عادل جہانگیر
جموں و کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی، برف پوش پہاڑوں، سرسبز وادیوں اور شفاف دریاؤں کے باعث دنیا بھر میں جنت ارضی کے طور پر مشہور ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج یہی جنت غیر قانونی سرگرمیوں کی زد میں ہے۔ ان سرگرمیوں میں سب سے خطرناک اور تباہ کن عمل غیر قانونی کان کنی ہے، جو خاموشی کے ساتھ ہمارے ماحول، ہماری معیشت اور بالآخر ہمارے مستقبل کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
غیر قانونی کان کنی، یعنی ریت، بجری، پتھر اور دیگر معدنی وسائل کی غیر مجاز اور بے ضابطہ نکاسی، نہ صرف قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہے بلکہ یہ ماحولیاتی توازن کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ ہمارے دریاجو کبھی اپنی نیلگوں لہروں اور زرخیزی کے لیے جانے جاتے تھے، آج مشینوں کی بے رحمانہ کھدائی کا شکار ہیں۔ دریائے جہلم، دریائے سندھ اور دیگر چھوٹے بڑے ندی نالے غیر قانونی کان کنوں کے رحم و کرم پر ہیں، جنہیں فوری منافع کمانے کی ہوس نے اندھا کر دیا ہے۔
ماحولیاتی نقصان :۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ غیر قانونی کان کنی ماحولیاتی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔ دریاؤں سے ریت اور بجری کی بے دریغ کھدائی کے باعث پانی کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے، جس سے کٹاؤ اور زمین کے دھنسنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو جموں و کشمیر میں شدید ماحولیاتی بحران جنم لے گا، جس میں زمین کھسکنے (Landslides)، سیلاب اور زراعت کی تباہی شامل ہے۔
غیر قانونی کان کنی کی وجہ سے زمینی پانی کی سطح بھی تیزی سے گر رہی ہے۔ جب زمین سے معدنیات اور پتھر نکالے جاتے ہیں تو وہ قدرتی تہہ ختم ہو جاتی ہے جو بارش کے پانی کو جذب کر کے زیرِ زمین ذخائر کو بھرنے کا کام کرتی ہے۔ نتیجتاً مستقبل قریب میں پانی کی قلت کا سنگین مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، جو پہلے ہی وادی کے کئی علاقوں میں شدت اختیار کر رہا ہے۔
حیاتیاتی تنوع پر اثرات:۔جموں و کشمیر کا شمار حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کے حوالے سے دنیا کے اہم خطوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے جنگلات، چراگاہیں اور دریا سیکڑوں اقسام کے پودوں اور جانوروں کا مسکن ہیں۔ لیکن غیر قانونی کان کنی نے ان مسکنات کو تباہ کر دیا ہے۔ دریاؤں سے مچھلیوں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں کیونکہ ان کے افزائش کے مقامات مشینوں کے شور اور کھدائی کے باعث برباد ہو چکے ہیں۔ اسی طرح جنگلی حیات کے مساکن سکڑتے جا رہے ہیں اور کئی نایاب پرندے و جانور معدومی کے دہانے پر ہیں۔
معاشرتی اور معاشی پہلو :۔اس تباہی کا ایک پہلو معاشرتی بھی ہے۔ غیر قانونی کان کنی میں ملوث گروہ طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو نہ صرف قانون کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ مقامی آبادی کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کرتے ہیں۔ یہ مافیا اپنی سیاسی اور مالی طاقت کے بل بوتے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اثر انداز ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عام لوگ بے بس ہو جاتے ہیں۔مزید یہ کہ غیر قانونی کان کنی کی وجہ سے حکومت کو بھاری مالی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اگر یہ معدنیات قانونی طریقے سے نکالی جائیں تو ان پر ٹیکس اور رائلٹی کی مد میں حکومت کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہو سکتی ہے جو تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو۔ لیکن غیر قانونی کان کن اس آمدنی کو اپنی جیب میں ڈال رہے ہیں اور حکومت کو محروم کر رہے ہیں۔
انسانی صحت پر اثرات :۔کان کنی کی یہ سرگرمیاں مقامی آبادی کی صحت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔ مشینوں کے شور، دھول اور مٹی کے ذرات سے سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ بچے اور بزرگ خاص طور پر ان بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں یہ شکایات عام ہو گئی ہیں کہ لوگ کان کنی کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی سے ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی کا شکار ہیں۔
قانونی پہلو اور ناکامی:۔ اگرچہ حکومت نے غیر قانونی کان کنی پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور کئی بار سخت ایکشن لینے کے دعوے بھی کیے ہیں، لیکن عملی طور پر یہ دعوے زیادہ دیر قائم نہیں رہتے۔ وجہ یہ ہے کہ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ وہ انتظامیہ اور بعض اوقات سیاستدانوں تک کو اپنے اثر میں لے لیتا ہے۔ اس صورتِ حال نے عام لوگوں کے دلوں میں قانون کی کمزوری اور بے بسی کا تصور پیدا کر دیا ہے۔
حل کی راہ:۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تباہی کو کیسے روکا جائے؟ سب سے پہلے ضروری ہے کہ حکومت غیر قانونی کان کنی کے خلاف عملی اور سخت اقدامات کرے۔ صرف وقتی کریک ڈاؤن کافی نہیں بلکہ ایک مستقل اور شفاف نظام وضع کرنا ہوگا۔ اس نظام کے تحت نہ صرف قانون شکن عناصر کو سزا دی جائے بلکہ کان کنی کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی جیسے ڈرون اور سی سی ٹی وی کیمروں کا استعمال بھی کیا جائے۔
دوسرا اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ مقامی لوگوں کو اس مافیا کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے بااختیار بنایا جائے۔ اگر عوام خود اس جرم کی نشاندہی کریں اور حکومت ان کی شکایات کو سنجیدگی سے لے تو غیر قانونی کان کنی کو کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
تیسرا پہلو آگاہی کا ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں، میڈیا اور سماجی تنظیموں کے ذریعے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ غیر قانونی کان کنی صرف چند افراد کا ذاتی فائدہ نہیں بلکہ پوری نسل کا اجتماعی نقصان ہے۔ اگر آج ہم نے اپنی زمین، پانی اور جنگلات کو نہ بچایا تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
نتیجہ :غیر قانونی کان کنی جموں و کشمیر کے لیے ایک خاموش لیکن خطرناک المیہ ہے۔ یہ عمل نہ صرف ماحول کو تباہ کر رہا ہے بلکہ ہماری معیشت، معاشرت اور مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔ حکومت، عوام اور سول سوسائٹی کو مل کر اس عفریت کے خلاف عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے وسائل کی حفاظت کریں، اپنی زمین کو بچائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل فراہم کریں۔ بصورت دیگر یہ جنت نما وادی رفتہ رفتہ ایک ویران صحرا میں بدل جائے گی۔
رابطہ۔6005068748