اشفاق سعید
سرینگر//شمالی کشمیر کے سب سے خوبصورت جگہ وادی بنگس میں سڑکوں کا جال بچھا کر اسکی خوبصورتی اور حساس ماحولیاتی صورتحال پر سماجی حلقوں میں شدید تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ راجواڑ ہندوارہ کے جنگلات میں سنٹرل روڈ فنڈ (CRF) کے تحت سڑک کی تعمیر کے دوران 14 ہیکٹر سے زائد جنگلاتی اراضی کو درختوں سے صاف کر دیا گیا، جبکہ منصوبے کے لیے ماحولیاتی یا جنگلی حیات کے تحفظ کی کوئی منظوری (Environmental/Wildlife Clearance) حاصل نہیں کی گئی تھی۔ اس معاملے میں نیشنل گرین ٹریبونل (NGT) کے سامنے بھی سماعت ہورہی ہے۔ٹربیونل کے سامنے جو تحریری درخواست درج کی گئی ہے اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ محکمہ تعمیرات عامہ (PWD) نے کمپارٹمنٹ نمبر 1 سے 28 تک کے حصوں میں کروڑوں روپے مالیت کے نایاب درختوں کو کاٹا اور پہاڑی خطے کو نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ اس غیر قانونی سرگرمی کو کس اجازت کے تحت انجام دیا گیا۔علاوہ ازیں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان کمپارٹمنٹس میں 14 ہیکٹر سے زائد جنگلات تباہ کر دیئے گئے جس سے علاقے کا قدرتی ماحولیاتی توازن بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پروجیکٹ
پروجیکٹ کے پہلے مرحلے (Phase I) کے لیے منظوری 2020 میں ختم ہو گئی تھی، جب کہ دوسرے مرحلے (Phase II) کے لیے کوئی منظوری حاصل نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود تعمیراتی کام مسلسل جاری رہا، جو کہ ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 1986، جنگلی حیات ایکٹ اور فاریسٹ کنزرویشن ایکٹ 1980کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ جنگلات نے اس غیر قانونی سرگرمی کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ درختوں کی کٹائی 2017-18 سے جاری ہے، جبکہ تعمیراتی ایجنسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منصوبہ 2019-20 میں شروع ہوا جس سے منصوبے کے آغاز کے وقت پر تضاد پیدا ہو گیا ہے۔قومی گرین ٹریبونل کے سامنے شکایات میں آر ٹی آئی رکن راسخ رسول بٹ نے سوال اٹھایا کہ تعمیر سے قبل دونوں فیزز کے لیے ضروری ماحولیاتی اور وائلڈ لائف اجازت نامے کیوں نہیںلئے گئے؟۔ ان کے مطابق ایسی کوئی کارروائی انجام نہیں دی گئی، اور تمام قواعد و ضوابط کو نظرانداز کیا گیا۔ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بنگس جیسے حساس ماحولیاتی زون میں بغیر منظوری کے سڑک کی تعمیر قدرتی نظام کے لئے تباہ کن نتائج پیدا کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی انسانی مداخلت سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع (Biodiversity)کو خطرہ لاحق ہے بلکہ ندی نالے، جڑی بوٹیاں اور جنگلی حیات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔راسخ رسول نے مزید کہا کہ یہ معاملہ صرف ماحولیاتی تباہی کا نہیں بلکہ مالی بے ضابطگیوں کا بھی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائے تاکہ عوام کے سامنے اصل حقائق آئیں۔قابل ذکر ہے کہ اگست 2025 میں نیشنل گرین ٹریبونل نے اس منصوبے میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی پر جموں و کشمیر حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ٹریبونل کی رپورٹ کے مطابق راجواڑ جنگلات میں سڑک کی تعمیر کے دوران 1000 سے زائد درخت اور پودے کاٹے گئے، جبکہ محکمہ تعمیرات عامہ کو 3.81 کروڑ روپے کی رقم بطور کمپنسیٹری فاریسٹییشن (Compensatory Afforestation) اور نیٹ پریزنٹ ویلیو (NPV) کے طور پر جمع کرانے کو کہا گیا ۔محکمہ پولیوشن کنٹرول کمیٹی حکام نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس تعلق سے ماضی میں کمیٹی نے بہت سی رپورٹس این جی ٹی کے پاس جمع کرائیں اور فیصلہ وہاں سے آئے گا کہ اس میں کون لوگ قصور وار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ضلع کپوارہ سے ایک مفصل رپورٹ بھیج دی گئی ہے،اس تعلق سے کہ یہاں ماحولیات کو نقصان پہنچا ہے ۔ محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹر فاریسٹ عرفان رسول وانی سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا ۔کنزرویٹر فاریسٹ ناتھ زون عرفان رسول شاہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ رقم بطور کمپنسیٹری فاریسٹییشن (Compensatory Afforestation) اور نیٹ پریزنٹ ویلیو (NPV) کے طور پر پچھلے ہفتے آ چکی ہے اور تمام زیرِ التوا کیسز حل کر لیے گئے ہیں۔ اب کوئی بڑا مسئلہ باقی نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پروجیکٹ کے فیز-فسٹ کے تحت اس منصوبے کو منظوری حاصل تھی اور اس وقت ماحولیاتی کلیئرنس بھی دی گئی تھی۔پیسے سے متعلق تمام معاملات اب نمٹ چکے ہیں۔