سرینگر //وادی میں150سے زائد چھوٹے بڑے پلوں کی تعمیر کا کا م کھٹائی میں پڑا ہواہے ۔سینکڑوں علاقے ایسے ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے آواجاہی کا رابطہ آسان بنانے کیلئے پلوں کی تعمیر کی مانگ کر رہے ہیں لیکن سرکار کی جانب سے اُس طرف کوئی دھیان نہیں دیا جارہاہے اور صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا جارہا ہے ۔محکمہ آر اینڈ بی میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ 150کے قریب پل وادی میں ایسے ہیں جن کا کام برسوں سے تشنہ تکمیل ہے اور جن پلوں پر کام چل رہا ہے وہ بھی سست رفتاری کا شکار ہے ۔ذرائع کے مطابق بیسوں ایسے پل ہیں جن پر آدھا پیسہ خرچ ہو چکا ہے اور آدھے کا کام نامعلوم وجوہات کی بنا پر رکا پڑا ہے ۔ان پلوں کا کام یا تو محکمہ آر اینڈ بی کے ذمے تھایا پھر دیگر تعمیراتی ایجنسیاں انہیں تعمیر کر رہی تھیں ۔معلوم رہے کہ وادی بھر میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں بستیاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے سے منقطع ہیں اور مقامی لوگوں کو میلوں کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے ،جبکہ کئی نالوں ،جہاں پلوں کی اشد ضرورت ہے، پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت عارضی پل تعمیر کئے ہیں جو خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ۔وادی کے سرحدی علاقے کپوارہ کی اگر بات کریں تو وہاں رامحال اور کرالہ پورہ چوکی بل علاقوں کے درمیان زیر تعمیر 2 پل گزشتہ15برسوں سے زیر تعمیر ہیں ۔ رامحال ، چوکی بل ،کرالہ پورہ اور ترہگام کے لوگو ں کا کہنا ہے کہ سابق سرکاروںنے اس نالہ پر نصف درجن پلوں پر کام شروع کیا لیکن بعد میں نا معلوم وجوہات کی بنا پر کام روک دیا اورکہیں کہیں سست رفتاری سے جاری ہے۔بابا پورہ ،آلوسہ، سلامت واری ،کلمونہ ،شہر کو ٹ ،پچ کوٹ اور تارت پورہ کے لوگو ں کے مطابق 2009میں اْس وقت کے وزیراعلیٰ عمر عبد اللہ نے آ لوسہ آکر شہر کو ٹ اور آلوسہ کے درمیان نالہ کہمل پر ایک پل کا سنگ بنیاد رکھا اور لوگو ں کو یقین دلایا کہ اس پل کو مقررہ وقت کے اندر مکمل کیا جائے گا لیکن 9سال گزر نے کے با وجود اس پل کا 5فیصد کام بھی مکمل نہیں ہو سکا۔چک درمولہ میں نالہ پہرو پر 15سال سے ایک پل تشنہ تکمیل ہے جبکہ کنن پوش پورہ میں 12سال سے ایک پل کا کام مکمل نہیں ہو سکا ہے ،یہی نہیں بلکہ نالہ حد کرالپورہ پر تین پلوں کی ضرورت ہے اس نالے کے آس پاس رہنے والے لوگوں نے آواجاہی کیلئے وہاں عارضی پل تعمیر کئے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثہ کا سبب بن سکتے ہیں ۔کرناہ کے مڈیاں گبرہ میں کئی برس قبل ایک پل کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا ۔پل پر اگرچہ 5لاکھ روپے خرچ کر کے گبرہ کو ٹاڈ سے ملانے کا دعویٰ ٰ کیا گیا لیکن پل پر کام روک دیا گیااور اس پل کا کام بھی پچھلے 12برسوں سے نہیں ہو سکا ہے ۔معلوم رہے کہ ضلع کا حالیہ دورہ کرنے کے دوران چیف سیکٹری نے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ ضلع میں 17پلوں کی تعمیر کا کام اپریل میں مکمل ہو گا لیکن زمینی سطح پر کوئی کام اس طرح نہیں ہورہا ہے۔بانڈی پورہ کے اٹھ وتو علاقے میں ایک پل 10برسوں سے زیر تعمیر ہے اور اس کی مرمت بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے جس کے سبب ایک بڑی آبادی کٹ کر رہ گئی ہے۔