ارض فلسطین پر قابض اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ ایک بڑے وفد کے ساتھ حا ل ہی میںہندوستان کے 6 روزہ دورے پر نئی دلی آئے۔ یہ 2003میں ایریل شیرون کے بعد کسی اسرائیلی لیڈر کا بھارت کا پہلا دورہ ہے۔ گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی میں بیت المقدس پراقوام متحدہ کے جن ارکان ممالک نے جو قرارداد منظور کی تھی اس میں بھارت بھی شامل تھا۔ 128 ؍ممالک نے امریکی صدر ٹرمپ کے اس اقدام کی نفی میں یہ قرارداد منظور کی جس میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، صرف 9 ؍ارکان نے اس قرارداد کی حمایت کی تھی جن میں خود امریکا اور اسرائیل بھی شامل تھے۔
اسرائیلی حکومت نے اس وقت بھارت کے اس مخالف ووٹ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا لیکن اب اس کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو بھلا کر ہندوستان کے ساتھ بڑے پیمانے پر تعلقات بڑھانا چاہتا ہے۔ اس سے پہلے ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ اسلحہ فراہمی کا ایک ٹھیکا بھی منسوخ کیا تھا ،البتہ گزشتہ سال جب بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا تو اس موقع پر دونوں ممالک کی درمیان کئی دفاعی اور تجارتی معاہددوں پر دستخط ہوئے تھے جن سے باہمی تجارت میں اضافہ ہوا ہے اور اب بھی اس دورے کا ایک بڑا مقصد کاروباری شراکت کو بڑھانا ہے۔ گزشتہ سال دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم 5 بلین ڈالر رہا۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی وزیراعظم کے وفد میں 130 کاروباری شخصیات شامل ہیں جو ہندوستان کی مختلف کمپنیوں کے ساتھ معاملات طے کرکے تجارتی معاہدے کرنا چاہتی ہیں۔
نیتن یاہو نے اپنے دورے کا ایک بڑا مقصد دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کا محاذ قائم کرنا بتایا ہے۔ اسرائیل ایک چھوٹا مگر عسکری لحاظ سے مضبوط ملک ہے ۔وہ کئی جنگتوں میں اپنے حریف عرب ممالک کو شکست سے دوچار کر چکا ہے۔ اس کے تمام مردوزن شہری فوجی تربیت یافتہ ہیں۔ اس کے پاس دنیا کا بہترین اسلحہ موجود ہے‘ اس کو عالمی سپر پاور امریکا کے علاوہ دیگر یورپی اقوام کی حمایت بھی حاصل ہے ۔اس کے باوجود وہ خطرات میں گھرا ہوا ملک ہے۔ وہ ان ممالک کے نرغے میں ہے جو اس کے وجود کوتسلیم نہیں کرتے۔ جن فلسطینیوں کو مار مار اس نے اپنے گھروں سے نکال باہر کیا ہے وہ بھی انتقامی جذبے سے سرشار اس کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ غزہ کے علاقے سے اب بھی اس پر مقامی خود ساختہ میزائلوں سے حملے ہوتے ہیں جس کا جواب وہ زیادہ سنگ دلی سے دیتا ہے۔ وہ ایک ایسا ملک ہے جو ہر وقت حا لتِ جنگ میں رہتا ہے اور اپنے وجود کے بارے میںفکر مند۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے۔ سوا ارب آبادی کا ملک جو ایک بڑی قوت بھی رکھتا ہے لیکن اس کو غربت کے علاوہ داخلی طور پرکئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کا ایک پڑوسی ملک چین عالمی طاقت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں اور دونوں کے باہمی تعلقات کسی بھی وقت ناخوش گوار ہوسکتے ہیں۔
اسرائیل کی طرح ہندوستان بھی ریاست جموں وکشمیر میں ایک طویل جنگ میں بر سرپیکار ہے ۔ کشمیر کی اس جنگ کو درپردہ انڈیا کے پڑوسی ملک پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ 8 لاکھ ہندوستانی فوج کشمیر کی سول آبادی سے برسرِ پیکار ہے جنہیں افسپا نامی سخت گیرقانون کے تحت غیر معمولی اختیارات حاصل ہے ۔ان کا بے دریغ ا ستعمال کر تے ہوئے فوجی اہل کار کشمیر میں بشری حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں میں ملوث بتائے جا رہے ہیں ۔اس کی تازہ مثال جنوبی کشمیر کے دیہات گنوپورہ شوپیان میںدو عام کشمیری نوجوانوں کی ایک فوجی جمعیت کے ہاتھوں ہلاکت ہے ۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ ا س نے اپنے دفاع میں گولی چلائی جب کہ عوام اس کی تردید کرتے ہیں اور فوج پر ماورائے عدالت قتل عمد کاالزام عائد کرتے ہیں۔ ۱۹۹۰ سے لے کرآج تک کشمیر میں ایک لاکھ کے قریب مقامی شہریجان بحق کئے گئے ہیں اور درجنوں بے نام قبریں بھی دریافت کی گئی ہیں ۔ بعض شہریوں کو گرفتاری کے بعد زیر حراست لاپتہ کر کر نے کا بھی فوج اور اسپیشل پولیس پر الزام عائد کیا جارہاہے۔ کشمیر میں متعددمسلم نوجوانوں نے بھارتی فورسز کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر رکھی ہے جس کو ہندوستان دہشت گردی کا نام دیتا ہے لیکن کشمیری اسے تحریک آزادی کانام دیتے ہیں ۔ کشمیر میں نئی دلی ویسے ہی آتشیں صورت حال سے دوچار ہے جیسے اسرائیل کو حماس‘ الفتح اور حزب اللہ جیسی تحریکوں سے پالاپڑا ہے اس لیے دونوں ملکوں کے قائدین واکابرین اسلحہ کی تجارت اور کاروباری لین دین کے علاوہ مزاحمتی تحریک کا توڑکر نے کے لئے ایک دوسرے کے تجربات اورمہارتوں سے فائدہ اٹھا نے کے لئے پر ہی نہیںتول رہے ہیں بلکہ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں دونوں ملک جاسوسی نظام اور عوامی مزاحمت کچلنے کے طور طریقوں اور آلات حرب وضرب کا امکانی طور تبادلہ کرسکتے ہیں۔
نیتن یاہو کے دورے کا ایک اہم پروگرام ممبئی کے تاج ہوٹل کا دورہ اور تقریب میں شرکت ہے جہاں 2008 میں دہشت گردی کا ایک بڑا خون ریز واقعہ رونما ہوا تھا ،جس میں مقامی افراد کے علاوہ امریکی اور یہودی سمیت کئی غیر ملکی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ہندوستان میں انتہائی قلیل التعداد یہودی کمیونٹی کے نمائندوں سے بھی نیتن یاہو کی ملاقات کرائی گئی۔ ایک ایسے گیارہ سالہ لڑکے موشے سے بھی انہوں نے ملاقات کی جس کے ماں باپ اس حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اس حملے کے الزام میں ایک ملزم پاکستان کے شہری اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ تاج ہوٹل پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام پاکستان مقیم عسکری تنظیم لشکر طیبہ پر لگایا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اورہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں اس پر پابندی بھی لگائی جا چکی ہے۔ لشکر کے سابق سربراہ حافظ سعید کو اسی وجہ سے امریکہ نے عالمی دہشت گردوں کی اپنی فہرست مین شامل کردیاہے جس کی توثیق اقوام متحدہ نے بھی کی۔
اسرائیلی وزیراعظم کے استقبال کے لئےممبئی میں تاج ہوٹل کے دورے کے علاوہ دنیا کی ایک بڑی فلم انڈسٹری بالی ووڈ کی ممتاز شخصیات سے بھی مہمان وفد نے ملاقات کی جن میں سدا بہار فلمی شخصیت امیتابھ بچن اور ابھیشک بچپن بھی شامل تھے۔ اسرائیل ہندوستان میں جن شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس میں فلمی صنعت بھی شامل ہے جو دنیا میں ایک منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے۔ اسی فلمی صنعت سے جہاں بے شمار افراد وابستہ ہیں وہاں ہندوستانی مذہبی انتہا پسند تنظیمیں بھی اس سےخوب مال سمیٹتی ہیںاور اسے اپنے افکار کی تشہیر کے لئے استعمال کر تی ہیں۔
اسرائیل کےمہمان جوڑے کو خاص طور پر دنیا کے 7 بڑے عجائبات میں شامل تاج محل کی بھی سیر کرائی گئی جسے آگرہ میں ہندوستان کے مسلمان بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی ملکہ کی محبت میں تعمیر کروائی تھی اور اب یہ شاندار عمارت دنیا بھر کی سیاحت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ نیتن یاہو اور اس کی بیوہ سارہ نے اس موقع پر اپنی خاص تصاویر بھی بنوائیں جو دنیا بھر کے اخبارات کی زینت بنیں۔ اس موقع پر تمام سیاحوں کو تاج محل سے نکال دیا گیا تھا۔ اترپردیش کی ریاستی حکومت نے گرچہ تاج محل کو سرکاری سیاحتی فہرست سے خارج کردیا مگر ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے نیتن یاہو کا یہیں سواگت کیا۔اسرائیلی وفد نے بھارتی وزیراعظم کے آبائی صوبے گجرات کا بھی دورہ کیا جس کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماڈل صوبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو نے اپنے وفد کے کاروباری شرکا کے ہمراہ کئی تجارتی مراکز اور صنعتی اداروں کادورہ کیا اور سرمایہ کاری کے لیے کئی منصوبوں پر تبادلہ خیال ہوا۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ ہندوستان کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر اتفاق ہو جائے لیکن بھارتی قیادت نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ بھارتی منڈیوں میں اسرائیلی مصنوعات کی کھپت پر بھی کئی مسائل کا اندیشہ ہے۔ بھارتی انتہا پسند گروہ غیر ملکی سامان کی فروخت کے خلاف عوامی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے چینی اور پاکستانی ساختہ اشیاء کو خاص طورپر ہدف بنانے کے ساتھ دیگر غیر ملکی مصنوعات کو بھی ملکی معیشت اور دیسی صنعتوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے لیکن اسرائیلی وفد کے ارکان بھارتی مارکیٹوں میں اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہیں ہند سرکار کی آشیرباد درکار ہے۔
