سرینگر // کشمیر کے ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھنے میں مدد گار ثابت ہونے والے مہمان پرندوں کا شکار کشمیر کے آبی پناہ گاہوں میں بڑی بے دردی سے کیا جارہا ہے،اور اس کارروائی کو روکنے کیلئے نہ صرف محکمہ بلکہ سرکاری سطح پر بھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں ہورہے ہیں۔معلوم رہے کہ سرما کی آمد کے ساتھ ہی کشمیر کے آبی پناہ گاہوں کو چار چاند لگانے کیلئے ہر سال 5لاکھ مہاجر پرندے مختلف ممالک سے آتے ہیں رواں سال آنے والے مہاجر پرندوں کی تعداد بھی یہی بتائی جارہی ہے۔ لیکن ہر سال کی طرح آج بھی سہ پہر کے بعداکثر آبی پناہ گاہوں میں نامعلوم شکاری ان پرندوں کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں ۔شالہ بگ ویٹ لینڈ میں پرندوں کا شکار ہر گزرتے دن کے ساتھ تیز ہو رہا ہے جبکہ آنچار جھیل میں احمدنگر کے پچھلے طرف بھی شکاری ان مہمان پرندوں کا شکار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑرہے ہیں۔ہوکرسر، میر گنڈ، مانسبل اور ولر کے کچھ حصوں میں بھی یہ پرندے اب محفوظ نہیںرہے ہیں۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان جگہوں پر نہ صرف نامعلوم شکاری، شکار کرتے ہیں بلکہ بیروکریٹ اور وی آئی پی لوگ بھی اُن کا شکار کرنے پہنچتے ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے پرندوں کا شکار کرنے کا مقصد خود کا شکار ہے اور اگر ہمیں اپنی زندگیوںکو اور کشمیر کے ایکو سسٹم کو کنٹرول میں رکھنا ہے تو ان کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنی ہو گی۔کشمیر عظمیٰ نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے وارڈ ن ویٹ لینڈس عبدالروف زرگر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 1998تک مہمان پرندوں کے شکار کی اجازت تھی تاہم سال 2002میں جب جموں وکشمیر وائلڈ لائف ایکٹ میں تبدیلی آئی تو اُس کے بعد سے ایسے پرندوں کو مارنے پر مکمل پابندی عائد کی گئی جس کے بعد محکمہ نے ان مہمان پرندوں کو بچانے کی کوششیں شروع کر دیں۔انہوں نے کہا کہ شکاریوں کو ضلع انتظامیہ بندوق لائسنس فراہم کرتے ہیں حالانکہ وائلڈلائف محکمہ نے ایسے اجازے نامے منسوخ کئے ہیں جب سے شکار کرنے پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ 2برسوں کے دوران محکمہ نے 35کے قریب بندوقیں ضبط کیں جن میں پچھلے سال30اور رواں برس 5 شامل ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔بائیو ڈاورسٹی پارک یمنہ نئی دہلی کے سربراہ اورمعروف سائنسدان اعجاز احمد خودسر نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں قدرت نے بے شمار آبائی ذخائر اور قدرتی آبی پناہ گاہیں دی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں ہر سال لاکھوں مہاجر آبی پرندے یہاں آتے ہیں ۔ ڈاکٹر عجاز نے مزید کہا کہ یہ ماحول کیلئے غیر موزوں، نقصان دہ اور ناپسندیدہ کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔ ایسی مچھلیاں، پودے اور گھاس کھاتے ہیں جن کا حد سے زیادہ بڑھنا ماحول کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ماحول کو متوازن رکھنے میں یہ مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ڈل جھیل کی خوبصورتی تب ہی برقرار ہے کیونکہ یہ مہاجر پرندے آتے ہیں اُس میں پیدا ہونے والی بیماروں کو کم کرتے ہیں ۔