ضلع گاندربل میں بھی تین پل ایسے ہیں جو برسوں سے مکمل تعمیر نہیں ہورہے ہیںان میں بم لورہ لونر واتل باغ پل بھی شامل ہے جس کا کام 70فیصد مکمل ہے اور 30فیصد کام پچھلے 2برسوں سے نہیں ہو رہا ہے۔ اسی طرح اکہال کنگن کا پل 8برسوں سے زیر تعمیر ہے ۔یچھہ ہامہ میں پل کی تعمیر بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے جس کے سبب ضلع کے درجنوں دیہات کا رابطہ ایک دوسرے سے کٹا ہوا ہے ۔شوپیاں ضلع میں ریشی نگری سے آڈہ بل کولگام کے درمیان پل کا سنگ بنیاد 2014میں عمر عبداللہ سرکار میں رکھا گیا لیکن یہ پل ابھی تک تشنہ تکمیل ہے ۔ پلوامہ کے ترچھل علاقے میں پچھلے سال ایک اہم پل بارودی سرنگ دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا۔لیکن تب سے یہ پل تعمیر نہیں کیا جاسکا۔پل کی تعمیر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ شاہورہ کے سینکڑوں دیہات کا رابطہ پلوامہ ضلع ہیڈکوارٹر سے کٹا ہوا ہے۔نیوہ پلوامہ میں نالہ رومشی پر بھی پچھلے 5سال سے پل تعمیر نہیں ہوسکا ہے۔جٹی خواجہ باغ بارہمولہ علاقے میں سرکار نے16سال قبل ایک پُل کا کام شروع کیا تاہم ابھی بھی وہ نامکمل ہے جبکہ پل کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ۔ قصبہ بارہمولہ میں ستمبر 2014کے تباہ کن سیلاب کے دوران ایس آرٹی سی پُل گر کر تباہ ہوگیا تھا تاہم 5 سال گذر نے کے باوجود بھی مذکورپُل تشنہ تکمیل ہے ۔مہاراج پورہ سوپور علاقے کو سیر کالونی سے جوڑ نے کیلئے 6سال قبل ایک پُل کے تعمیر کا کام شروع کیا گیا ۔تاہم لاکھوںروپے خرچ کئے جانے کے باوجود بھی یہ پُل مکمل نہ ہو سکا۔ضلع بارہمولہ کے شالکوٹ رفیع آباد علاقے میں پُل کی عدم دستیابی کی وجہ سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ طلاب کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ قصبہ پٹن کے دارگام علاقے میں پل کی عدم دستیابی کی وجہ سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ طلاب کو بھی سخت مشکلات درپیش ہیںدارگام سے پٹن کے درمیان ایک لکڑی کا پل مقامی آبادی نے خود بنایا تھا لیکن یہ پل اب خطرے کا باعث بن چکا ہے۔ اوڑی بونیار کے بجہامہ کے مضافات ناگہ ڈائی میں ڈائی پراری پورہ سے پیر محلہ بجہامہ کے درمیان ایک لکڑی کا پْل مقامی آبادی نے خود بنایا تھا ،لیکن بدقسمتی کی وجہ سے یہ پْل ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف نا گہ ڈائی پراری پورہ اورپیر محلہ بجہامہ کو بلکہ اس کے آس پاس نصف درجن دیہات کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلع بارہمولہ میں شالکوٹ سے برمن کے درمیان لکڑی کا ایک عارضی پْل ازخود بنایا گیا تھا لیکن وہ بھی خطرے کی علامت بن چکا ہے۔اسی طرح وادی میں دیگر سینکڑوں ایسے پل ہیں جن کا کام مکمل نہ ہونے کے سبب سینکڑوں بستیوں کا عبور ومرور میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔محکمہ آر اینڈ بی کے ایک اعلیٰ افسر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پلوں کی تعمیر میں تاخیر زمین کے حصول میں دیری ، فنڈس کی کمی اور دیگر مشکلات سامنے آتی ہیں ۔ کشمیر عظمیٰ نے اس حوالے سے جب محکمہ آر اینڈ بی کے چیف انجینئر سمی عارف سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وادی میں اس وقت123پلوں پر کام چل رہا ہے ۔انہوں نے پلوں کی تعمیر میں تاخیر کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اب اُن پر جلد کام مکمل کیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے زیر التو پڑے پروجیکٹوں کیلئے ایک نئی سکیم بنائی ہے تاکہ رکے پڑے پروجیکٹوں کومکمل کیاجا سکے ۔