عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر //وادی میںمحکمہ زراعت کی جانب سے آلو کے خصوصی اقسام کی فصل اگانے کے لیے بہترین زرعی طریقوں پر خصوصی تربیت دی جارہی ہے۔محکمہ کا دعویٰ ہے کہ وادی میں بیماری سے پاک اور معیاری آلو کی پیداوار کا مرکز بننے کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔کیونکہ بڑے رقبے کی دستیابی اور سازگار آب و ہوا آلو کے بیجوں کی فصل کے لیے مناسب اور متوازن ہوتی ہے۔سائنسی نقطہ نگاہ سے5000-8000 فٹ کی اونچائی سے نیچے آنے والے پہاڑی علاقے اعلیٰ کوالٹی کے آلو کی کاشت کے لیے مناسب سمجھا جاتا ہے ۔پہاڑی علاقوں کے زمینداروں کو جموں و کشمیر کو خود کفیل بنانے کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی میں اعلیٰ کوالٹی کے آلو پیدا کرکے ہزاروں کی تعداد میں کسانوں کی مالی حالت سدھانے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے اور نہ صرف وادی کو آلو کی کھپت سے خود کفیل بنایا جاسکتا ہے بلکہ باہر کی منڈیوں میں سب ست بہترین آلو فروخت کئے جاسکتے ہیں۔وادی میں 70کی دہائی میں’ہیر پورہ سپیشل‘ ایک مقامی قسم کے آلو کے بیچ اگانے کی دوڑ لگی تھی جس کی وجہ سے بہترین قسم کے آلو، لوگوں نے اپنی زرعی اراضی پر اگائے اور اسکے بیچ فروخت بھی کئے۔کفر جوتی کے نام سے مشہور ہیر پورہ شوپیان کے آلو سب سے اعلیٰ قسم مانی جاتی تھی لیکن جوں جوں وقت گذررتا گیا لوگوں نے آلو کی زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنے کیلئے دیگر اقسام بھی اگانے شروع کئے۔1980کی دہائی میں وادی کشمیر میں بہت کم آلو کی پیدوار ہوتی تھی لیکن اسکے بعد محکمہ ایگری کلچر نے اسکے لئے باضابطہ طور پر ایک الگ ونگ قائم کی جس کے فوراً بعد محکمہ زراعت کی جانب سے بوسیان رفیع آباد،یاری کھاہ ٹنگمرگ، گلمرگ، اسمرگ گریز،سدھو شوپیان،بڈنمبل،کنہ دجن اور سنتھن کوکرناگ کے علاوہ آرڈو پہلگام میں سرکاری سید فارم قائم کئے۔ وادی میں فی الوقت800کوئنٹل آلو کی پیدوار ہوتی ہے، جو 800ہیکٹر اراضی پر کاشت کی جاتی ہے۔
سرکاری سیڈ فارموں میں بوسیان رفیع آباد میں 1073کنال،کوکرناگ میں 245کنال،یاری کھاہ ٹنگمرگ میں 120کنال،گلمرگ میں 150 کنال، اسمرگ گریز میں 30 کنال، اورسدھو شوپیان میں 70 کنال اراضی پر اعلیٰ کوالٹی کے آلو کے بیچ تیار کئے جاتے ہیں جنہیں بعد میں فروخت کیا جاتا ہے۔ان بیچوں کی فروخت کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے ہر سال کروڑوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے۔نصیر احمد خان پوٹیٹو ڈیولپمنٹ آفیسر نصیر احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کسانوں کے لیے فنڈز دستیاب کرائے جا رہے ہیں اور بیج کے گائوں بھی بنائے جا رہے ہیں، جو کسانوں کو آلو کی فصل کو فروغ دینے کے لیے تمام جدید تکنیکی معلومات فراہم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں زرعی محکمہ کی طرف سے جو بیج فراہم کئے جاتے ہیں انہیں جالندھر سینٹرل پوٹیٹو ریسرچ سینٹر میں تیار کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ آلو متنوع زمینوں میں پھلنے پھولنے کے قابل ہے جبکہ کاشتکار اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ کبھی بھی کم مقدار میں زمین پر اپنا پیٹ پال سکیں۔
انہوں نے کہا کہ عمومی طور پرآلو کو بہت کم بیماریاں لگتی ہیں اوراکثر سرد علاقوں میں اگائے جانے والے آلو کو بیماریوں کا کم خطرہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آلو کا پودا کم از کم 75 بیماریوں اور غیر طفیلی امراض کا شکار ہوتاہے، جن میں سے اکثر آلو کی پیداوار میں مسلسل نقصان کا باعث بنتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ آلو کی کچھ اہم ترین بیماریاں دیر سے جھلس جانا، جلدی جھلس جانا، تنے کا ناسور، آلو کا مسہ، پاڈری خارش، بیکٹیریل مرجھانا، کالی ٹانگیں وغیرہ شامل ہیں۔