسٹیٹ مقامات سڈکو کے تحت آتے ہیں جبکہ وادی میں حکومت کی دوسری بڑی ایجنسی سیکاپ کے تحت وادی کے 21مقامات پر قائم کئے گئے تجارتی یونٹ کام کررہے ہیں۔مجموعی طور پر فی الوقت وادی میں صرف 25فیصد یونٹ ہی کام کررہے ہیں باقی دیگر سبھی تجارتی یونٹ بند پڑے ہیں۔2019میں چیمبر آف کامرس نے صنعتی یونٹوں کے خسارے کا تخمینہ 40ہزار کروڑ لگایا تھا جو 2020میں تقریباً 30کروڑ رہا۔ پچھلے دو برسوں سے کشمیر سے بڑے پیمانے پر کو اشیاء یا چیزیںایکسپورٹ نہیں ہورہی ہیں۔حتیٰ کہ مقامی سطح پر استعمال ہونے والی چیزیں، جو یہاں کے صنعتی یونٹوں سے تیار ہوتے تھے، ان میں بھی کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں ان چیزوں کی قلت پیدا ہوئی اور قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔سڈکو کے جنرل منیجر آغا سعید اعجاز نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے 3برسوں سے صورتحال اس قدر موافق نہیں رہی کہ صنعتی یونٹ منافع بخش بن سکیں۔انکا کہنا تھا کہ صنعتی پیدوار میں کمی واقع ہوئی ہے اور اسکی وجہ مزدور دستیاب نہ ہونا اور مزدوری میں اضافہ کے عوامل شامل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچیں اس لئے خام مال کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں اور اسے یہاں لانے کیلئے کرایہ میں دوگنا اضافہ ہوگیا۔چیمبر آف انڈسٹریز کے سابق صدر شکیل قلندر کا کہنا ہے کہ وادی کے بیمار یا خسارے پر چلنے والے صنعتی یونٹوں کی بحالی ایک مشکل کام ہے اور یہ صرف مالی پیکیج سے ممکن ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کی رفتار پکڑنے کیلئے انقلابی نوعیت کے اقدمات اٹھانے ہونگے۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دو برسوں سے ایسا کوئی پیکیج سامنے نہیں آیا حالانکہ یہاں کی انڈسٹریز برائے نام پیدواری ہدف حاصل کررہی ہیں اور صنعتی یونٹوں کا زندہ رہنا اب نا ممکن بن گیا ہے۔