ریاستکچھ دوست مجھ سے بار بار یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر میری نظروں میں این سی اور پی ڈی پی دونوں کشمیریوں کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہیں اور ہر سطح پر کشمیریوں کو مایوسی کی طرف دھکیلنے میں ان جماعتوں کا کلیدی کردار رہا ہے تو بھلا میں نے کیوں کر این سی اور پی ڈی پی کو آپس میں اتحاد کرکے حکومت بنانے کی تجویزدی ۔ مجھے اپنے ناقدین کی رائے کا احترام ہے لیکن میں نے جب این سی اور پی ڈی پی کو ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کی گذارش کی ایسا میں نے اُن کے ساتھ اپنی محبت یا کسی ہمدردی کی وجہ سے نہیںکہا بلکہ حالات کا تقاضا تھا کہ کشمیری ہر سطح پر ممکنہ حد تک باہم تعاون کریں ۔ اگر کسی پیشہ ور مجرم کو سزائے موت دی گئی ہو تو اسے بھی سولی چڑھانے سے پہلے اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے لیکن جسطرح پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کو مکمل بے خبری اور بے حسی کے عالم میں عرش سے فرش پر گرا دیا گیا وہ ہرگز پی ڈی پی اور بی جے پی کا باہمی مسئلہ نہیں ہو سکتا ۔ پھر اہل کشمیر کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ مزاحمتی تحریک کے ساتھ بے پناہ وابسطگی کے باوجود ان کے ووٹوں کے ہی مدد سے محبوبہ مفتی یا کوئی اور ایوان اقتدار تک پہنچ سکے ہیں ۔ سوال محبوبہ مفتی کی ذات کا نہیں بلکہ اُس نا پسندیدہ ، عامرانہ ، غیر جمہوری اورغیر اخلاقی طریقہ کار کا ہے جو نئی دلی نے 1953سے آج تک ریاستی حکمرانوں کے ساتھ روا رکھا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ کشمیر مسئلہ کو بار بار انتخابات سے جوڑ کر اور ریاستی حکمرانوں کو مختلف اہم امورات سے راہ فرار کا موقعہ دیکر ہم کشمیر مسئلہ کے حل میں خود ہی پیچیدگیاں پیدا کر رہے ہیں کیونکہ جہاں اقوام متحدہ کی قراردادیں بالکل واضح ہیں کہ اِس پار یا اُس پار کے جموں کشمیر کے خطہ میں بننے والی کوئی بھی اسمبلی ہر گز اقوام متحدہ میں منظور شدہ قراردادوں کی حیثیت کو متاثر نہیں کر سکتی وہاں ہم گذشتہ تیس برسوں سے ایک دوسرے کی ٹانگیں انتخابات میں شمولیت یا عدم شمولیت کے حوالے سے کھینچنے میں شدت سے مصروف ہیں ۔ تاہم اس بات میں بھی کافی وزن ہے کہ نئی دلی ان انتخابات میں لوگوں کی بھاری شمولیت کو جموں کشمیر کے دیرینہ تنازعہ کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کرتی ہے ۔ لیکن سوال پھر کشمیریوں سے ہی ہے کہ آخر ووٹ ڈالنے والے نہ آسمان سے اترنے والی کوئی مخلوق ہے اور نہ ہی انتخابات کے دن مردے قبروں سے اٹھ کر این سی اور پی ڈی پی کیلئے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ لہذا سرکار کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے کوئی بھی ذی حس کشمیری اپنے آپ کو ہرگز الگ نہیں کر سکتا اور جسطرح بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مین اسٹریم سیاست کی اہمیت تمام تر خامیوں کے باوجود اپنی جگہ قائم و دائم ہے اس سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مین اسٹریم سیاست میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی ہلچل براہ راست مزاحمتی تحریک کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ ایسے میں اگر محبوبہ مفتی کو بے عزت کرکے اقتدار سے باہر پھینک دیا جاتا ہے تو اس کا کشمیریوں کی عزت نفس اور مزاحمتی تحریک سے براہ راست تعلق بنتا ہے ۔ اگر نئی دلی اُس مین اسٹریم کو رسوا اور ذلیل کرنے میں کوئی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی جس نے ہمیشہ سے کشمیریوں کے بجائے نئی دلی کے مفادات کو ترجیح دی ہے تو بھلا ہندوستانی آئین کے باہر کشمیر مسئلہ کے حل کی وکالت کرنے والوں کی بات کہاں سنی جا سکتی ہے ۔ اس تناظر میں یا تو مین اسٹریم سیاستدانوں کو ماضی کی تمام غلطیوں سے توبہ کرکے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے یا پھر انہیں بھی تب تک انتخابات سے دور رہنا چاہئے جب تک نہ نئی دلی کشمیر مسئلہ کے منصفانہ اور دائمی حل کیلئے بامعنیٰ مذاکرات کیلئے آمادگی کا اظہار کرے ۔لیکن جسطرح کی سرد مہری دونوں این سی اور پی ڈی پی نے ہماری دونوں جماعتوں کے اشتراک کی تجویز کو لیکر دکھائی اسے صاف ظاہر ہے کہ یہ جماعتیں دلی کیلئے لونڈیوں اور طوائفوں کا رول نبھا رہی ہیں اور ہر وقت کبھی بی جے پی تو کبھی کانگریس کی گاڑی میں سوار ہو کر کشمیریوں کو بے رحمی کے ساتھ کچلنے کی راہ پر چل پڑتی ہیں ۔ یہاں قارئین کرام کو اس بات کا مطلع کرنا ضروری ہے کہ ہمار ی طرف سے این سی اور پی ڈی پی کی ملی جلی سرکار بنانے کی تجویز کے بعد جب ہم نے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے ملاقات کیلئے وقت مانگا تو دونوں نے ٹال مٹول سے کام لیا ۔ حد تو یہ ہے کہ عمر صاحب نے تین بار وقت تو دیا لیکن ملاقات نہ دی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے یہ بے تاج بادشاہ کسی کو بھی خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی ان کے نزدیک کشمیریوں کی عزت نفس کی کوئی قیمت ہے ۔ دراصل یہ دونوں جماعتیں نئی دلی سے ٹکر لینا تو دور کی بات اپنی معمولی جائز بات رکھنے سے پہلے بھی دس بار اس بات کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کہیں نئی دلی کا موڑ ان کی بات سے بگڑ نہ جائے ۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر این سی اور پی ڈی پی دونوں ہندوستانی وفاق کے اندر کشمیر مسئلہ کے حل کی بات کرتے ہیں ، دونوں کبھی کانگریس تو کبھی بی جے پی کی بی ٹیم بننے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتی ، دونوں نے ریاست کی خود مختاری کو کسی نہ کسی طریقے سے ختم کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ، دونوں نے مسرت عالم اورقاسم فکتو سمیت درجنوں محب وطن کشمیریوں کو سالہاسال سلاخوں کے پیچھے رکھا ہے ، دونوں کے ہاتھ عام کشمیریوں کے علاوہ اپنے ہی ووٹروں تک کے خون سے رنگے ہوئے ہیںاور دونوں دلی کے اشاروں پر وہ سارا کام کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے جس کا محور کشمیریوں کی مزاحمت اور استقلال کو توڑنا مقصود ہے تو بھلا یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کیلئے تیار کیوں نہیں ہوتی ۔ جس دن اہل کشمیر یا تو مکمل طور سے انتخابات سے دور رہنے کا فیصلہ کریں گے یا پھر میرٹ کی بنیاد پر ووٹ دیں گے اس دن عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نہ صرف ماضی کی غلطیوں سے توبہ کریں گے بلکہ حریت سے بھی زیادہ کشمیریوں کے وکیل بن کر کشمیر مسئلہ کے حل کی بات کرنے کیلئے دونوں تیار ہو جائیں گے۔ بدلنا ہر حا ل میں لوگوں کو ہی ہوگا اور جب تک عوام منظم طریقے سے کوئی ایک حقیقت پسندانہ راستہ اختیار نہیں کریں گے تب تک عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی تواتر کے ساتھ کشمیریوں کو جھٹکے پر جھٹکا دیتے رہیں گے اور انہیں ہر بار اور ہر صبح سورج دلی کے سائوتھ بلاک سے طلوع ہوتا ہوا نظر آئے گا اور وہ نارتھ بلاک میں اس کو غروب ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ کشمیر مسئلہ کے حل کی خلوص پر مبنی بات کرنا دور کی بات آج کی تاریخ میں اگر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی صدقدلی سے ہندوستانی بن کر ہی بات کرتے شائد وہ بھی غنیمت تھا لیکن ایسا کرنے کیلئے انہیں ممتا بینرجی ، ارویند کیجروال یا چندر بابو نائیڈو بننا پڑے گا لیکن ان شہزادوں اور شہزادیوں میں کھڑے ہوکر دولفظ بولنے کی بھی جرت نہیں ۔حد تو یہ ہے کہ یہاں کوئی رابڑی دیوی یا چندرماجی بھی نظر نہیں آتا۔لیکن اس سب مایوس کن صورتحال کے باوجود جب تک اہل کشمیر ان دونوں جماعتوں کو اپنے نام نہاد قیمتی ووٹ سے کامیاب کرتے رہیں گے تب تک ان کی بے عزتی ہر کشمیری کی بے عزتی ہے اور ان کی تقدیر کو کشمیریوں کی مقدر سے الگ کرکے دیکھنا سراسر نادانی اور فحش غلطی کے مترادف ہوگا۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی ماضی اور حال سے سبق سیکھ کر مستقبل کی فکر کریں لیکن اس کیلئے لازمی ہے کہ وہ حقیقت پسند بنیں اور حقیقت پسندی کے آئینے کے سامنے اگر یہ لوگ ایک بار کھڑے ہو جائیں تو انہیں اپنے ماضی اور حال کا ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ بہت ہی ہیبت ناک اور اپنے ہی لوگوں کے خلاف بے شمار سازشوں سے بھر پور نظر آئے گا ۔ وہ دوست جو ہم سے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے باہم تعاون کرنے کی درخواست کرنے کی وجہ پوچھتے تھے اب شائد اتنا سمجھ چکے ہونگے کہ ہماری حقیر تجویز کو نظر انداز کرکے نہ صرف عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا اصل چہرہ ایک بار پھر کشمیریوں کے سامنے بے نقاب ہوا لیکن ساتھ ہی ساتھ عام کشمیریوں کو یہ سمجھنے میں بے حد آسانی ہونی چاہئے کہ یہ دونوں نہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور نہ ہی ان کی منزلیں جدا ہیں بلکہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے عوض کشمیریوں کے مفادات کو تاراج کرنے کا ٹھیکہ ہر حال میں نئی دلی نے ان دونوں خاندانوں کے سپرد کیا ہوا ہے ۔