اس وقت دنیا میں امریکا‘ اسرائیل اور بھارت مل کر ایک نئے بلاک کی صورت میں ابھر رہے ہیں۔ یہ تینوں ایٹمی ممالک ہیں اور بظاہر ان کے درمیان قدرِ مشترک نظر نہیں آتیں لیکن اس کے باوجو دیہ باہم اشتراک و تعاون کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل پہلے سے یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے تھے لیکن بھارت اس میں اضافہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق قدامت پسند ری پبلکن پارٹی سے ہے اور وہ خود کیتھولک عیسائی ہیں جب کہ نیتن یاہو کا تعلق قدامت پسند لیکوڈ پارٹی سے ہے اور وہ یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور صہیونیت کی تحریک سے وابستہ ہیں ۔ نریندر مودی ہندو انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہیں جو ہندو توا کی علمبردار ہے ، اس لیے یہ دنوں مختلف مذاہب اور نظریات کی حامل شخصیات ہیں لیکن باہمی مفادات اور مزاج و سوچ کی یکسانیت نے ان کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ ہندوستان جو خود کو سیکولر ریاست قرار دیتا ہے اور ایک زمانے میں غیر جانبدار تحریک اور روسی کمیونسٹ بلاک سے منسلک تھا ،اب آہستہ آہستہ امریکی اتحادی بن چکا ہے جس کا اظہار سابق امریکی صدر اوباما کے دور سے ہو رہا تھا لیکن اب ٹرمپ نے کھل کر اس کو بیان کر دیا ہے ۔ بھارت ان دونوں ممالک کے مقابلے میں کئی گنا بڑا ہونے کے باوجود غریب ملک ہے اور ترقی پذیر ہے، اس لیے اس کو بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے جس کے لیے امریکی اور اسرائیلی صنعت کار تیار ہیں ۔کیونکہ وہ اور چیزوں کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان کی ایک ارب سے زائد آبادی کو ایک بڑی تجارتی منڈی کی صورت میں بھی دیکھتے ہیں اور اس سے مادی فائدہ اٹھانے کے آرزو مند ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے سے کچھ پہلے بھارتی سینا کے چیف آف اسٹاف جنرل بیپن روات نے اپنے پے در پے بیانات میں ہمسایہ ممالک کو دھمکی آمیز پیغامات دیے تھے۔ انہوں نے بیک وقت دو محاذ پر لڑنے کے لیے بھارتی فوج کی حکمت عملی اور صلاحیت کے حصول کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ Two points War کا نظریہ کافی عرصے سے بھارتی عسکری حلقوں میں زیر بحث رہا ہے۔ بھارت چین اور پاکستان سے بیک وقت جنگ لڑنے کی تیاری کر رہاتھا لیکن اب جنرل روات کا کہنا ہے کہ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ چین اگر لداخ اور ارونا چل پردیش کے محاذ پر لڑے گا اور پاکستان کشمیر اور سیالکوٹ کے محاذ کھولے گا تو بھارت ان سب محاذ پر ان کو شکست دے گا۔ اس کے رافیل طیارے‘ براہموس میزائل اور ایٹمی صلاحیت ان دونوں ممالک کو ناکوں چنے چبوا سکتا ہے لیکن بھارتی جنرل کے یہ دعوے کئی لحاظ سے محلِ نظر ہیں۔ بھارتی فوج کا تربیتی معیار اور اسلحہ کی صورت حال اس معیار کی نہیں جس کی بنیاد پر وہ کامیاب جنگی حکمت عملی بنا سکے۔ کیا امریکا اور اسرائیل اس کی اس کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ اسرائیل پہلے بھی کشمیری مزاحمت کاروں کے خلاف حکمت عملی میں بھارت کو تیکنکی مشورے دے چکا ہے۔ وہ ڈرون ٹیکنالوجی بھی بھارت کو دینا چاہتا ہے لیکن اس کی قیمت بھی وصول کرنا چاہے گا۔ اسی طرح امریکا بھی F-16 جہاز بھارت کو مفت میں نہیں دینا چاہتا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے کچھ تقاضے ہیں کیا بھارت اپنے مفلوک الحال عوام سے یہ قیمت وصول کرے گا؟ تاریخ پورے تجسس کے ساتھ اب یہ دیکھنے گی کہ امریکہ ، انڈیا، اسرائیل کاباہمی ربط وتعلق خطے میں تعمیر ترقی اور امن وآشتی کا ضامن بنے گا یا جنوب ایشا کو باہمی رقابت وعداوت کی تاریکیوں مین دھکیل د ے گا۔ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ جس کا امریکہ دوست بنا، اس کے لئے نحوستوں کی بارشیں آج نہیں تو کل ضرور ہوتی ہیں ۔