وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بار بار مودی جی کو واجپائی اپروچ کی یاد دلاتی ہیں۔اب تازہ دہائی یہ دی گئی کہ ماہِ رمضان کے دوران حکومت ہند سیزفائر کرے۔یہ بات الگ ہے کہ محبوبہ جی یونیفائڈ ہیڈکوارٹر ز کی چیئرپرسن ہونے کی حیثیت سے یہ اعلان خود بھی کرسکتی ہیںلیکن انہوں نے حکومت ہند سے کیوں اپیل کی۔ یہ علیحدہ موضوع ہے۔ یہاں مقصود اُس مفروضہ کا احاطہ کرنا ہے جس کی بنیاد پر یہاں کے اقتدار نواز او ر بعض اعتدال پسند حلقے مودی حکومت سے نرم روی اور کاوِش امن کی توقع باندھ بیٹھے ہیں۔
اٹل بہاری واجپائی 1999میںبھارت کے وزیراعظم بنے۔یہ وہ زمانہ ہے جب امریکہ افریقہ میں چین کے بڑھتے نفوذ سے پریشان تھا اور امریکی پالیسی سازوں کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ اگلے بیس سال تک مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشیا کا فریم ورک تیار کریں۔ سٹیفن کوہن اور بروس ریڈال نے بھی اس منصوبہ سازی میں کردار نبھایا۔اس منصوبے کے مطابق بھارت کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ اور اسے چین کے مقابلہ اُبھرتے سُپرپاور کے طور پروجیکٹ کرنا شامل تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب سِول نیوکلیائی معاہدہ کی باپت جسونت سنگھ اور سٹروب ٹالبوٹ کے درمیان طویل مذاکراتی سلسلہ چلا۔بھارت اور پاکستان کے حکمرانوں کو گویا کان میں بول دیا گیا تھا کہ نام کی ہی سہی لیکن فی الوقت صلح کرلو ۔
یہ یونہی نہیں تھا کہ کرگل میں جنگ لڑنے کے بعد واجپائی نے آگرہ میں جنرل مشرف کے ساتھ ظہرانہ لیا ۔ اور پھر نائن الیون ، بھارتی پارلیمان پر حملہ، جموں کشمیر اسمبلی کمپلیکس پر حملہ بھی افہام و تفہیم کے اس سلسلے کو روک نہ پایا۔نیپال میں سارک کے گیارہویں اجلاس میں جنرل مشرف تقریر ختم کرنے بعد ڈائس سے یہ کہتے ہوئے واجپائی کی کرسی کی طرف بڑھے کہ ’’میں صدق دلی سے وزیراعظم واجپائی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھارہا ہوں، ایک ساتھ ہم جنوب ایشامیں بھائی چارے، امن اور ترقی کا سفر شروع کریں گے۔‘‘ واجپائی کو اپنی نشست سے اُٹھنا پڑا اور ہوا میں پھیلا مشرف کا ہاتھ تھامنا پڑا۔مشرف کے بعد تین رہنماؤں کی تقریرتھی اور اسکے بعد واجپائی بولے۔ انہوں نے بھارت اور کشمیر میں ہوئے حملے گنِواتے ہوئے کہا کہ’’میں بھی صدق دلی سے لاہور گیا تھا، لیکن اس جواب کرگل میں جارحیت سے دیاگیا۔‘‘ بعد ازاں جب آگرہ میں جنرل مشرف اور واجپائی کے درمیان طویل بات چیت ہوئی تو 16جولائی کو واجپائی نے مشرف کو رخصت تک نہیں کیا، جس پر پاکستان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور مشرف کو ضرورت سے زیادہ معذرت خواہ یعنی اپالوجِسٹ قرار دیا گیا۔عالمی حالات بدل رہے تھے اور امریکہ کی ترجیحات بھی۔ پاکستانی فوج نے امریکہ کو بتادیا تھا کہ وہ افغان جنگ میں فوکس نہیں کرپائے گی اگر بھارت کے ساتھ لگنے والی سرحد پر خدشات موجود رہے۔ اس میں واجپائی کا بڑھپن کہاں سے آگیا کہ 2003میں ایل او سی پر سیز فائر کیا گیا۔ امریکہ چین کو کنٹین کرنے کے لئے بھارت کو استعمال کرتا رہا ہے اور روس کو چیک کرنے کے لئے پاکستان کو۔
1999سے 2004تک واجپائی ملک کے وزیراعظم رہے۔ اس دوران ایل او سی پر سیز فائر، سارک اجلاس میں دست بوسی اورآگرہ کے ناکام مذاکرات کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔کشمیرمیں وہ دور نسبتاً پرامن تھا ، لیکن گرفتاریوں، قدغنوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ کبھی نہیں تھما۔حزب المجاہدین کے ساتھ بات چیت، حریت قیادت کے ساتھ مذاکرات اور فوج کی جانب سے رمضان سیز فائر بھی اُس وقت کی امریکی ترجیحات کے تناظر میں دیکھیں بات صاف ہوجاتی ہے۔اگر واقعی واجپائی کشمیرکے بارے میں مخلص ہوتے تو فوجی قانون افسپا ہٹ جاتا، افضل گورو کے بارے میں ڈیپ سٹیٹ کا رویہ نرم ہوتا، قیدیوں کور ہا کیا جاتا ، نوجوانوں کے سروں پر پولیس کی تلوار نہ لٹکتی، طلبہ کو تنظیم سازی کی اجازت ہوتی، کپوارہ کے بنگر گنڈ میں کرکٹ کھیل رہے بچوں کا قتل عام نہ ہوتا۔
کل واجپائی نرم تھے ، کیونکہ امریکہ چاہتا تھا کہ دونوں کے درمیان فی الحال معاملات ٹھنڈے رہیں۔ آج مودی سخت گیر ہیں کیونکہ امریکہ کی ترجیحات قدرے بدل گئی ہیں۔خواہ مخواہ واجپائی ڈاکٹرین کی دہائی دے دے کر عوام کنفیوز کیا جارہا ہے۔بات سیدھی ہے کہ حکومت ہند فی الوقت فولادی ہاتھ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اگرحکومت کو قائل کرنا ہے کہ یہ پالیسی غلط ہے تو اس کے لئے ٹھوس سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ واجپائی واجپائی کی رـٹ لگانے سے یہ نہیں ہوگا۔اس سے یہی ہوگا کہ اِدھر آپ اپیل کریں گی، اُدھر فوجی قیادت اشتعال انگیز بیانات دے گی۔ ناگا لینڈمیں حالیہ دنوں سبھی سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کا تب تک بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا جب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بعد ازاں حکومت ہند نے ناگا مزاحمت کاروں کے ساتھ بات چیت میں سرعت لائی اور ایک معاہدہ بھی طے پایا۔ہمارے یہاں کا اقتدار نوا ز خیمہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)